خلفائے احمدیت کی خدمت قرآن
آنحضرتﷺ کی بیان فرمودہ پیش خبریوں کے مطابق حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی بعثت کے وقت عالم اسلام کی یہ کیفیت تھی کہ قرآن مجید کے الفاظ باقی رہ گئے تھے۔ مسلمان تلاوت تو کرتے تھے مگر حقائق و معارف پر کسی کی نظر نہ تھی۔ قرآنی علوم کا بیش بہا خزانہ غلط تفاسیر اور رطب و یابس کے نیچے دبا پڑا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تائید یزدانی سے دنیا کو تفسیر کے بیش بہا خزانے عطا کرنے کے علاوہ قرآن مجید سے شغف رکھنے والے لوگوں کے لیے تفسیر کے حکیمانہ اصول بھی بیان فرمائے اور اپنے مسیحی انفاس سے ایسے عشاقِ قرآن پیدا کیے جنہوں نے اس بحر بے کنار کے جواہرات نکال کر دنیا کو اس قد رروحانی خزائن عطا کیے کہ جب تک علم تفسیر باقی ہے ان عشاق کے نام زندہ جاوید رہیں گے۔
قرآن مجید خدا تعالیٰ کا ایک ایسا معجزہ ہے کہ جس کے علوم و معارف کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ایک لامتناہی خزانہ ہے جو وقت کے ساتھ اورمتلاشیان حق کی پاکیزہ استعدادوں کے مطابق اپنے معارف اور حقائق سے آگاہی دیتا ہے۔ اس طرح قرآن مجید کایہ بیان لَایَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْن (واقعہ:۸۰)ہرزمانہ میں برحق ثابت ہوتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت قرآ ن
’’مجھے قرآن مجیدسے بڑھ کرکوئی کتاب پیاری نہیںلگتی ہزاروں کتابیں پڑھی ہیں ان سب میں مجھے خداہی کی کتاب پسندآئی۔ مجھے قرآن مجیدسے محبت ہے اوربہت محبت ہے۔ قرآن مجیدمیری غذاہے۔میں سخت کمزورہوتاہوں قرآن مجید پڑھتے پڑھتے مجھ میں طاقت آجاتی ہے۔‘‘ (الحکم نمبر۲۷۔۷ا؍گست ۱۹۱۱ء صفحہ۹)یہ بیان اس شخص کا ہے جسے خدا نے مسیح پا ک ؑکے عشاق میںداخل کیا اوردین اسلام کے لیے اسے خلیفۃ المسیح الاولؓ کے طور پر چنا۔
حضرت حکیم مولانا نورالدین خلیفۃ المسیح الاولؓ ایک عاشق قرآن تھے۔ آپ کو ہر وقت یہی لگن تھی کہ قرآن مجید کے حقائق و معارف بیان کیے جاویں اورلوگ زیادہ سے زیادہ ایسی مجالس میں جمع ہو کر قرآن مجید کے نور سے منور ہوں۔ چنانچہ آپ کو طالب علمی کے زمانہ میں قرآن کریم کے علوم حاصل کرنے کا شوق رہا۔ آپ نے ہندوستان بھر کے چوٹی کے علماء سے قرآن مجید اور حدیث کا علم حاصل کیا۔ اس کے بعد آپ مکہ و مدینہ حصول علم کے لیے تشریف لے گئے اور مختلف اساتذہ سے استفادہ کیا۔ بچپن سے لے کراپنی وفات تک آپ قرآن مجید پڑھنے اور پڑھانے میں لگے رہے۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں :’’میں نے اپنی ماں کے پیٹ میں قرآن مجید سنا اور پھر ان سے ہی پڑھا۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ رحم کرے میری والدہ پر، انہوں نے اپنی زبان میں عجیب عجیب طرح کے نکاتِ قرآن مجھ کو بتائے۔‘‘ (مرقات الیقین صفحہ ۱۹۵)
ریاست جموں میں درس
مسلمانوں کے زوال کا ایک اہم سبب قرآن مجید نے یہ بیان کیا ہے کہ وَقَالَ الرَّسُوْلُ یَا رَبِّ اِنَّ قِوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْآنَ مَھْجُوْرًا۔ (الفرقان:۳۱) حضرت مولانا حکیم نورالدین (خلیفۃ المسیح الاولؓ ) کو اس بات کا بخوبی احساس تھا اور آپ کے دل میںمسلمانوں کا بے پناہ درد تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ مسلمان عاشق قرآن بن جائیں۔اس مقصد کے لیے آپ نے ساری زندگی قرآن کے حقائق و معارف بیان کیے تاکہ مسلمان اس قرآن مجید کی پُر حکمت باتوں کو سمجھیں اوران پر عمل کریں۔
چنانچہ ریاست جموںکی ملازمت کے دوران بھی آپ درس القرآن دیا کرتے تھے اورلوگ ذوق شوق سے آکر شامل ہوا کرتے تھے۔ خود مہاراجہ جموں کشمیر نے بھی آپ سے قرآن مجید پڑھنے کی درخواست کی جس پر آپ نے مہاراجہ کو پندرہ پارے پڑھائے۔ (ماخوذازحیات نور)
قادیان میں درس
پھر حضرت مسیح موعود ؑکی غلامی میں آنے کے بعد یہ درس و تدریس کا سلسلہ مزید بڑھا،قادیان میں آپ کے درس کا نقشہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حسب ذیل الفاظ میں کھینچاہے۔فرماتے ہیں:’’یہ درس مسجد اقصیٰ میں ہوا کرتا تھا اوراوائل زمانہ میں کبھی کبھی خود حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ بھی اس درس میں چلے جایا کرتے تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے درس میں اعلیٰ درجہ کی علمی تفسیرکے علاوہ واعظانہ پہلو بھی نمایاں ہوتاتھا۔ ‘‘ (الفضل ۶؍ دسمبر ۱۹۵۰ء)
قرآن سے محبت
منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد باوجود بے پناہ ذمہ داریوں کے درس قرآن کو آپ کی مصروفیات میںاولیت حاصل رہی اورقرآن کا درس دینے کے لیے ہمیشہ مستعدرہے۔ فرماتے تھے:’’قرآن شریف کے ساتھ مجھ کو اس قدر محبت ہے کہ بعض وقت تو حروف کے گول گول دوائر مجھے زلف محبوب نظر آتے ہیں اورمیرے منہ سے قرآن کا ایک دریا رواں ہوتاہے اورمیرے سینے میں قرآن کا ایک باغ لگا ہوا ہے۔ بعض وقت میں حیران ہو جاتا ہوں کہ کس طرح اس کے معارف بیان کروں۔‘‘ (بدر ۱۹؍اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحہ۳کالم ۲)
اعتکاف کے دوران درس
اپنی خلافت کے پہلے سال ۱۹۰۸ء میں آپ مسجد مبارک میں اعتکاف بیٹھے۔آپ کی فیض رساں طبیعت نے اس خلوت میں بھی جلوت کا رنگ دکھایا اوروہاں بھی قرآن مجیدسناناشروع کیا۔تاریخ احمدیت میں اس کااحوال یوں لکھاہے کہ ’’صبح سے ظہرکی اذان تک اور پھر بعدنمازظہر سے عصر تک اورعصرسے شام تک اورپھرعشاء کی نمازکے بعد تک تین پارے ختم کرتے تھے۔ (گویا کہ سارا دن قرآن کریم کا درس چلتا تھا)مشکل مقامات کی تفسیر فرما دیتے اورسوالوںکے جواب بھی دیتے جاتے۔ ‘‘ (تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۲۲۰)
درس جاری رہے
۱۹۱۰ء میں حضورؓ گھوڑے سے گر کر زخمی ہوگئے۔ آپ کی بیماری سے جماعت کو جو نقصان پہنچا اس میں آپ کے درس قرآن کی محرومی سب سے بڑا نقصان تھا جس کا آپ کو خودبھی بہت احساس تھا۔چنانچہ آپ نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمدصاحبؓ کو حکم دیا کہ عصر کے بعدقرآن کریم کا درس دیا کریں اوراگر وہ کسی وجہ سے نہ دے سکیں تو حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحبؓ درس دیں۔اگر وہ بھی نہ دے سکیں تو قاضی امیر حسین صاحبؓ درس دیں۔ (الحکم ۱۴؍ فروری ۱۹۱۱ء صفحہ۴ کالم ۱)اس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی روحانی توجہ اورباربار ترغیب کے نتیجہ میں جماعت کے اندرقرآن کریم کا درس دینے اوردرس سننے کا خاص ذوق پیدا ہوگیا۔
بیماری کے ایام میں درس القرآن
جب آپؓ جنوری ۱۹۱۴ء کے شروع میں بیمار ہوئے تو باوجود بیماری اورکمزوری کے حسب معمول مسجد اقصیٰ میں تشریف لے جاکر ایک توت کے درخت کا سہارا لے کر درس القرآن دیتے رہے۔ گو رستہ میں چند مرتبہ ناتوانی کی وجہ سے قیام بھی کرلیتے تھے۔ جب کمزوری بہت بڑھ گئی اورمسجد کی سیڑھیاں چڑھنا دشوار ہو گیاتو بعض دوستوں کے اصرار پر مدرسہ احمدیہ کے صحن میں درس دینا شروع فرمادیا۔ ان ایام میں آپ نقاہت کی وجہ سے دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر تشریف لاتے تھے۔ اوراس طریق پر واپس تشریف لے جاتے تھے۔ مگر جب ضعف اور بھی بڑھ گیااور دوسروں کے سہارے بھی چلنا مشکل ہوگیاتو اپنے صاحبزادہ عبدالحی صاحب کے مکان میں درس دیتے رہے اور آپ کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ اپنے آقا و مطاع آنحضرت ﷺ کی سنت کے مطابق کھڑے ہوکر درس دیا جائے۔ مگر آخری دو تین ہفتے جب اُٹھنے بیٹھنے کی طاقت نہ رہی اورڈاکٹروں نے درس بند کردینے کا مشورہ دیا تو فرمایا کہ قرآن کریم میر ی روح کی غذا ہے اس کے بغیر میرا زندہ رہنا محال ہے لہٰذا درس مَیں کسی حالت میں بھی بند نہیں کرسکتا۔ (حیات نور صفحہ ۶۹۳)
غالباً انہی ایام کا ذکر کرتے ہوئے الفضل لکھتا ہے: ’’ضعف کا یہ حال ہوگیا کہ بغیر سہارے کے بیٹھنا تو درکنارسر کو بھی خودنہیں ہلاسکتے تھے۔ اس حالت میں ایک دن فرمایا کہ بول تو میں سکتا ہوں خدا کے سامنے کیا جواب دونگا۔ درس کا انتظام کرو میںقرآن مجید سنادوں۔‘‘
بیٹے کوآخری وصیت
آپ کے دل میں قرآن کی محبت اوراشاعت کی اس قدر فکر تھی کے بوقت وصال اپنے بیٹے میاں عبد الحی کوبلاکروصیت فرمائی کہ’’تم کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی کتاب کو پڑھنا پڑھانا اور عمل کرنا۔ میں نے بہت کچھ دیکھا قرآن جیسی چیز نہ دیکھی۔بےشک یہ خداتعالیٰ کی اپنی کتاب ہے۔‘‘(الفضل ۱۸؍مارچ۱۹۱۴ءصفحہ۱)
حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت قرآن
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات کے بعد خداتعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ کو خلافت جیسے عظیم منصب پر فائز کیا اور حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی کے مطابق کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر کرنے کے لیے حضرت مصلح موعودؓ نے قرآن مجید کی تفاسیر کا ایک بیش بہاخزانہ متعارف کروایا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ابتدا میں آسمان احمدیت پر ابھرتے ہوئے اس ستارہ کی طرف اپنوں اورغیرو ں کی نظریں اسی وجہ سے اٹھنی شروع ہوئیں تھیں کہ آپ کی زبان اور قلم سے قرآن مجید کے معارف اس طرح بیان ہوئے تھے جو کسی نو عمر نوجوان کی استعداد سے کہیں بڑھ کر تھے۔ اس کے ساتھ ہی اگر یہ امر بھی مد نظر رکھا جائے کہ بچپن میں آپ کی صحت کی کمزوری کے پیش نظر آپ کی تعلیم کازیا دہ اہتمام نہیں ہوسکاتھا تومعارف قرآنی کابیان اور بھی غیر معمولی بات بن جاتی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ اکثر بیان فرمایا کرتے تھے کہ آپ نے تین ماہ میں قرآن مجید اور دو ماہ میں بخاری شریف کی تعلیم مکمل کی تھی اوروہ اس طرح کہ آپ کے استاد حضرت مولانا نورالدینؓ خودجلد جلد پڑھتے جاتے اوران کا یہ عظیم شاگرد صرف سن کر ہی علم حاصل کررہا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ طریق اورعرصہ تعلیم اتنا کم اورمختصر ہے کہ اس میں تو کسی علم کی بنیادی باتیں سیکھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ چہ جائیکہ قرآن وحدیث کے معارف و مطالب سیکھ لیے جائیں۔ ایسا کیوں تھا اس لیے کہ اس قادر اورعلیم خدا نے آپ کے متعلق فرما دیا تھا کہ’’ وہ جلد جلد بڑھے گا اورظاہری وباطنی علوم سے پر کیا جائے گا‘‘۔ نیزآپ کی پیدائش کی ایک غرض پیشگوئی مصلح موعودؓ میں یہ بھی بیان فرمائی گئی تھی کہ ’’تادین اسلام کا شرف اورکلام اللہ کامرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو۔‘‘
قرآن سے وابستگی
قرآن مجید سے آپ کو گہری وابستگی اورقلبی لگاؤ تھا۔قرآن کی عظمت وشان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’میں نے تو آج تک نہ کوئی ایسی کتاب دیکھی اورنہ مجھے کوئی ایسا آدمی ملا جس نے مجھے کوئی ایسی با ت بتائی جو قرآن کریم کی تعلیم سے بڑھ کر ہو یا کم از کم قرآن کریم کی تعلیم کے برابر ہو۔ محمد ﷺ کو خدا تعالیٰ نے وہ علم بخشاہے جس کے سامنے تمام علوم ہیچ ہیں۔‘‘ (الفضل ۳۰؍جون ۱۹۳۹ء)
قرآن کی عظمت
پھر آپؓ فرماتے ہیں :’’پس اے دوستو! میں اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان خزانے سے تمہیںمطلع کرتاہوں۔ دنیا کے تمام علوم اس کے مقابلہ میںہیچ ہیں۔ دنیا کی تمام تحقیقاتیں اس کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔ اوردنیا کی تمام سائنس اس کے مقابلہ میں اتنی حقیقت بھی نہیں رکھتی جتنی سورج کے مقابلہ میں ایک کرمِ شب تاب حقیقت رکھتاہے۔ دنیاکے علوم قرآن کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں۔ قرآن ایک زندہ خدا کا زندہ کلام ہے اوروہ غیر محدود معارف و حقائق کا حامل ہے۔ یہ قرآن جیسے پہلے لوگوں کے لئے کھلا تھا اسی طرح آج ہمارے لئے کھلا ہے…آج جبکہ دنیاکے علوم میں ترقی ہورہی ہے یہ پھر بھی کھلا ہے بلکہ جس طرح دنیوی علوم میں آج کل زیادتی ہو رہی ہے اسی طرح قرآنی معارف بھی آج کل نئے سے نئے نکل رہے ہیں… ہمیشہ ہی قرآن نئے سے نئے معارف پیش کرتا رہے گا…یہی وہ خزائن ہیں جو حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے تقسیم کیے اوریہی وہ خزائن ہیں جوآج ہم تقسیم کررہے ہیں۔ دنیااگر حملہ کرتی ہے تو پرواہ نہیں، وہ دشمنی کرتی ہے تو سو بار کرے، وہ عداوت وعناد کا مظاہرہ کرتی ہے تو لاکھ بار کرے۔ ہم انہیں کہتے ہیں کہ تم بے شک ہمارے سینوں میں خنجر مارے جاؤ،اگر ہم مرگئے تو یہ کہتے ہوئے مریںگے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے مارے گئے اوراگر جیت گئے تو یہ کہتے ہوئے جیتیںگے کہ ہم نے محمد ﷺ کا جھنڈابلند کردیا۔‘‘ (سیرروحانی صفحہ ۹۶،۹۵)
درس قرآن
قرآن مجید کی عظمت وشان اور مطالب بیان کرنے کی جو دھن آپ کو لگی ہوئی تھی وہ آپ کی زندگی کے ہر ہر لمحہ سے عیاں ہے۔ آپ کی سوانح کاہر ورق اس پر شاہدہے۔ آپ نے ۱۹۱۰ء میں اکیس سا ل کی عمر میں قرآن مجید کےدرس کاآغاز کیا۔ وسط ۱۹۱۳ء سے آپ نے دن میں دو دفعہ درس دینا شروع کیا اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ جاری رہا۔ اس طرح آپ نے ساری جماعت میں قرآن کریم کی محبت اوراس کے علوم سے بہرہ ور ہونے کی ایک نئی لگن پیدا کردی۔
آپؓ فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے… مجھے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا ہے اورمیرے اندر اس نے ایسا ملکہ پیدا کردیا ہے کہ جس طرح کسی کو خزانہ کی کنجی مل جائے۔ دنیا کا کوئی عالم نہیں جو میرے سامنے آجائے اور میں قرآن کریم کی افضلیت اس پر ظاہر نہ کرسکوں۔‘‘(الفضل ۲۶؍مئی ۱۹۹۰ء )
کتب،خطبات وتقاریر
حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیراوردوسری ہزاروں صفحات پر مشتمل کتب میں قرآن کریم کی تشریحات بیان فرمائیں۔آپ نے مشکل آیات کا حل بیان کرکے ثابت فرمایاکہ قرآن کریم کی کوئی آیت بھی منسوخ نہیںہوئی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے خاص عطاکردہ علم سے مقطعات قرآنیہ کے ایسے عظیم الشان معانی بیان فرمائے کہ دنیا حیران رہ گئی۔
چنانچہ ہندوستان کے ایک مشہور محقق علامہ نیاز فتح پوری نے ان معارف کو پڑھ کرکہا: یہ تفسیر قرآن اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیرقرآن ہے جس میںعقل ونقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے۔ آپ کی تبحر علمی آپ کی وسعت نظر آپ کی غیرمعمولی فکر وفراست، آپ کی حسن استدلال اسکے ایک ایک لفظ سے نمایاںہے۔ (الفضل ۲۶؍مئی ۱۹۹۰ء)
حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کی نصف صدی سے زیادہ عرصہ قیادت و راہنمائی فرمائی۔ اس عرصہ میں کم وبیش دوہزار خطبات جمعہ، خطابات جلسہ ہائے سالانہ اورعیدین پر خطبات کے علاوہ خدام، انصار، اطفال، لجنات اور مجلس تشحیذالاذہان، اسی طرح مدرسہ احمدیہ، جامعہ احمدیہ، جامعۃ المبشرین، ہائی سکول، کالج، احمدیہ نیشنل کور، انجمن ترقی، انجمن اشاعت اور آل انڈیاکشمیر کمیٹی کے جلسوں میں آپ کی ہزاروں پر معارف تقاریر قرآن مجید کی تشریح پر ہی مشتمل ہیںکیونکہ آ پ کا یہ طریق مبارک تھا کہ آپ بالعموم قرآن مجیدکے کسی مقام کی نہایت پیارے انداز میں تلاوت فرماتے پھر اس کی دلوں کو گرمانے والی تشریح فرماتے اوربعض مواقع پر آپ کی تقریر میںقرآنی تلاوت کے بغیر بھی قرآن مجید کے کسی مقام کی ایسی واضح اوردلنشین تشریح ہوتی کہ سننے والے کا ذہن خود بخود اس مقام کی طرف جاتا اوروہ علوم و معارف کی ایک نئی دنیا سے متعارف ہوجاتا۔ ان ہزاروں تقاریر اور خطبات کے علاوہ آپ کی تمام مستقل تصانیف بھی قرآنی انوارکی ایسی بارش کی طرح ہیںجو ضرورت کے وقت نازل ہوکر ہرگوشہ زمین کو سیراب کردیتی ہے۔
بیسویں صدی میں خدمت قرآن اوراشاعت قرآن کی جب بھی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میںلازمی طور پر اس عظیم خادم قرآن المصلح الموعود کا نہایت عزت و احترام کے ساتھ ذکر کیا جائے گا۔ جس نے اپنی ساری زندگی انوار قرآنیہ کو پھیلانے میں صرف کر دی۔
علم قرآن و خدمت قرآن
سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الر ابع ر حمہ اللہ تعالیٰ اس خدمت قر آن کا ذ کر کر تے ہو ئے فر ما تے ہیں: ’’آپؓ کا اٹھنا بیٹھنا،بولنا،سکوت تما م کا تما م قرآن کریم ہی سے پھو ٹتا تھا۔آپؓ کی فکر و نظر کا منبع قرآن تھا۔ آپؓ گفتگو فرماتے تھے تو قرآن کی تفسیر ہوتی تھی۔تقر یر فر ما تے تھے تو قر آن کی تفسیر ہو تی تھی،تحر یر فر ماتے تھے تو قر آن کی تفسیر ہوتی تھی۔اور اس پہلو سے آپ جتنی بھی حضورؓ کی کتب کا مطا لعہ کر یں گے ایک بھی کتاب ایسی نظر نہیں آئے گی جسکا مضمون قر آن کر یم سے نہ پھو ٹتا ہو…گھنٹوں حضورؓ کا تقریر کر نا،وہ سو زوگداز جس سے آپؓ تلاوت فر مایا کرتے تھے،وہ عشق قر آن جو آپؓ کے چہرے پر اس طر ح چھا جا تا تھا کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ چہرہ غائب ہو گیا ہے اور قرآن کا عشق با قی رہ گیا ہے۔‘‘ (خطا با ت طاہر ’’خطا با ت جلسہ سالانہ قبل از خلافت ‘‘ صفحہ ۱۷۸)
دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم قرآن
آپؓ کے زمانے میں قرآن کریم کی دنیا کی مختلف زبانوں میں اشاعت وتراجم کا کام بھی ہوا۔اور آپ کی خواہش یہ تھی کہ دنیا کے وہ ممالک جہاں عربی نہیں سمجھی جاتی وہاں بھی قرآنی انوار پہنچیں اور لوگ اپنی اپنی زبانوں میں قرآنی تعلیمات کا مطالعہ کر سکیں۔آپ کی خلافت میں سب سے پہلے انتہائی نا مساعد حالات کے باوجود انگریزی زبان میں ترجمہ و تفسیر کا کام مکمل ہوا۔اور آپ کی وفات کے وقت چودہ مزید زبانوں میں تراجم کا کام جاری تھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکی خدمت قرآن
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کو خلیفۃ المسیح الثالث مقرر فرمایا۔ آپ قرآن کریم کے عاشق صادق تھے۔ آپ نے بچپن میں قرآن کریم حفظ کیا اورخاندان مسیح موعود ؑمیں سب سے پہلے باقاعدہ واقف زندگی کا اعزاز حاصل کرکے ساری عمر قرآن کی خدمت میں کوشاں رہے۔
آپ نے اپنے پیش روؤں سے جو کچھ سیکھا تھا اس کا خلاصہ خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی یوں بیان فرمایا:’’خلیفہ وقت کا سب سے بڑا اوراہم کام یہی ہوتاہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم کورائج کرنے والا اورنگرانی کرنے والا ہو۔‘‘(الفضل ۲۷؍جولائی ۱۹۶۶ء )
آپ نے اپنے دور خلافت میں قرآن کی تعلیم عام کرنے اورقرآن کی برکات دنیا تک پہنچانے کے بارے میں نہایت اہم اقدامات فرمائے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر جماعت کو قرآنی انوار کے حصو ل کی طرف متوجہ کیا۔
قرآن جاننے اوروقف عارضی کی تحریک
جماعت میںوسیع پیمانے پرقرآن کریم ناظرہ، باترجمہ اورتفسیرجاننے کی سکیم جاری فرمائی اس پر عمل کرنے کے لیےوقف عارضی کا نظام قائم فرمایا اوریہ خواہش فرمائی کہ ہرسال کم از کم پانچ ہزار واقفین عارضی قرآنی تعلیم کو پھیلانے کے لیے جماعتوں میں دو سے چھ ہفتہ تک وقف کرنے جائیں۔ ایسے احمدی احباب اپنے خرچ پر یہ وقت گزاریں۔
اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے صدر انجمن احمدیہ کے زیر انتظام ایک نظارت یعنی نظارت اصلاح وارشاد تعلیم القرآن ووقف عارضی بھی جاری فرمائی۔ (الفضل ۲۶؍مئی ۱۹۹۰ء صفحہ ۱۳)
مجلس موصیان
تعلیم القرآن کا نظام وصیت سے بھی گہرا تعلق ہے اس لیےحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے موصی احباب پر مشتمل ایک مجلس موصیان ہر جماعت میں قائم فرمائی جس کے ذمے قرآن کریم کی تعلیم دینا اور قرآنی انوار کو پھیلانا تھا۔ (الفضل ۲۶؍ مئی ۱۹۹۰ صفحہ ۱۳)
ایک عظیم الشان کارنامہ
قرآن کریم کی اشاعت اور اسے دنیا کے کونے کونے میں پھیلانا ایسا کارنامہ ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بِاَیْدِی سَفَرَۃٍ کِرَامٍ بَرَرَۃٍ (سورۃ عبس آیت۱۶۔۱۷) یعنی یہ قرآن ایسے افراد جو سفر کرتے ہوئے دور نکل جاتے ہیں کے ذریعہ دنیا کے کناروں تک پہنچے گا۔ یہ پیشگوئی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ذریعہ بھی ایک عظیم الشان رنگ میں پوری ہوئی۔ چنانچہ آپ کے دور کا ایک عظیم الشان کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے دنیا بھرکے ہوٹلوں میں قرآن کریم رکھوانے کی ایک زبردست مہم جاری فرمائی۔ حضور رحمہ اللہ جب ۱۹۷۰ء میں مغربی افریقہ کے دورہ پر تشریف لے گئے تو آپ وہاں یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ ہرہوٹل میں بائبل کے نسخے اس غرض سے مہیاکیے گئے ہیں کہ ان ہوٹلوں میںقیام کرنے والے اس سے استفادہ کرسکیں۔ یہ صورت حال آپ کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی تھی۔ آپ نے بلاتوقف اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے یہ فیصلہ فرمایا کہ اس چیلنج کا جواب یہ ہے کہ مغربی افریقہ کے جن ممالک کا آپ نے دورہ کیا ہے وہاں کے ہر ہوٹل اورریسٹ ہاؤس میں قرآن مجید (مع انگریزی ترجمہ) کے نسخے مہیا کیے جائیں تاکہ وہاں پر قیام کرنے والے ہدایت اور نور کے اس چشمہ سے سیراب ہوسکیں۔ یہ خیال اولاً تو ایک بیج کی طرح دل میںپیدا ہوا تھا لیکن اس نے بڑھتے بڑھتے جلد ہی ایک منصوبے کی شکل اختیارکر لی۔ آپ نے سوچا کہ قرآن مجید کی اشاعت کو مغربی افریقہ کے ممالک تک کیوںمحدود رکھا جائے قرآن مجید تو تمام دنیاکے لیے اورروئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے۔ دنیا کے ہر مرد وعورت کالے گورے کو اس کی ضرورت ہے اورہرقوم اورنسل کے لوگوںکا یہ حق ہے کہ یہ آسمانی پیغام ان تک پہنچایا جائے۔ چنانچہ یہ خیال فوراً ہی ایک عظیم منصوبہ کی شکل میںڈھلتا چلاگیا۔ چنانچہ اکتوبر ۱۹۷۱ء سے اس پر باضابطہ عمل شروع ہوگیا اوریورپ، امریکہ، ایشیا، افریقہ، غرضیکہ جہاں جہاں مخلصین احمدیت سے بن پڑی انہوں نے قرآن کریم کے نسخے ہوٹلوں میںرکھوانے شروع کیے۔ چنانچہ ایک اندازے کے مطابق قرآن کریم کے ایک لاکھ نسخے دنیابھر کے ممالک کے مختلف ہوٹلوں میں احباب جماعت نے رکھوائے۔ (الفضل ۲۶؍مئی ۱۹۹۰ء صفحہ۱۳)
یہ امرخالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ اس سکیم کے تحت قرآن کریم دنیاکے ایسے دور دراز علاقوںمیںبھی پہنچایا گیا جہاں پر آج تک قرآن کریم کا ایک بھی نسخہ نہ پہنچا تھا۔ مثال کے طور پر قطب شمالی کے برفانی علاقے میںجہاںاسکیمو آباد ہیں اورجہاں جدید تہذیب کی روشنی بہت کم پہنچی ہے اورجہاںدن کے وقت بھی سال کے کئی مہینوں میں تاریکی یا نیم تاریکی رہتی ہے ایسی آبادیوںمیں بھی ایک احمدی دوست نے جو بغرض ملازمت وہاںمقیم تھے قرآن کریم کے کئی نسخے مقامی اسکیمو باشندوں تک پہنچائے۔ انہوںنے اس علاقے میںمختلف مقامات پر پینتیس نسخے قرآن کریم کے پہنچائے۔ (الفضل ۲۶؍مئی ۱۹۹۰ء صفحہ ۱۳)
انوار قرآنی کا بیان
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ زندگی بھر قرآن کریم کے انوار اپنے خطبات و تقاریر کے ذریعے بیان فرماتے رہے۔دیگر خلفائے کرام کی طرح آپ کی تمام گفتگو، تقاریر اور ارشادات کا محور و منبع قرآن کریم ہی کی آیات تھیں۔
قرآنی معارف کے مقابلہ کی دعوت
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ روئے زمین پر بسنے والے تمام لوگوں کو چیلنج کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْجِنُّ وَالْاِنْسُ عَلٰی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَالْقُرْآنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہ وَلَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا۔(بنی اسرائیل:۸۹) ترجمہ:تُو کہہ دے کہ اگر جِنّ و انس سب اکٹھے ہو جائیں کہ اس قرآن کی مثل لے آئیں تو وہ اس کی مثل نہیں لاسکیں گے خواہ ان میں سے بعض بعض کے مددگار ہوں۔
اس چیلنج کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوبارہ دنیا کے سامنے بڑی شد و مد سے پیش کیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے اس چیلنج کو دہراتے ہوئے فرمایا :’’کیتھولک فرقہ کا سربراہ اس وقت پوپ ہے اگرپوپ صاحب یہ چیلنج قبول کریں تو ہم مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اسی طرح عیسائیوں یا ہندوؤں کے دوسرے فرقے ہیں ان کے جوسردار ہیں وہ مقابلہ کے لئے آئیں… جو مختلف فرقوں کے سردار ہیں وہ اکیلے اس دعوت کو قبول کریں یا اپنے ساتھ سو یا ہزار یا دس ہزار آدمی ملاکربھی مقابلہ کرنا چاہیں تو ہم اس مقابلہ کے لئے تیار ہیں۔‘‘(خطبات ناصر جلد۲صفحہ۶۹۲)
۱۹۶۷ء کو دورہ یورپ کے دوران حضور نے کوپن ہیگن میں عیسائی دنیا کوحضرت مسیح موعود ؑ کا چیلنج دیا کہ اگر آپ سورت فاتحہ کے معارف ساری بائبل سے دکھا دیں تو مسیح موعودؑ کی مقرر کردہ انعامی رقم پانچ سو کو بڑھا کر پچاس ہزار روپے انعام دیاجائے گا۔
تراجم
سابقہ تراجم قرآن کی اشاعت کے ساتھ آپ نئی زبانوں میںتراجم کے لیے کوشاں رہے۔ جماعت کے وسائل اورطاقت کے لحاظ سے یہ ایک کٹھن کام تھا مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کے دور خلافت میں چھ نئی زبانوں میں قرآن کریم کاترجمہ ہوا۔(مصباح دسمبر ۱۹۸۲ء صفحہ۶۸)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت قرآن
اب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے دور خلافت کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ کا دور خلافت خدمت قرآن کے اعتبار سے ایک زرّیںدور تھا۔ آپ نے قرآ ن کریم کا اردو ترجمہ سورتوں کے مختصر تعارف کے ساتھ تحریر فرمایا جس میں قرآنی معار ف کو سمویا۔ آپ کے دور خلافت میں متعدد زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم ہوئے۔ ۱۱۷؍ زبانو ں میں قرآن کریم کی منتخب آیات کے تراجم صد سالہ جوبلی کے تحفہ کے طور پر شائع کیے گئے۔
دروس، خطبات، مجالس سوال وجواب
آپ کومسندخلافت پر متمکن ہونے سے قبل بھی کثرت سے مجالس سوال و جواب کے انعقاد کا موقع ملا جس میں قرآن مجید کے مختلف مضامین کو کھول کربیان کیا جاتا تھا۔ پھر خلیفۃالمسیح منتخب ہونے کے بعد معارف قرآنی کے بیان میںوسعت آتی گئی جن میں آپ کے خطبات ودروس کے ساتھ ساتھ کئی قسم کی مجالس سوال وجواب بھی شامل ہیں۔ حضور رحمہ اللہ رمضان المبارک میں قرآن کریم کا درس بھی دیا کرتے تھے جو مختلف ادوار میں انگریزی اوراردو میں جاری رہا۔ MTA کی نعمت سے قبل ان خطبات اوردروس کو جماعت تک پہنچانے کے لیے آڈیو اورویڈیو کیسٹس تیار کی جاتیں اور احباب جماعت ان سے مستفیض ہوتے تھے، پھر جب MTA کا آغاز ہوا تو ساری دنیا ان معارف سے ایک منفرد اندا ز میں سیراب ہونے لگی اور اب بھی ہو رہی ہے۔
آپ کاایک منفرد کارنامہ ایم ٹی اے پر سارے قرآن کا ترجمہ اور بعض تفسیری امور پر روشنی تھی جو ۳۰۵؍کلاسز کی صورت میں موجود ہیں اورقرآن کریم سیکھنے اورسمجھنے کے لیے عظیم تحفہ ہیں۔حضورنے یہ تحریک بھی فرمائی کہ جماعت ان کلاسوں سے استفادہ کرے او ر اگر ایم ٹی اے پر سننا ممکن نہیںتو ان کی ویڈیو کیسٹس کا استعمال کیا جائے۔
آپ نے قرآن کریم پڑھنے اورسیکھنے سے متعلق متعدد تحریکات فرمائیں اوربیشمار مرتبہ اس مقصد کے لیے خطبات ارشاد فرمائے۔
ایک دفعہ فرمایا:’’کلام الٰہی سے محبت ایک ایسی چیز ہے جو نسلوں کو سنبھالے رکھتی ہے… قرآ ن کریم پر زوردینا اورتلاوت سے اس کا آغاز کرنا بہت ہی اہم ہے… ہر گھر والے کا فرض ہے کہ وہ قرآن کی طرف توجہ دے، قرآن کے معارف کی طرف توجہ دے، ایک بھی گھر کا فرد ایسا نہ ہو جو روزانہ قرآن کے پڑھنے کی عادت نہ رکھتا ہو اورقرآن کریم کےمضامین سمجھ کر پڑھے اورجو بھی ترجمہ میسر ہو اس کے ساتھ ملاکر پڑھے… قرآن کریم کے ترجمے کے ساتھ پڑھنے کی طرف ساری جماعت کو متوجہ ہونا چاہئے۔ کوئی بھی ایسا نہ ہو جس کے پاس سوائے اس کے کہ شرعی عذر ہو جو روزانہ قرآن کریم کی تلاوت سے محروم رہے…
میں چاہتا ہوں کہ نئی صدی سے پہلے پہلے ہر گھر نمازیوں سے بھر جائے اور ہر گھر میں تلاوتِ قرآن کریم ہو۔ کوئی بچہ نہ ہو جسے تلاوت کی عادت نہ ہو۔ اس کو کہیں کہ تم ناشتہ چھوڑ دیا کرو مگر سکول سے پہلے تلاوت ضرور کرنی ہے اور تلاوت کے وقت کچھ ترجمہ ضرور پڑھو، خالی تلاوت نہ کرو۔ ‘‘ (خطبہ جمعہ بیان فرمودہ ۴؍جولائی ۱۹۹۷ء)
تلفظ کے ساتھ قرآن مجید پڑھنے کی تحریک
انٹرنیشنل مجلس شوریٰ ۱۹۹۱ء لندن میں حضورؒ نے ایک منفرد تحریک فرمائی کہ صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن مجید پڑھنے والے اساتذہ تیار کیے جائیں۔ فرمایا کہ ’’میںنے اگلے چار پانچ سال کامنصوبہ بڑے غورو فکر کے ساتھ بنایا ہے۔‘‘اس کے بعد حضورؒ نے تفصیلی ہدایات اور لائحہ عمل جماعت کو دیا جن پر عمل کرکے ان کلاسوں کو کامیاب بنایاگیا۔ (ماہنامہ انصاراللہ جولائی ۱۹۹۳ء صفحہ۳۲۔۳۳)
چند منفرد نکات
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُہ وَمَا نُنَزِّلُہ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ۔(سورۃالحجر آیت:۲۲) کہ کوئی چیز نہیں مگر ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں اور ہم اسے نازل نہیں کرتے مگر ایک معلوم اندازہ کے مطابق۔ گویا ہر چیز پنے وقت مقررہ پر ظاہر ہوتی ہے۔ خداتعالیٰ نے اس زمانہ کے لحاظ سے جو قرآنی معارف مخفی کیے تھے اسے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے اپنے دروس اور خطابات میں بڑی تفصیل اوربسط سے بیان فرمایا ہے۔ ان میں سے چند ایک احباب کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں۔
٭… خداتعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: لَا تُدْرِکُہ الْاَبْصَارُ وَ ھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ (الانعام :۱۰۴)آنکھیں اس کو نہیں پا سکتیں ہاں وہ خود آنکھوں تک پہنچتا ہے۔ حضور اس کی تشریح میںفرماتے ہیں کہ عوام الناس سمجھتے ہیںکہ نظر آنکھ کی پتلی سے نکل کر دور کی چیزوں کو دیکھتی ہے حالانکہ اس آیت میں اس کا واضح رد ہے اوربتایا گیا ہے کہ روشنی خود آنکھ تک پہنچتی ہے۔
٭…پھر اِنَّ اللّٰہَ لَایَسْتَحْیٖ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَھَا (البقرہ آیت: ۲۷ ) جس کا عام ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہیں شرماتا کہ مچھر کی مثال بیان کرے یا اس سے بھی چھوٹی (مثال بیان کرے)
لیکن حضور نے اس کا یوں ترجمہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہرگز اس سے نہیں شرماتا کہ کوئی سی مثال پیش کرے جیسے مچھر کی بلکہ اس کی بھی جو اس کے اوپر ہے۔ پھر اس کی تشریح میں فرماتے ہیں:فَمَا فَوْقَھَا سے مراد ہے کہ مچھر جو چیز اُٹھائے ہوئے ہے۔جو اس کے اوپر ہے اوروہ ملیریا کے جراثیم ہیں۔ دنیامیں سب سے زیادہ لوگ ملیریا اورملیریا سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے مرتے ہیں۔
٭… وَالسَّمٰوٰتُ مَطۡوِیّٰتٌۢ بِیَمِیۡنِہٖ(الزمر آیت: ۶۸) یعنی آسمان اس کے داہنی ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔کی تشریح میں فرمایاکہ لپٹے جانے کا جو ذکرملتا ہے یہ فی زمانہ سائنسی نظریات سے قطعی طور پر صحیح ثابت ہوتا ہے۔ یعنی زمین وآسمان اس طرح ایک فنا کے Black Hole میں داخل کردیئے جائیں گے جیسے وہ لپٹے جاچکے ہوں۔
٭…وَالسَّمَآءَ بَنَیۡنٰہَا بِاَیۡٮدٍ وَّاِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ (الذاریات:۴۸) جس کاترجمہ یہ ہے کہ اورہم نے آسمان کو ایک خاص قدرت سے بنایا اور یقینا ًہم وسعت دینے والے ہیں۔
فرمایا کہ اس کا یہ حصہ کہ ہم اسے مزید وسعتیں دیتے چلے جائیں گے ایک عظیم الشان اعجازی کلام ہے جو عرب کا ایک امی نبی اپنی طرف سے بیان نہیںکرسکتا تھا۔ یہ امر سائنس دانوں نے جدید آلات کی مدد سے اب دریافت کیا ہے کہ یہ کائنات ہرلمحہ وسعت پذیر ہے رسول اللہ کے زمانہ میں تو ہرانسان کو یہ ایک جامد اور ٹھہر ی ہوئی کائنات دکھائی دیتی تھی۔ (ماہنامہ انصار اللہ ستمبر ۲۰۰۳ء)
تراجم قرآن کریم
دور خلافت رابعہ میں تراجم قرآ ن کریم کا تاریخ ساز کام ہوا اور وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ کی پیشگوئی کا ایک نئے رنگ میں ظہور ہوا۔حضور نے قرآن کریم کے دیگر زبانوں میں معیاری مستند تراجم کا بے حد شوق اور جذبہ سے اہتمام کروایا۔چنانچہ آپ کے اکیس سالہ دور خلافت میں جن زبانوں میں معیاری تراجم کروا کر ان کی دید ہ زیب اور اعلیٰ معیار کی طباعت کا اہتمام ہوا، ان کی کل تعداد۵۷ہو چکی ہے۔نیز ان کے علاوہ دنیا کی کل ۱۱۷زبانوں میں مختلف مضامین پر مشتمل منتخب آیات کے تراجم بھی شائع کیے جا چکے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت قرآن
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دل میں قرآن کریم کی عظمت آپ کے بیان کردہ خطبات اور تقاریر سے بخوبی عیاں ہوتی ہے۔ آپ کا نوجوانی کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے پتا چلتا ہے کہ آپ قرآن کریم پڑھتے ہوئے آداب تلاوت کا کس قدر اہتمام فرماتے تھے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ’’ایک دفعہ میں وقف عارضی پر کسی کے ساتھ گیا ہوا تھا۔ تو ایک دن صبح کی نماز کے بعد ہم تلاوت سے فارغ ہوئے تو وہ مجھے کہنے لگے کہ میاں تم سے مجھے ایسی امید نہیں تھی۔میں سمجھا پتہ نہیںمجھ سے کیا غلطی ہو گئی۔ میں نے پوچھا ہوا کیا ہے۔ کہنے لگے کہ مَیںدو تین دن سے دیکھ رہاہوں کہ تم تلاوت کرتے ہو تو بڑی ٹھہر ٹھہر کے تلاوت کرتے ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اٹکتے ہو تمہیں ٹھیک طرح قرآن کریم پڑھنا نہیں آتا۔ تو میں نے ان کو کہا کہ اٹکتا نہیںہوں بلکہ مجھے اسی طرح عادت پڑی ہوئی ہے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا طریق ہوتا ہے…لیکن مَیں نے کہا مجھے تیز پڑھنا بھی آتا ہے بے شک تیز پڑھنے کا مقابلہ کر لیں لیکن بہرحال جس میںمجھے مزا آتا ہے اسی طرح میں پڑھتا ہوں، تلاوت کرتا ہوں۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بعض لوگ اپنی علمیت دکھانے کے لئے بھی سمجھتے ہیں کہ تیز پڑھنا بڑا ضروری ہے حالانکہ اللہ اور اللہ کے رسول کہہ رہے ہیں کہ سمجھ کے پڑھو تاکہ تمہیں سمجھ بھی آئے اور یہی مستحسن ہے۔ اور جیسا کہ مَیںنے کہا ہر ایک کی اپنی اپنی استعداد ہے۔ ہر ایک کی اپنی سمجھنے کی رفتار اور اخذ کرنے کی قوت بھی ہے تو اس کے مطابق بہرحال ہونا چاہئے اور سمجھ کر قرآن کریم کی تلاوت ہونی چاہئے۔ قرآن کریم کا ادب بھی یہی ہے کہ اس کو سمجھ کر پڑھا جائے۔ اگر اچھی طرح ترجمہ آتا بھی ہو تب بھی سمجھ کر، ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کا حق ادا کرتے ہوئے پڑھنا چاہئے تاکہ ذہن اس حسین تعلیم سے مزید روشن ہو۔پھر جب انسان سمجھ لے، ہر ایک کا اپنا علم ہے اور استعداد ہے جس کے مطابق وہ سمجھ رہا ہوتاہے جیسا کہ مَیں نے کہا لیکن قرآن کریم کا فہم حاصل کرکے اس کو بڑھانا بھی مومن کا کام ہے۔‘‘ (مشعل راہ جلدپنجم حصہ سوم صفحہ ۱۳۱)
حضر ت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی قرآن کریم کے متعلق چند تحریکات
آپ فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت ﷺنے ہمیںقرآن کریم پڑھنے کا طریقہ بھی سکھایا ہے، کس طرح پڑھنا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر صاف صاف پڑھو اور اس کے غرائب پر عمل کرو۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح)
غرائب سے مراد اس کے وہ احکام ہیںجو اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور وہ احکام ہیںجن کو کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔‘‘(مشعل راہ جلدپنجم حصہ سوم صفحہ ۱۰۸ )
پھر فرمایا:’’… ایک احمدی کو خاص طورپر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس نے قرآن کریم پڑھنا ہے، سمجھناہے، غور کرنا ہے اور جہاںسمجھ نہ آئے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وضاحتوں سے یا پھر انہی اصولوں پر چلتے ہوئے اور مزید وضاحت کرتے ہوئے خلفاء نے جو وضاحتیں کی ہیں ان کو ان کے مطابق سمجھنا چاہیے۔ اور پھر اس پر عمل کرنا ہے تب ہی ان لوگوں میں شمار ہو سکیں گے جن کے لیے یہ کتاب ہدایت کا باعث ہے۔ ورنہ تو احمدی کا دعویٰ بھی غیروں کے دعوے کی طرح ہی ہو گا کہ ہم قرآن کو عزت دیتے ہیں۔ اس لیے ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے کہ یہ صرف دعویٰ تو نہیں؟ اور دیکھے کہ حقیقت میں وہ قرآن کو عزت دیتا ہے؟ کیونکہ اب آسمان پر وہی عزت پا ئے گا جو قرآن کو عزت دے گا اور قرآن کو عزت دینا یہی ہے کہ اس کے سب حکموں پر عمل کیا جائے۔ قرآن کی عزت یہ نہیں ہے کہ جس طرح بعض لوگ شیلفوں میں اپنے گھروں میں خوبصورت کپڑوں میں لپیٹ کر قرآن کریم رکھ لیتے ہیں اور صبح اٹھ کر ماتھے سے لگا کر پیار کر لیا اور کافی ہو گیا اور جو برکتیں حاصل ہونی تھیں ہو گئیں۔ یہ تو خدا کی کتاب سے مذاق کرنے والی بات ہے۔ دنیا کے کاموں کے لیے تو وقت ہوتا ہے لیکن سمجھنا تو ایک طرف رہا، اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ ایک دو رکوع تلاوت ہی کر سکیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ۲۴؍ستمبر۲۰۰۴ء )
’’اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے اور فرشتوں کے حلقے میں آنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک قرآن کریم پڑھے اور اس کو سمجھے، اپنے بچوںکو پڑھائیں،انہیں تلقین کریں کہ وہ روزانہ تلاوت کریں۔ اور یاد رکھیں کہ جب تک ان چیزوں پہ عمل کرنے کے ماںباپ کے اپنے نمونے بچوںکے سامنے قائم نہیں ہوں گے اس وقت تک بچوںپہ اثر نہیں ہو گا۔ اس لئے فجر کی نماز کے لئے بھی اٹھیںاور اس کے بعد تلاوت کے لئے اپنے پر فرض کریں کہ تلاوت کرنی ہے پھر نہ صرف تلاوت کرنی ہے بلکہ توجہ سے پڑھنا ہے اور پھر بچوںکی بھی نگرانی کریںکہ وہ بھی پڑھیں، انہیں بھی پڑھائیں۔جو چھوٹے بچے ہیں ان کو بھی پڑھایا جائے۔ ‘‘ (الفضل ۷؍فروری ۲۰۰۶ء)
ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کی تحریک
قرآن کریم میں ہے کہ قُوْ ا اَنْفُسَکُمْ وَ اَھْلِیْکُمْ نَارًا۔ اس اصول کے تحت حضور ایدہ اللہ نے احباب جماعت کو یہ نصیحت فرمائی کہ ’’ہر احمدی کو اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ وہ خود بھی اور اس کے بیوی بچے بھی قرآن کریم پڑھنے اور اس کی تلاوت کرنے کی طرف توجہ دیں۔ پھر ترجمہ پڑھیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفسیر پڑھیں۔ یہ تفسیر بھی تفسیر کی صورت میں تو نہیں لیکن بہرحال ایک کام ہوا ہوا ہے کہ مختلف کتب اور خطابات سے، ملفوظات سے حوالے اکٹھے کرکے ایک جگہ کر دیے گئے ہیں اور یہ بہت بڑا علم کا خزانہ ہے۔ اگر ہم قرآن کریم کو اس طرح نہیں پڑھتے تو فکرکرنی چاہیے اور ہر ایک کو اپنے بارے میں سوچنا چاہیے کہ کیا وہ احمدی کہلانے کے بعد ان باتوں پر عمل نہ کرکے احمدیت سے دور تو نہیں جا رہا۔…‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۴؍ستمبر۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۸؍ اکتوبر۲۰۰۴ء)
قرآن کریم پر عمل کرنے کی تحریک
’’آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس رمضان میں اس نصیحت سے پُر کلا م کو جیسا کہ ہمیں اس کے زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی توفیق مل رہی ہے اپنی زندگیوں پر لاگو بھی کریں۔ اس کے ہر حکم پر جس کے کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کریںاورجن باتوں کی مناہی کی گئی ہے، جن باتوں سے روکا گیا ہے ان سے رکیں، ان سے بچیں اورکبھی بھی ان لوگوں میںسے نہ بنیں جن کے بارے میں خود قرآن کریم میںذکر ہے۔فرمایاکہ یَارَبِّ اِنَّ قَوْمِی ا تَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْآنَ مَہْجُوْرًا (الفرقان :۳۱) اوررسول کہے گا اے میرے رب! یقیناً میری قوم نے اس قرآن کو متروک کرچھوڑا ہے…
آج ہم احمدیوںکی ذمہ داری ہے، ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآنی تعلیم پر نہ صرف عمل کرنے والا ہو، اپنے اوپر لاگو کرنے والا ہو بلکہ آگے بھی پھیلائے اورحضرت مسیح موعودؑ کے مشن کو آگے بڑھائے اورکبھی بھی یہ آیت جومیںنے اوپر پڑھی ہے کسی احمدی کو اپنی لپیٹ میںنہ لے ہمیشہ حضرت مسیح موعودؑ کا یہ فقرہ ہمارے ذہنوں میں ہونا چاہئے کہ جو لوگ قرآن کوعزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ہم ہمیشہ قرآن کے ہرحکم اورہرلفظ کو عزت دینے والے ہوں اورعزت اس وقت ہو گی جب ہم اس پر عمل کررہے ہوں گے اورجب ہم اس پر عمل کررہے ہوں گے تو قرآن کریم ہمیںہر پریشانی سے نجات دینے والا اورہمارے لئے رحمت کی چھتری ہوگا۔ جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَنُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّرَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙ وَلَا یَزِیۡدُ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا خَسَارًا(بنی اسرائیل:۸۳) اورہم قرآن میں سے وہ نازل کرتے ہیں جو شفاہے اورمومنوں کے لئے رحمت ہے اوروہ ظالموں کو گھاٹے کے سوا اورکسی چیزمیں نہیں بڑھاتا۔‘‘ (الفضل ۱۱؍نومبر۲۰۰۵ء)
درس القرآن
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت قرآن میںسے ایک یہ بھی ہے کہ آپ نے رمضان کے اختتام پر متعدد مرتبہ قرآن کریم کا درس ارشاد فرمایا جس میں تمام دنیا کے احمدی MTA کے ذریعہ شریک ہوتے ہیں اور قرآنی معارف و حقائق سے مستفید ہوتے ہیں۔
تراجم قرآن کریم
خدا تعالیٰ کے فضل سے خلافت خامسہ کے اس مبارک دور میں قرآن کریم کے تراجم کی تعداد ۷۶؍ تک پہنچ چکی ہے۔ اوریہ کام جاری ہے۔
(https://www.alislam.org/quran/translations.pdf)
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے
اختتام
خلفائے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی اس خدمت قرآن کے دائرہ اثر و وسعت سے نہ مشرق باہر ہے اورنہ مغرب، نہ شمال باہر ہے اور نہ جنوب۔ مصر کا دریائے نیل تو اپنی طغیانی سے مصر کی زمین کو سیراب کرتا ہے مگر خلفائے سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ ساری دنیا میں کلام اللہ کا مرتبہ اس طرح ظاہر ہوا کہ اس نے ساری دنیاکو سیراب کیا اور دریائے نیل کی طغیانی تو کسی خاص موسم کی مرہون منت ہوتی ہوگی مگر یہاں جوسیرابی کا عمل شروع ہوا اس میں کبھی کمی نہیں آتی او ر اِس کا جاں بخش اور روح پرور عمل کسی دریا کے کنارے تک ہی محدود نہیں بلکہ زمین کے کناروں تک پھیل گیا اورقوموں نے اس سے برکت حاصل کی اورآئندہ بھی قیامت تک حاصل کرتی رہیں گی۔ ان شاء اللہ
خلفائے احمدیت کی خدمت قرآن بہت ہی وسیع مضمون ہے میں نے آپ کے سامنے اس کی چند جھلکیاں پیش کی ہیں۔ خدمت قرآن کا وقت ابھی ختم نہیں ہوا، اس کی خدمت کا میدان بڑا وسیع ہے۔ رحمانی اور شیطانی فوجوں کی یہ آخری جنگ ہے جس کا آغاز حضرت مسیح موعودؑ نے رحمانی فوجوں کے ساتھ کیا۔ اس کا فیصلہ قرآن کے ذریعہ ہوگا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ہم قرآنی انوار کی اشاعت کے لیے کمر بستہ ہو ں اور اپنا سب کچھ اس راہ میں قربان کر دیں یہاں تک کہ اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے اور قرآن کی حکومت لوگوں کے دلوں پر قائم ہو جائے اور اس شجرہ طیبہ کی شاخیں تمام دنیا پر محیط ہو جائیں اور قومیں اس کے سایہ تلے پناہ لیں اور اسلام کا جھنڈا تمام عالم میں لہرانے لگے اور خدا کی بادشاہت زمین پر قائم ہو جائے اور دنیا کا گوشہ گوشہ اللہ اکبر اور لا الٰہ الا اللہ کی صدا سے گونج اٹھے۔ اے خدا! تو ایسا ہی کر۔ آمین