احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
اشتہار چندۂ مَنَارۃ المسیح
(گذشتہ سے پیوستہ )حضرت عرفانی صاحبؓ ۱۴؍فروری ۱۹۱۷ء کے الحکم میں لکھتے ہیں :’’انہیں ایام میں آپ کے دل میں ڈالا گیا کہ منارۃ المسیح تعمیرکیاجاوے اس کے لیے پہلے مختلف جگہیں پیش ہوتی رہیں۔حضرت مولانا حکیم الامت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے اپنا مکان پیش کیاتھا کہ اس میں بنایاجاوے لیکن حضرت کی خواہش یہ تھی کہ مسجد میں بنایا جاوے مگرمسجدکااحاطہ اس وقت بہت ہی چھوٹا تھاحضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کے مزارکے بالکل قریب اس کے احاطہ کی دیوارتھی باقی حصہ اگرچہ مسجد ہی کا تھا مگرغیرآبادپڑے رہنے کے باعث وہ عام لوگوں کاگزرگاہ سابناہواتھاجب حضرت نے اس حصہ کواحاطہ مسجدمیں شامل کرنے کا ارادہ فرمایاتوبعض ہندوؤں نے جوہمیشہ سے مخالفت کے عادی تھے مخالفت کی لیکن آخرتائیدالٰہی نے انہیں خجل اور شرمندہ کیاوہ زمین مسجدکے ساتھ ملحق ہوگئی۔‘‘(الحکم۱۴؍فروری ۱۹۱۸ء نمبر۲ جلد ۲۰ صفحہ۱۱-۱۲)
حضرت میرحامدشاہ صاحبؓ کے چھوٹے بھائی حضرت سیدعبدالرشیدصاحب نے اس منارکی ڈیزائننگ اور اخراجات کااندازہ وغیرہ لگایاجوکہ دس ہزارروپے کاتھا۔
منارکے نقشہ کی بابت ایک روایت بہت اہم ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ اس منارکابنیادی نقشہ اور ڈیزائن خدائی القاء واشارہ کے تحت تھا۔جیساکہ عزیز دین صاحب بواسطہ عیدا صاحب گمہار سکنہ موضع کنڈیلا بیان کرتے ہیں کہ (مسجد اقصٰے میں نمازِ عید ادا کرنے کے بعد ) حضورؑنے اُٹھ کر کاغذ پر نقشہ منار کھینچا اور فرمایا کہ’’ مجھے خدا نے فرمایا ہے کہ اِس قِسم کا منار تم تیار کراؤ۔‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہؓ(غیر مطبوعہ)رجسٹر نمبر ۷ صفحہ ۳۴۵روایت عزیز دین صاحب ولد بھاگ صاحب)جب حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ اشتہارشائع فرمایا تو وفاشعار جاں نثاروں نے اخلاص و وفاکے عجیب نمونے دکھائے۔حضرت ام المومنینؓ نے دہلی میں موجوداپنے ایک مکان کوفروخت کرنے کاعزم کرتے ہوئے ایک ہزارروپے کاوعدہ لکھوایا۔سیالکوٹ کے ایک غریب لکڑی فروش نے تواپنے خلوص نیت کا ایسا قابل رشک مظاہرہ کیا کہ خداکے فرستادے نے انہیں ابوبکرؓ کے نمونے کامصداق قراردیا۔ایک اوردوست نے بھی حیرت انگیزقربانی کامظاہرہ کرتے ہوئے چندہ پیش خدمت کیاتوحضورؑ نے ان کی مالی قربانی کوقابل رشک قرار دیتے ہوئے دوسروں کے لیے بطورنظیران کاذکرکرتے ہوئے فرمایا:’’ نظیرکے طورپربیان کرتاہوں کہ ان دنوں میں میری جماعت میں سے دوایسے مخلص آدمیوں نے اس کام کے لیے چندہ دیاہے جوباقی دوستوں کے لیے درحقیقت جائے رشک ہیں۔ایک ان میں سے منشی عبدالعزیزنام ضلع گورداسپورمیں پٹواری ہیں جنہوں نے باوجوداپنی کم سرمائیگی کے ایک سوروپیہ اس کے کام کے لیے چندہ دیاہے۔ اورمیں خیال کرتاہوں کہ یہ سو روپیہ کئی سال کاان کااندوختہ ہوگا۔اورزیادہ وہ قابل تعریف اس سے بھی ہیں کہ ابھی وہ ایک کام میں سوروپیہ چندہ دے چکے ہیں اوراب اپنے عیال کی بھی چنداں پروا نہ رکھ کریہ چندہ پیش کردیا۔جزاہم اللّٰہ خیرالجزاء۔ دوسرے مخلص جنہوں نے اس وقت بڑی مردانگی دکھلائی ہے میاں شادی خان لکڑی فروش ساکن سیالکوٹ ہیں۔ابھی وہ ایک کام میں ڈیڑھ سو روپیہ چندہ دے چکے ہیں۔ اوراب اس کام کے لیے دوسو روپیہ چندہ بھیج دیاہے۔اوریہ وہ متوکل شخص ہے کہ اگراس کے گھرکاتمام اسباب دیکھاجائے تو شایدتمام جائدادپچاس روپیہ سے زیادہ نہ ہو۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھاہے کہ’’چونکہ ایام قحط ہیں اور دنیوی تجارت میں صاف تباہی نظرآتی ہے توبہترہے کہ ہم دینی تجارت کرلیں۔اس لیے جوکچھ اپنے پاس تھا سب بھیج دیا۔اوردرحقیقت وہ کام کیا جوحضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلدسوم صفحہ۳۱۴-۳۱۵)
لیکن مجموعی طورپرچندے کی طرف اتنی سرعت اور تیزی سے توجہ نہ ہونے کی وجہ سے دوماہ بعدحضرت اقدسؑ نے ایک اوراشتہاردیا۔جس میں منارۃ المسیح کی اہمیت اور اس میں چندہ دینے کی فضیلت اور جلدی کی طرف توجہ دلائی گئی۔اور حضورؑ نے ایک سو ایک ان مخلص احباب کے نام بھی شائع فرمائے کہ جن کی بابت آپؑ کوحسن ظن اور یقین تھا کہ وہ اس مالی تحریک میں ضرورحصہ لیں گے۔اورکم سے کم ایک سوروپیہ چندہ اداکریں گے۔ ذیل میں وہ اشتہار اور ان خوش نصیب احباب واصحاب کے نام دیے جاتے ہیں کہ جن کے اخلاص ووفا پرخداکے اس رسول کونیک ظن تھا۔
’’ اپنی جماعت کے خاص گروہ کے لیے منارۃ المسیح کے بارے میں توجّہ دہانی اور اس کام کے لیے ان سے ایک درخواست‘‘
’’ منارۃ المسیح کے بارے میں اس سے پہلے ایک اشتہار شائع ہو چکا ہے۔لیکن جس کمزوری اور کم توجہی کے ساتھ اس کام کے لیے چندہ وصول ہو رہا ہے اس سے ہرگز یہ امید نہیں کہ یہ کام انجام پذیر ہو سکے۔ لہٰذا میں آج خاص طور سے اپنے اُن مخلصوں کو اس کام کے لیے توجہ دلاتا ہوں جن کی نسبت مجھے یقین ہے کہ اگر وہ سچے دل سے کوشش کریں اور جیسا کہ اپنے نفس کے اغراض کے لیے اور اپنے بیٹوں کی شادیوں کے لیے پورے زور سے انتظام سرمایہ کر لیتے ہیں۔ ایسا ہی انتظام کریں تو ممکن ہے کہ یہ کام ہو جائے اگر انسان کو ایمانی دولت سے حصّہ ہو تو گو کیسے ہی مالی مشکلات کے شکنجہ میں آجائے تا ہم وہ کار خیر کی توفیق پا لیتا ہے۔ نظیر کے طور پر بیان کرتا ہوں کہ ان دنوں میں میری جماعت میں سے دو ایسے مخلص آدمیوں نے اس کام کے لیے چندہ دیا ہے جو باقی دوستوں کے لیے درحقیقت جائے رشک ہیں۔ایک ان میں سے منشی عبد العزیز نام ضلع گورداسپور میں پٹواری ہیں جنہوں نے باوجود اپنی کم سرمائیگی کے ایک سو روپیہ اس کام کے لیے چندہ دیا ہے۔ اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ سو روپیہ کئی سال کا ان کا اندوختہ ہو گا۔ اور زیادہ وہ قابلِ تعریف اس کے بھی ہیں کہ ابھی وہ ایک اور کام میں سو روپیہ چندہ دے چکے ہیں۔ اور اب اپنے عیال کی بھی چنداں پروا نہ رکھ کر یہ چندہ پیش کر دیا۔ جزا ہم اللّٰہ خیرالجزاء
دوسرے مخلص جنہوں نے اس وقت بڑی مردانگی دکھلائی ہے میاں شادیخاں لکڑی فروش ساکن سیالکوٹ ہیں۔ ابھی وہ ایک کام میں ڈیڑھ سو روپیہ چندہ دے چکے ہیں۔ اور اب اس کام کے لیے دو سو روپیہ چندہ بھیج دیا ہے۔اور یہ وہ متوکل شخص ہے کہ اگر اس کے گھر کاتمام اسباب دیکھا جائےتو شاید تمام جائداد پچاس روپیہ سے زیادہ نہ ہو۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’’ چونکہ ایام قحط ہیں اور دنیوی تجارت میں صاف تباہی نظر آتی ہے تو بہتر ہے کہ ہم دینی تجارت کر لیں۔ اس لیے جو کچھ اپنے پاس تھا۔ سب بھیج دیا۔ اور درحقیقت وہ کام کیا جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔ شاید ہمارے بعض مخلصوں کو معلوم نہیں ہو گا کہ یہ منارة المسیح کیا چیز ہے اور اس کی کیا ضرورت ہے۔ سو واضح ہو کہ ہمارے سیّد و مولیٰ خیرالاصفیاء خاتم الانبیاء سیّدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی ہے کہ مسیح موعود جوخدا کی طرف سے اسلام کے ضعف اور عیسائیت کے غلبہ کے وقت میں نازل ہو گا اس کا نزول ایک سفید منارہ کے قریب ہو گا جو دمشق سے شرقی طرف واقع ہے۔اس پیشگوئی کے پورا کرنے کے لیے دو مرتبہ اسلام میں کوشش کی گئی ہے۔اوّل ۷۴۱ھ سے پہلے دمشق کے شرقی طرف سنگِ مرمر کےپتھر سے ایک منارہ بنایا گیا تھا جو دمشق سے شرقی طرف اور جامع اموی کی ایک جز تھی اورکہتے ہیں کہ کئی لاکھ روپیہ اس پرخرچ آیا تھا اور بنانے والوں کی غرض یہ تھی کہ تا وہ پیشگوئی رسول اللہ صلےٰ اللہ علیہ وسلم کی پوری ہو جائے۔ لیکن بعد اس کے نصاریٰ نے اس منارہ کو جلادیا۔پھر اس حادثہ کے بعد ۷۴۱ھ میں دوبارہ کوشش کی گئی کہ وہ منارہ دمشق کی شرقی طرف پھر طیار کیاجائے۔چنانچہ اس منارہ کے لیے بھی غالباً ایک لاکھ روپیہ تک چندہ جمع کیا گیا۔ مگر خدا تعالیٰ کی قضاء و قدر سے جامع اموی کو آگ لگ گئی۔اور وہ منارہ بھی جل گیا۔ غرض دونوں مرتبہ مسلمانوں کو اس قصد میں ناکامی رہی اور اس کا سبب یہی تھا کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ تھا کہ قادیان میں منارہ بنے کیونکہ مسیح موعود کے نزول کی یہی جگہ ہے۔سو اب یہ تیسری مرتبہ ہے اور خداتعالیٰ نے آپ لوگوں کو موقع دیا ہے کہ اس ثواب کو حاصل کریں۔ جو شخص اس ثواب کو حاصل کرے گا وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ہمارے انصار میں سےہو گا۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ اگرچہ لاکھوں انسان اس جماعت میں داخل ہو جائیں گے اور ہو رہے ہیں مگر مقبول دو گروہ ہی ہیں۔
(۱)اول وہ گروہ جنہوں نے بعد اس کے جو مجھے پہچان لیا جو میں خدا کی طرف سے ہوں بہت سے نقصان اُٹھا کر اپنے وطنوں سے ہجرت کی اور قادیان میں اپنے گھربنالیے اور اس درد کی برداشت کی جو ترک وطن اور ترکِ احبابِ وطن میں ہوا کرتی ہے۔ یہ گروہ مہاجرین ہے۔ اور مَیں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ان کا بڑا قدر ہے۔ کیونکہ خدا کے واسطے اپنے وطنوں کو چھوڑنا اور اپنے چلتے ہوئے کاموں کو خاک میں ملا دینا اور اپنے وطن کی پیاری مٹی کو خدا کے لیے الوداع کہہ دینا کچھ تھوڑی بات نہیں۔فطوبٰی للغرباء المھاجرین۔دوسرا گروہ انصار ہے۔ اور وہ اگرچہ اپنے وطنوں میں ہیں۔ لیکن ہر ایک حرکت اور سکون میں ان کے دل ہمارے ساتھ ہیں اوروہ مال سے محض خدا کو راضی کرنے کے لیے مدد دیتے ہیں اور مَیں ارادہ کرتا ہوں اگر خدا تعالیٰ کا بھی ارادہ ہو کہ اس منارہ کے کسی مناسب پہلو میں ان مہاجرین کے نام لکھوںجنہوں نے محض خدا کے لیے یہ دُکھ اپنے اُوپراٹھا لیا کہ اپنے پیارے وطنوں کو چھوڑ کر ایک خدا کے مامور کا قرب مکانی حاصل کرنے کے لیے قادیان میں سکونت اختیار کر لی اور ایسا ہی ان انصار کے نام بھی جنہوں نے اپنی خدمت اور نصرت کو انتہا تک پہنچایا اور میرا نور قلب مجھے اس وقت اس بات کی طرف تحریک کرتا ہے جو ایسے مبارک کام کے لیے جس میں آنحضرت صلےٰ اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی پوری ہوتی ہے اپنی مخلص جماعت کو اس مالی مدد کی تکلیف دوں جو مومن کے لیے جنت کو واجب کرتا ہے۔ پس مَیں اسی غرض سے چند مخلصین کے نام ذیل میں لکھتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ہر ایک ان سے میں سے کم سے کم ایک سو روپیہ اس عظیم الشّان کام کے لیے پیش کرے۔ اور مَیں خوب جانتا ہوں کہ اگر انسان بیہودہ عذرات کی طرف مائل نہ ہو۔اس قدر رقم ان لوگوں کے لیے کچھ مشکل نہیں جو چالیس یا پچاس یا اس سے زیادہ آمدنی رکھتے ہیں۔ مثلاً عورتوں کا زیور ہی ایک ایسی چیز ہے کہ اگر صدق دل ہو تو اس میں سےکچھ ایسے کام کے لیے آ سکتا ہے۔ بلکہ دیکھا گیاہے کہ جب نیک بخت عورتیں اپنے دیندار خاوندوں اور باپوں اور بھائیوں کے مُنہ سے ایسی باتیں سنتی ہیں تو خود ان کا ایمانی جوش حرکت کرنے لگتا ہے۔اور بسا اوقات اپنے خاوندوں کے حوصلہ سے زیادہ ایک رقم کثیر پیش کر دیتی ہیں۔بلکہ بعض عورتیں بعض مردوں سے صد ہا درجے اچھی ہوتی اور موت کو یاد رکھتی ہیں۔وہ خوب جانتی ہیں کہ جبکہ کبھی کبھی اس زیور کو چور لے جاتے ہیں یا کسی اور طریق سے تباہ ہو جاتا ہے۔ تو پھر اس سے بہتر کیا ہے کہ اس خدا کے لیے جس کی طرف عنقریب کوچ کرنا ہے۔کوئی حصہ زیور کا خرچ کیا جائے۔آخر یہ کام اسی جماعت نے کرنا ہے۔اور دوسرے لوگ اس میں شریک نہیں ہو سکتے وہ تو اَور خیالات میں مبتلاء ہیں۔(باقی آئندہ)