متفرق شعراء
آسماں کی ہے زباں یارِطرحدار کے پاس!
نوروں نہلائے ہوئے، قامتِ گلزار کے پاس!
اِک عجب چھاؤں میں، ہم بیٹھے رہے یار کے پاس!
اس کی ایک ایک نگہ دل پر پڑی ایسی کہ بس!
عرض کرنے کو نہ تھا کچھ لبِ اظہار کے پاس!
یوں ہم آغوش ہوا مجھ سے کہ سب ٹوٹ گئے
جتنے بھی بت تھے، صنم خانۂ پندار کے پاس!
تم بھی اے کاش کبھی دیکھتے سنتے اس کو
آسماں کی ہے زباں، یارِ طرحدار کے پاس!
یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے
چل کے خود آئے مسیحا، کسی بیمار کے پاس!
یونہی دیدار سے بھرتا رہے یہ کاسۂ دل
یونہی لاتا رہے مولا، ہمیں سرکار کے پاس!
پھر اسے سایۂ دیوار نے اُٹھنے نہ دیا
آکے اِک بار جو بیٹھا، تری دیوار کے پاس!
تجھ میں اک ایسی کشش ہے کہ بقولِ غالب
’خود بخود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس‘!
تیرا سایہ رہے سر پر تو کسی حشر کی دھوپ
سرد پڑ جائے جو آئے بھی گنہ گار کے پاس!
(عبید اللہ علیم )