خواب و الہام کی فلاسفی
اللہ تعالیٰ نے تخلیق انس و جن کا مقصد وحید اپنی معرفت کاملہ قراردیا ہے تا وہ ذات و صفات الٰہیہ کے مرتبہ حق الیقین تک پہنچ پائیں۔اس کے حصول کے لیے اس ذات جاودانی ولاثانی نے انسان کودو قسم کی قوتیں بھی ودیعت کی ہیں۔ایک معقولی قوتیں اور دوسری روحانی طاقتیں۔ معقولی قوتوں کا منبع دماغ بنایا ہے اور روحانی حواس کا سرچشمہ دل کوبنایا ہے۔معقولی قوتوں کواستعمال کرتے ہوئے انسان مصنوعات عالم پر دقت نگاہ ڈالتے اورعمیق فکرسے کام لیتے ہوئے ان کی ترکیب وترتیب ابلغ اورمحکم کودیکھتا ہے تواسے ایک صانع کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔لیکن یہ ضرورت صانع اس کے دل کے لیے باعث تسلی و تشفی نہیں ہوتی۔اس کمی کوروحانی قوتیں پورا کرتی ہیں۔اور اسے مرتبہ حق الیقین پہ فائزکردیتی ہیںبشرطیکہ اس کا فطرتی دائرہ استعداد بھی ہو۔کیونکہ قدرت حق نے ہرانسان کا ایک فطرتی دائرہ استعداد مقررومتعین کیا ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے روزاوّل سے ہی انسانوں کی رشدوہدایت کے لیے مامورین زمانہ کی بعثت کا سلسلہ جاری فرمایا ہواہے۔کیا نبوت واقعی ایک حقیقت ثابتہ ہے؟یہ سوال فلسفیوں،دہروں اورعوام الناس کے ذہنوں میں مچلتا ہے۔بلکہ آج کل کے بعض مذہبی سکالربھی حقیقت نبوت سے انکاری ہیں۔خیال رہے کہ جس طرح خدائے واحدویگانہ نے انسانوں کوجسمانی قویٰ یعنی باصرہ،لامسہ،شامہ،سامعہ،حافظہ اور متفکرہ وغیرہ سے نوازا ہوا ہےبعنیہ اس ہستی قادروتوانا نے ان کو روحانی قوتوں سے بھی سرفراز فرمایا ہوا ہے۔یہ نہیں کہ جسمانی حواس توبرقرار ہیںلیکن ایک زمانہ یعنی صاحب خاتمﷺ کے بعد روحانی قویٰ سے انسانوں کومحروم کردیا گیا ہے۔بلکہ اب بھی حقیقت یہ ہے کہ۔
وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم
اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار
خواب و الہام کا سلسلہ اللہ تعالیٰ نے اس لیے جاری فرمایا ہوا ہے تا حقیقت نبوت سے لوگ بے خبر نہ رہیں۔دوسرا یہ کہ انبیا پرایمان لانے کی حجت قائم رہےتا کہ انکارنبوت کا کوئی عزر باقی نہ رہے۔
خواب و الہام کے لحاظ سے تین قسم کے لوگ ہیں:
۱۔عوام الناس۲۔زاہد۳۔سابق بالخیرات
۱۔عوام الناس:
ان کے خواب و الہام کے ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:’’اس لئے سنت اللہ قدیم سے اور جب سے دنیا کی بنا ڈالی گئی اس طرح پر جاری ہے کہ نمونہ کے طورپرعام لوگوں کوقطع نظراس کے کہ وہ نیک ہوں یا بدہوں اور صالح ہوں یا فاسق ہوں اور مذہب میں سچے ہوں یا جھوٹا مذہب رکھتے ہوںکسی قدرسچی خوابیں دکھلائی جاتی ہیں یا سچے الہام بھی دیئے جاتے ہیں تا کہ ان کا قیاس اور گمان جو محض نقل اورسماع سے حاصل ہے علم الیقین تک پہنچ جائے‘‘(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ۱۰)
۲۔زاہد:
’’دنیا میں بعض ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں کہ وہ کسی حدتک زہد اور عفت کواختیار کرتے ہیں اور علاوہ اس بات کے کہ ان میں رؤیا اورکشف کے حصول کیلئےایک فطرتی استعداد ہوتی ہے اوردماغی بناوٹ اِس قسم کی واقع ہوتی ہے کہ خواب و کشف کا کسی قدر نمونہ اُن پرظاہرہوجاتا ہےوہ اپنی اصلاح نفس کے لئے بھی کسی قدر کوشش کرتے ہیں اورایک سطحی نیکی اورراستبازی اُن میں پیداہوجاتی ہے جس کی آمدسے ایک محدود دائراہ تک رؤیا صادقہ اور کشوف صحیحہ کے انوار اُن میں پیدا ہوجاتے ہیں مگرتاریکی سے خالی نہیں ہوتے‘‘(ایضاً۱۳۔۱۴)
۳۔کامل شرف مکالمہ ومخاطبہ کے حامل:
’’خدا تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کرنے والے اُس شخص سے مشابہت رکھتے ہیں جو اوّل دورسے آگ کی روشنی دیکھے اور پھراُس سے نزدیک ہوجائے یہاں تک کہ اُس آگ میں اپنے تئیں داخل کردے اورتمام جسم جل جائے اور صرف آگ ہی باقی رہ جائے۔اسی طرح کامل تعلق والادن بدن خدا تعالیٰ کے نزدیک ہوتا جاتا ہے یہاںتک کہ محبتِ الٰہی کی آگ میں تمام وجود اُس کا پڑجاتا ہے اور شعلۂ نور سےقالب نفسانی جل کر خاک ہو جاتا ہے اوراُس کی جگہ آگ لے لیتی ہے۔یہ انتہا اس محبت کا ہے جو خدا سے ہوتی ہے۔…وہ بھی مظہر تجلیات الٰہیہ ہوجاتا ہے مگرنہیں کہہ سکتے کہ وہ خدا ہے بلکہ ایک بندہ ہے جس کواُس آگ نے اپنے اندر لے لیا ہے اوراُس آگ کے غلبہ کے بعد ہزاروں علامتیں کامل محبت کی پیدا ہوجاتی ہیں…منجملہ اُن علامتوں کے یہ بھی ہے کہ خدائے کریم اپنا فصیح اور لذیذ کلام وقتاً فوقتاً اُس کی زبان پرجاری کرتا رہتا ہے جوالٰہی شوکت اوربرکت اورغیب گوئی کی کامل طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اورایک نور اُس کے ساتھ ہوتا ہے جوبتلاتا ہے کہ یہ یقینی امر ہے ظنی نہیں ہے۔‘‘(ایضاً۔۱۶۔۱۷)