منصب خلافت اور اس کی عظمت و برکت
خلیفہ کے معنی
خلیفہ کے لفظی معنے جانشین کے ہوتے ہیں۔قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کے انبیاء حضرت آدمؑ اور حضرت داؤدؑ کے بارے میں خلیفہ کا لفظ خلافت ونبوت کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔اس سے مراد دراصل خلافت الہیہ ہے جس کے ذریعہ ہرزمانہ میں ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صفات کا اظہار ہوا۔
انسان ہونے کے ناطے چونکہ انبیاء ورسل کی طبعی عمر محدود ہوتی ہے۔ اس لیے رسالت کی برکات دنیا میں جاری وساری رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ خلافت کا سلسلہ جاری فرماتا ہے۔ ایسے خلیفے نبی بھی ہوتے رہے اور غیر نبی بھی۔ جیسے حضرت موسیٰؑ کے بعد یہ دونوں قسم کے خلفاء ہوئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتاہے:’’یقیناً ہم نے تو رات اتاری اس میں ہدایت بھی تھی اور نور بھی۔ اس سے انبیاء جنہوں نے اپنے آپ کو (کلیۃً اللہ کے)فرمانبردار بنا دیا تھا یہود کے لیے فیصلہ کرتے تھے۔ اور اسی طرح اللہ والے لوگ اور علماء بھی اس وجہ سے کہ ان کو اللہ کی کتاب کی حفاظت کا کام سونپا گیا تھا(فیصلہ کرتے تھے)اور وہ اس پر گواہ تھے۔ (المائدۃ:۴۵)
خلافت کا وعدہ
رسول کریم ﷺ کے بعد قیام خلافت روحانی کا وعدہ سورۃ نور کی آیت استخلاف میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہوَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ(سورۃ نور:۵۶)تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ان سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لیے ان کے دین کو، جو اس نے ان کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔
اس آیت میں پہلی قوموں جیسے خلفائے روحانی کےعلاوہ خلافت علی منہاج النبوۃ کی بھی پیشگوئی تھی جس کے بارے میںنبی کریمؐ نے اپنے معاً بعد آنے والےخلفاء کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’بنی اسرائیل میں انبیاء اصلاح و احوال کرتے تھے اور جب کوئی نبی فوت ہوتا تھاتو اس کا جانشین نبی ہوتا تھا اور میرے (معاً)بعد نبی نہیں ہوگا بلکہ خلیفےہوں گے اور وہ کثیر ہوں گے۔صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ آپ ہمیں کیا ارشاد فرماتے ہیں فرمایا پہلے (خلیفہ)کی بیعت پوری کرنا تم انہیں ان کے حق ادا کرنا اور اللہ تعالیٰ ان سے اس کے بارے میں پوچھنے والا ہے جو انہوں نے لوگوں (کے حقوق) کا خیال رکھا۔ ‘‘ (بخاری کتاب الانبیاء باب ماذکر عن بنی اسرائیل)چنانچہ رسول کریم ﷺ کے بعد حضرت ابو بکر ؓپہلے خلیفہ ہوئے اور خلافت راشدہ کا سلسلہ مسلمانوں میں قائم ہوا۔حضرت عمرؓ کے دورمیں فتوحات ہونےپراس آیت سے خلافت راشدہ کا استد لال کرتے ہوئے حضرت علیؓ نےخوب تبصرہ کیا تھاکہ ’’اس دین کو فتح کبھی کثرت لشکر سے نہیں ہوئی اور نہ قلت لشکر سے شکست ہوئی بلکہ یہ اللہ کا دین ہے جسے اس نے خود غالب کیا اور یہ اسی کا لشکر ہے جسے اس نے عزت و قوت دی اور یہ دین وہاں پہنچا جہاں پہنچنا تھا۔ خدا کا یہ وعدہ تھا (کہ وہ خلافت کے ذریعہ دین کو غلبہ دے گا)پھر انہوں نے آیت استخلاف پڑھی۔‘‘ (نہج البلاغہ مطبوعہ مصر قسم سوم صفحہ۳۸۳)
خلیفہ خدابناتاہے
علمائے امت اور مفسرین کرام نے اس آیت استخلاف کو خلفائے راشدین کی خلافت پر ایک واضح دلیل قرار دیاہےاوریہ بھی کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ فرماتے ہیں:’’لَیَستَخلِفَنَّھُم کا مفہوم یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کو خلیفہ بنانے والا ہے اور ان کا خلیفہ بنانا اس کی طرف منسوب ہے (اس سے سمجھایا کہ بغیر اسباب ظاہری کے یہ لوگ خلیفہ بنائے جائیں گے بلکہ)اس کی حقیقت یہ ہے کہ خداتعالیٰ چونکہ مُدَبِّرَ السَّمَاوَاتِ وَ الْاَرْضِ(آسمانوں اورزمین کا انتظام کرنے والا)اور لَطِیۡفٌ لِّمَا یَشَآءُ(جس کے ساتھ چاہے لطف کا معاملہ کرنے والا ہے) لہذا جس وقت عالم کی بہتری خلیفہ کے مقرر ہونے میں ہوتی ہے تو وہ امت کے دلوں میں ڈال دیتا ہے کہ جس شخص کو حکمت الٰہی بنانا چاہتی ہے اس کو خلیفہ بنالیں (خداکے کام کرنے کا طریقہ عالم اسباب میں یہی ہے کہ بندوں کے دل میں اس کام کا شوق پیدا کرکے ان سے اس کام کو کرالے)درحقیقت تمام عدم سے وجود میں آنے والی چیزیں حق تعالیٰ کی طرف منسوب ہیں مگر جب کسی واقعہ میں الہام الٰہی خیر قائم رکھنے کے لیے ہوتا ہے یا اس کی تائید بطورخارق عادت کے اس میں شامل ہوجاتی ہے یا کوئی بات اس قسم کی ہوجاتی ہے جو اس واقعہ کو حق تعالیٰ کے ساتھ مزیدخصوصیت دے دے وہاں اس قسم کا استعمال کرتے ہیں۔‘‘ (ازالۃ الخفاءعن خلافةالخلفاءمترجم جلد اول صفحہ ۷۸،۷۷مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)
ایک اَور موقع پر حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے فرمایا:’’استخلاف اور تمکین فی الارض کے وعدہ کا ظہور انہیں مہاجرین اولین اور نزول آیت استخلاف کے وقت موجود رہنے والے حضرات کے ذریعے ہوا،اور اگر یہ لوگ خلیفہ نہیں تھے تو اس وعدہ کا ظہور ہی نہیں ہوا،اور نہ قیامت تک ہونے والاہے تعالی اللّٰہ عَنْ ذَالِکَ عُلُوًّا کَبِیْرًا۔‘‘ (ازالۃ الخفاءعن خلافةالخلفاء جلد ۱صفحہ۳۲)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس آیت سے خلافت راشدہ اور اپنے بعد قائم ہونے والی خلافت مرا د لی ہے۔ آپؑ نے فرمایا: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی…اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو کھڑا کرکے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایااور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا۔ یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے۔…قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھاتا ہے…میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ۳۰۵)
حضرت خلیفۃالمسیح الاول ؓ فرماتے ہیں: ’’کسی قسم کاخلیفہ ہو اس کا بنانا جناب الٰہی کا کام ہے۔آدمؑ کو بنایا تو اللہ نے، داؤدؑ کو بنایا تو اس نے،ہم سب کو بنایا تو اس نے۔پھر حضرت نبی کریم ﷺ کے جانشینوں کو ارشاد ہوتا ہے: وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا(النور:۵۶) جو مومنوں میں سے خلیفہ ہوتے ہیں ان کو بھی اللہ ہی بناتا ہے۔ان کو خوف پیش آتا ہے مگر خداتعالیٰ ان کو تمکنت عطا کرتا ہے۔جب کسی قسم کی بد امنی پھیلے تو اللہ ان کے لئے امن کی راہیں نکال دیتا ہے۔ جو ان کا منکر ہو اس کی پہچان یہ ہے کہ اعمال صالحہ میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ دینی کاموں سے رہ جاتا ہے۔‘‘(حقائق الفرقان جلد ۱صفحہ ۱۲۵-۱۲۶)
آیت استخلاف سے خلافت کا ثبوت
بعض لوگ اس آیت سے مسلمانوں میں بادشاہت قائم ہونے کا وعدہ مراد لیتے ہیں،حالانکہ ا س آیت میں واضح طور پر ایک دینی وروحانی خلافت پر روشنی پڑتی ہےجیسا کہ اس کے مختلف پہلوؤں سے ظاہر ہے:
۱۔اول یہ کہ اس خلافت روحانیہ کا وعدہ مومنوں اور اعمال صالحہ بجا لانے والوں کے ساتھ ہے کہ صرف انہیں میں سے خلیفہ ہوں گے گویا ایمان اور عمل صالح روحانی خلافت کی بنیادی شرط ہے،بادشاہت کے لیے یہ لازم نہیں۔
۲۔دوسرے اس آیت کے علاوہ دیگر کئی اور قرآنی آیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے خلافت کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی ہے۔ جو اس کے تقدس اور عظمت پر دلالت کرتی ہےجو بادشاہت کو حاصل نہیں۔
۳۔بے شک بظاہرمومنوں کی جماعت اپنے میں سے بہترین فرد کا انتخاب بطور خلیفہ کرتی ہے مگروعدہ الٰہی ’’خلیفہ خدا بناتا ہے‘‘ سے صاف ظاہر ہے کہ دراصل اللہ تعالیٰ مومنوں کے دلوں پر تسلط فرما کر انہیں بہترین نیک اور متقی شخص پر جمع کر دیتا ہے اورصرف اسے ہی خلیفہ بناتا ہے۔ جسے وہ چاہتا ہے جبکہ بادشاہوں میں نیک و بد اور ظالم و جابر ہر قسم کے بادشاہ ہو سکتے ہیں۔
۴۔خلفاء کی دیگر علامات اور کام جو اس آیت میں بیان ہیں وہ ان کے روحانی اور دینی مقام پر دلیل ہیں مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ ان خلفاء کے لیے دین اسلام کو وہ ترقی عطا فرماتا ہے۔ جو وہ ان خلفاء کے لیے پسند کرتا ہے یعنی محض دنیوی فتوحات نہیں بلکہ دینی و روحانی ترقی ساتھ ساتھ ہوتی ہے۔
۵۔اس آیت میں خلفاء کی عصمت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے لیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین اور طریق پر ہی چلتے ہیں۔ عام دنیوی بادشاہوں سے یہ وعدہ نہیں ہے۔ یہ علامت روحانی خلفاء کو ان سے ممتاز کرتی ہےکہ یہاں انہی کا ذکر ہے۔
۶۔دینی و روحانی خلفاء کواللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت لازماً نصیب ہوتی ہے اور خلیفہ برحق کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس کی جماعت کے خوف امن میں بدل دیتا ہے۔ یہ وعدہ بھی عام دنیوی بادشاہوں اور حاکموں کے ساتھ لازم نہیں ہے۔
۷۔دینی وروحانی خلفاء توحید حقیقی اور عبادت الٰہی کو قائم کرنے والے ہوتے ہیں۔ گویا اپنے زمانہ میں اللہ کے کامل اور موحّد بندے وہی ہوتے ہیں اوردنیامیں بھی ان کے ذریعہ توحید اور عبادت قائم ہوتی ہے اور خدا کے عبادت گزار بندے پیدا ہوتے ہیں جبکہ ہر بادشاہ کے ذریعہ یہ نیک کام سرانجام نہیں پاتے۔
۸۔ایسے خلفاء روحانی کی تمام علامات صداقت دیکھ کر ان کا انکار کرنے والے لوگ نافرمان کہلاتے اور عہد شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں جبکہ بادشاہوں پر ایمان لانا ضروری نہیں نہ ہی ان کے روحانی مقام کا انکار کرنے والے فاسق ہیں۔
نبی کریمؐ نے خلافت کے قیام کو الٰہی سنت قرار دیتے ہوئے فرمایاکہمَا کَانَتْ نُبُوَّ ۃٌ قَطُّ اِلَّا تَبِعَتْھَا خِلَافَۃٌ(کنز العمال جلد۱۱صفحہ ۲۱۶مطبوعہ بیروت بروایت عبد الرحمان بن سہل)کہ کوئی نبوت ایسی نہیں ہوئی جس کے بعد خلافت قائم نہ ہوئی ہو۔آپؐ نے اپنے بعد قائم ہونے والی خلافت علی منہاج نبوۃ کے پہلے دور کی پیشگوئی اپنے معاً بعد بیان فرمائی تھی جو خلافت راشدہ کی صورت میں پوری ہوئی۔ ان خلفاء کی سنت کو واجب العمل قرار دیتے ہوئے آپؐ نے امت کو ہدایت فرمائی: فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِی وَ سُنَّۃِ الخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیِنَ عَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِکہ تم پر میری سنت اور خلفاء راشدین کی سنت پر عمل واجب ہے جو ہدایت یافتہ ہوں گے تم اس کے ساتھ مضبوطی سے چمٹے رہو۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۴صفحہ ۱۲۶مطبوعہ بیروت)
خلافت علی منہاج النبوۃ کے دوسرے دورکی پیشگوئی
امت محمدیہ میں خلافت راشدہ کےبعدبھی خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے دوسرے دور کی پیشگوئی دور ملوکیت یعنی ظالم و جابر بادشاہتوں کے ادوار کے بعد کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔
عَن حُذَیفَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَکُونُ النُّبُوَّ ۃُ فِیکُم مَاشَآءَ اللّٰہُ اَن تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَ اشَآ ءَ اَن یَرفَعَھَااللّٰہُ تَعَا لیٰ ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃ عَلیٰ مِنھَاجِ النُّبُوَّۃِ فَتَکُونُ مَاشَآءَ اللّٰہُ اَن تَکُونَ ثُمَّ یَرفَعُھَا اِذَا شَآءَ اللّٰہُ تَعَالیٰ اَن یَرفَعَھَا ثُمَّ تَکُونُ مُلکًا عَاضًّا فَیَکُونُ مَاشَآءَ اللّٰہُ اَن یَکُونَ ثُمَّ یَرفَعُھَا اِذَا شَآ ءَ اَن یَرفَعَھَا اللّٰہُ تَعَالیٰ ثُمَّ تَکُونُ مُلکًا جَبرِ یَّۃً فَتَکُونُ مَا شَآ ءَ اللّٰہُ اَن تَکُونَ ثُمَّ یَرفَعُھَا اِذَ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالیٰ اَن یَرفَعَھَا ثُمَّ تَکُونُ خِلَا فَۃ عَلیٰ مِنھَاجِ النُّبُوَّ ۃِ ثُمَّ سَکَتَ (مسند احمد جلد۴ صفحہ۲۷۳ دارالفکر بیروت و مشکوٰۃ باب الانذار و التحذیر) ترجمہ:حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ تمہارے اندر نبوت موجود رہے گی جب تک خد ا چاہے گاکہ وہ رہے پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا کہ اسے اٹھا لے وہ اسے اٹھا لے گا پھر خلافت علی منہاج النبوۃ ہوگی اور وہ رہے گی جب تک خدا چاہے گا کہ وہ رہے پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا کہ اس کو اٹھا لے وہ اسے (نعمت)بھی اٹھا لے گا پھر ایک طاقتور اور مضبوط بادشاہت کا دور آئے گا اور وہ رہے گاجب تک اللہ چاہے گا کہ وہ رہے پھر وہ اللہ تعالیٰ اسے بھی اٹھا لے گا جب وہ چاہے گا کہ اسے اٹھا لے پھرظالم و جابر حکومت (کا زمانہ) ہوگا اور وہ رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ وہ رہے پھر اللہ تعالیٰ اسے اٹھا لے گا جب وہ چاہے گا کہ اسے اٹھا لے پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوگی پھر حضورؐ خامو ش ہوگئے۔
خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی پیشگوئیوں کو علمائے سلف نے امت میں سے مبعوث ہونے والے مسیح نبی اللہ و مہدی موعودؑ کے زمانہ سے منسلک کیا ہے۔ چنانچہ علامہ عبد الحق محدث دہلوی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ ’’الظَاھِرُاَن المُرَادُ بِہٖ زَمَنَ عِیسیٰ وَ المَھدِی‘‘(حاشیہ مشکوۃ المصابیح مجتبائی صفحہ ۴۶۱مطبوعہ کراچی) کہ یہ بات ظاہر اور واضح ہے کہ اس خلافت علیٰ منہاج النبوۃ سے مراد عیسیٰ اور مہدی ؑ کا زمانہ ہے۔ جس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہونی تھی۔
مقام خلافت
حضرت مسیح موعودؑ خلفاء کا مقام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’خداتعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جوتمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلّی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رکھے۔ سو اسی غرض سے خداتعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیاکبھی اور کسی زمانہ میں برکاتِ رسالت سے محروم نہ رہے۔‘‘ (شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۵۳)
حضرت مصلح موعودؓ مقام خلافت کا ذ کرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اطاعت جس طرح نبی کی ضروری ہوتی ہے ویسے ہی خلفاء کی ضروری ہوتی ہے۔ ہاں ان دونوں اطاعتوں میں ایک امتیاز اور فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ نبی کی اطاعت اور فرمانبرداری اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ وہ وحی الٰہی اور پاکیزگی کا مرکز ہوتا ہے مگر خلیفہ کی اطاعت اس لئے نہیں کی جاتی کہ وہ وحی الٰہی اور تمام پاکیزگی کا مرکز ہے بلکہ اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ تنفیذ وحی الٰہی اور تمام نظام کا مرکز ہے۔ اسی لئے واقف اوراہل علم لوگ کہا کرتے ہیں کہ انبیاء کوعصمت کبریٰ حاصل ہوتی ہے اور خلفاء کو عصمت صغریٰ۔‘‘ ( الفضل ۱۷؍فروری ۱۹۳۵ء)پھرفرمایا:’’خدا تعالیٰ جس شخص کوخلافت پر کھڑا کرتا ہے وہ اس کوزمانہ کے مطابق علوم بھی عطا کرتا ہے… تو اس کے کیا معنی ہیں کہ خلیفہ خود خدا بناتا ہے۔ اس کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جب کسی کو خدا خلیفہ بناتا ہے تو اسے اپنی صفات بخشتا ہے۔ اگر وہ اسے اپنی صفات نہیں بخشتا تو خدا تعالیٰ کے خود خلیفہ بنانے کے معنی ہی کیا ہیں‘‘۔ (الفضل ۲۲؍ نومبر ۱۹۵۰ء)
فرمایا:’’شریعت وہ ہے جو قرآن کریم میں بیان ہے اور آداب وہ ہیں جو خلفاء کی زبان سے نکلیں۔ پس ضروری ہے کہ آپ لوگ ایک طرف تو شریعت کا احترام قائم کریں اوردوسری طرف خلفاء کا ادب و احترام قائم کریں اور یہی چیز ہے جو مومنوں کو کامیاب کرتی ہے‘‘۔ (الفضل ۴؍ستمبر ۱۹۳۷ء)حضورؓ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ جب کسی کو منصب خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت کو بڑھا دیتا ہے کیونکہ اگر اس کی دعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے… میں جو دعا کرو ں گا وہ انشاء اللہ فرداً فرداً ہر شخص کی دعا سے زیادہ طاقت رکھے گی۔‘‘ (منصب خلافت صفحہ ۳۲)
برکات خلافت
آیت استخلاف میں برکات خلافت کاذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کے ذریعہ دین کو تمکنت نصیب ہو گی۔پھر اللہ تعالیٰ ان کا خوف امن سے بدل دے گا اور عبادت قائم ہوگی،شرک نابود ہوگا۔گویا تمام الٰہی برکات اور تائیدات خلافت کے ذریعہ ملتی ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود ؑنے فرمایا:’’خَلِیْفَہ کے لفظ کو اس اشارہ کے لئے اختیار کیا گیا کہ وہ نبی کے جانشین ہوں گے اور اس کی برکتوں میں سے حصہ پائیں گے جیسا کہ پہلے زمانوں میں ہوتا رہا۔ اور ان کے ہاتھ سے برجائی دین کی ہوگی اور خوف کے بعد امن پیدا ہوگا۔‘‘ (شہادۃ القرآن،روحانی خزائن جلد ۶صفحہ۳۳۹)
حضرت خلیفة المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:’’جناب الٰہی کا انتخاب بھی تو ایک انسان ہی ہوتا ہے اس کو کوئی ناکامی پیش نہیں آتی۔وہ جدھر منہ اٹھاتا ہے ادھر ہی اس کے واسطے کامیابی کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور وہ فَضْل،شِفا،نور اور رحمت دکھلاتا ہے۔ ‘‘(خطبات نور صفحہ۵۷،۵۶)
برکات خلافت کے بارے میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے اپنے زمانہ خلافت کی تقاریر میں مختلف اوقات میں کثرت سے ذکر فرمایا۔چند نمونے پیش ہیں۔آپؓ نے فرمایا:’’کیا تم میں اور ان میں جنہوں نے خلافت سے رُو گردانی کی ہے کوئی فرق ہے؟ کوئی بھی فرق نہیں۔ لیکن نہیں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ تمہارے لیے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا،تمہاری محبت رکھنے والا،تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا،تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا،تمہارے لیے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے مگر اُن کے لیے نہیں ہے۔تمہارا اُسے فکر ہے،درد ہے اور وہ تمہارے لیے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن اُن کے لیے ایسا کوئی نہیں ہے۔‘‘ (برکات خلافت،انوارالعلوم جلد۲ صفحہ۱۵۸)
٭… ’’اگر آج تم خلافت کی اطاعت کے نکتہ کو سمجھو تو تمہاری مددکو بھی آئے گا۔ نصرت ہمیشہ اطاعت سے ملتی ہے۔‘‘ (الفضل ۴؍ستمبر ۱۹۳۷ء)
٭… ’’امام اور خلیفہ کی ضرورت یہی ہے کہ ہر قدم جو مومن اٹھاتا ہے اس کے پیچھے اٹھاتا ہے، اپنی مرضی اور خواہشات کو اس کی مرضی اور خواہشات کے تابع کرتا ہے، اپنی تدبیروں کو اس کی تدبیروں کے تابع کرتا ہے، اپنےا رادوں کو اس کے ارادوں کے تابع کرتا ہے، اپنی آرزوؤں کو اس کی آرزوؤں کے تابع کرتا ہے اور اپنے سامانوں کو اس کے سامانوں کے تابع کرتا ہے۔ اگر اس مقام پر مومن کھڑ ے ہو جائیں تو ان کے لئے کامیابی اور فتح یقینی ہے۔‘‘(الفضل ۴؍ستمبر ۱۹۳۷ء)
٭… ’’اگر تم کامل طور پر اطاعت کرو گے تو مشکلات کے بادل اڑ جائیں گے، تمہارے دشمن زیر ہو جائیں گے اور فرشتے آسمان سے تمہارے لئے ترقی والی نئی زمین اور تمہاری عظمت و سطوت والا نیا آسمان پیدا کریں گے لیکن شرط یہی ہے کہ کامل فرمانبرداری کرو‘‘۔ (الفضل ۴؍ستمبر ۱۹۳۷ء)
٭… ’’میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو ہمیشہ خلافت کا خدمت گزار رکھے اور تمہارے ذریعہ احمدیہ خلافت قیامت تک محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت ہوتی رہے اور تم اور تمہاری نسلیں قیامت تک اس کا جھنڈا اونچا رکھیں اور کبھی بھی وہ وقت نہ آئے کہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت میں تمہارا یا تمہاری نسلوں کا حصہ نہ ہو بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے تمہارا اور تمہاری نسلوں کا اس میں حصہ ہو اور جس طرح پہلے زمانہ میں خلافت کے دشمن ناکام ہوتے چلے آئے ہیں تم بھی جلد ہی سالوں میں نہیں بلکہ مہینوں میں ان کو ناکام ہوتا دیکھ لو۔‘‘(خطاب فرمودہ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۵۶ء بحوالہ الفضل ۲۴؍اپریل۱۹۵۷ء)
خلافت کی ایک برکت امام وقت کی دعاؤں کو حاصل کرنا ہے جن کو فوق العادت قبولیت عطا کی جاتی ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:’’رسول کریمﷺ کے بعد خلفائے راشدین مجددین اور اولیائے اُمت اپنے لئے اتنی دعائیں نہ کرتے تھےجتنی دعائیں انہوں نے اُمتِ مسلمہ کے لئے کیں اور اب جماعت احمدیہ کے خلفاء بھی اپنے لئے اتنی دعائیں نہیں کرتے (یا نہیں کرتے رہے) جتنی دعائیں وہ احمدی بھائیوں کے لئے کرتے ہیں اور کرتے رہے ہیں اور اس امید اور یقین سے دعا کرتے اور کرتے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی ان دعاؤں کے نتیجہ میں مومنوں کے دلوں میں تسکین پیدا کرے گا۔‘‘(خطباتِ ناصر جلد اول صفحہ۱۶۵)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:’’ہر خلیفہ کے وقت میں جو اس زمانے کے حالات ہیں ان کے متعلق جو خلیفہ وقت کی نصیحت ہے وہ لازماً دوسری نصیحتوں سے زیادہ مؤثر ہو گی۔اس تعلق کی بنا ء پر بھی اور اس وجہ سے بھی کہ خدا تعالیٰ نے جو ذمہ داری اس کے سپرد کی ہوتی ہے خود اس کے نتیجہ میں اس کو روشنی عطا کرتا ہے۔‘‘(خطباتِ طاہر جلد ۱۰صفحہ ۸۹۴)
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’ہمارا یہ ایمان ہے کہ خلیفہ اللہ تعالیٰ خود بناتا ہے اور اس کے انتخاب میں کوئی نقص نہیں ہوتا۔جسے خدا یہ کُرتہ پہنائے گا کوئی نہیں جو اس کُرتے کو اس سے اتار سکے یا چھین سکے۔ وہ اپنے ایک کمزور بندے کو چُنتا ہےاسے اُٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے اور اپنی تائید ونصرت ہر حال میں اس کے شامل حال رکھتا ہے اور اس کے دل میں اپنی جماعت کا درد اس طرح پیدا فرما دیتا ہے کہ وہ اس درد کو اپنے درد سے زیادہ محسوس کرنے لگتا ہے اور یوں جماعت کا ہر فرد یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس کا درد رکھنے والااس کے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والااس کا ہمدرد ایک وجود موجود ہے۔‘‘(روزنامہ الفضل ۳۰؍مئی۲۰۰۳ءصفحہ ۶)