حضرت مسیح موعودؑ کی تربیتِ اولاد
بہت سے لوگ جن کے کئی کئی کاروبار ہوتے ہیں یا نوکری کرتے ہیں وہ اپنی اولاد کو وقت نہیں دیتے اور ان کی نگرانی نہیں کر پاتے۔ اپنی اولاد کی صحیح معنوں میں تربیت نہیں کر سکتے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو امت محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اصلاح کی غرض سے مبعوث ہوئے تھے آپؑ نے نہ صرف اولاد کو وقت دیا بلکہ اپنی اولاد کی احسن تربیت بھی فرمائی۔ اور ہمیشہ اپنی اولاد سے احسان کا سلوک کیا۔
ہمارے پیارے آقا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’أَكْرِمُوْا أَوْلَادَكُمْ وَ أَحْسِنُوْا أَدَبَهُمْ‘‘(سنن ابن ماجہ کتاب الادب)یعنی اپنی اولاد کا اکرام کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔
ہمارے امام سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آقا و مطاع سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کے مطابق آپ کواپنی اولاد کی دینی تربیت کا بہت زیادہ خیال رہتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ تمام اولاد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئی يَتَزَوَّجُ وَ يُوْلَدُ لَهٗکی مصداق تھی اور آپ کی اولاد الہامات اور بشارات کے مطابق پیدا ہوئی۔ خدا تعالیٰ نے آپ کو فرمایا تھا کہ یہ برباد نہیں ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک مصرعہ میں فرماتے ہیں:ع
کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد
حضرت میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت صاحب ایک دفعہ سالانہ جلسہ پر تقریر کر کے جب واپس گھر تشریف لائے تو حضرت میاں صاحب سے (خلیفة المسیح الثانیؓ) جن کی عمر اس وقت ۱۰-۱۲ سال کی ہوگی۔ پوچھا کہ میاں یاد بھی ہے کہ آج میں نے کیا تقریر کی تھی۔ میاں صاحب نے اس تقریر کو اپنی سمجھ اور حافظہ کے موافق دہرایا۔ تو حضرت صاحبؑ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے خوب یاد رکھاہے۔‘‘ (سیرت المہدی روایت نمبر ۶۵۶)
اس واقعہ میں جہاں آپ نے اپنی اولاد کی دینی امور میں تربیت کی طرف توجہ دلائی وہاں ماں باپ کے لیے بھی اپنا اسوہ قائم کیا کہ اولاد کا صرف دینی باتیں سننے کا فائدہ نہیں بلکہ ان کا جائزہ بھی لینا چاہیے کہ وہ کس حد تک سمجھے ہیں اور کس حد تک ان باتوں پر عمل کر سکتے ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خاص کوشش ہوتی تھی کہ آپؑ کی اولاد کی تربیت میں ہر ایک پہلو کو مدنظر رکھا جائے۔ آپؑ بڑوں کا ادب بھی کرواتے تھے۔ خواہ مخالف ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اُس حجرہ میں کھڑے تھے جو عزیزم میاں شریف احمد صاحب کے مکان کے ساتھ ملحق ہے۔ والدہ صاحبہ بھی غالباً پاس تھیں۔ میں نے کوئی بات کرتے ہوئے مرزا نظام الدین صاحب کا نام لیا تو صرف نظام الدین کہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ میاں آخر وہ تمہارا چچا ہے اس طرح نام نہیں لیا کرتے۔‘‘(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۵۵ از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام تربیتِ اولاد میں سب سے پہلے اپنا نمونہ دکھاتے تھے تاکہ آپؑ کی اولاد ہر نیک پہلو کو اپنائے۔ خواہ آپؑ کو تکلیف ہی کیوں نہ برداشت کرنی پڑے۔ چنانچہ ایک واقعہ یوں ملتا ہے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’جاڑے کا موسم تھا۔ محمود نے جو اس وقت بچہ تھا آپؑ کی واسکٹ کی جیب میں ایک بڑی اینٹ ڈال دی۔ آپؑ جب لیٹیں وہ اینٹ چبھے۔ میں موجود تھا۔ آپؑ حامد علی سے فرماتے ہیںحامد علی چند روز سے ہماری پسلی میں درد ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز چبھتی ہے۔ وہ حیران ہوا اور آپؑ کے جسد مبارک پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ اور آخر اس کا ہاتھ اینٹ سے جا لگا۔ جھٹ جیب سے نکال لی اور عرض کیا یہ اینٹ تھی جو آپ کو چبھتی تھی۔ مسکرا کر فرمایا: اوہو چند روز ہوئے محمود نے میری جیب میں ڈالی تھی اور کہا تھا اسے نکالنا نہیں میں اس سے کھیلوں گا۔‘‘(سیرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام صفحہ ۴۰۔۴۱ از حضرت مولوی عبد الکریم سیالکوٹی صاحبؓ)
اس واقعہ سے آپؑ کی امانت داری کا تو پتا ملتا ہے مگر اس بات کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ خواہ بچے کوئی معمولی چیز امانت کے طور پر رکھوائیں، آپؑ ان کا دل رکھنے کے لیے وہ بھی رکھ لیتے تھے۔اور جب تک واپسی کا مطالبہ نہ کریں اپنے پاس رکھتے تھے۔اس طرح اپنے عمل سے اپنی اولاد کو یہ بھی بتا دیا کہ خواہ چھوٹی سی ہی چیز کوئی امانتاً رکھوائے، امانت میں خیانت نہیں کرنی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت شفیق باپ تھے۔ مگر جہاں غیرتِ دینی کا سوال ہو وہاں اولاد سے ناراض بھی ہوتے تھے اور ڈانٹ بھی دیتے تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک کتا ہمارے دروازہ پر آیا۔ میں وہاں کھڑا تھا۔ اندر کمرہ میں حضرت صاحبؑ تھے۔ میں نے اس کتے کو اشارہ کیا۔ اور کہا ٹیپو، ٹیپو، ٹیپو…حضرت صاحبؑ بڑے غصہ سے باہر نکلے اور فرمایا۔ تمہیں شرم نہیں آتی کہ انگریزوں نے تو دشمنی کی وجہ سے اپنے کتوں کا نام ایک صادق مسلمان کے نام پر ٹیپو رکھ دیا ہے اور تم ان کی نقل کر کے کتے کو ٹیپو کہتے ہو۔ خبردار آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا۔‘‘(الفضل یکم اپریل ۱۹۵۸ صفحہ ۳)
اس ایک بات سے آپؑ نے اپنی اولاد کو غیرتِ دینی بھی سکھا دی اور مسلمانوں کی اور مسلمانوں کے بڑے جرنیلوں کی عزت کرنا بھی سکھا دی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹیوں کا خاص خیال رکھتے تھے۔ ان کی تربیت کا بھی خیال رکھتے تھے۔ اور بیٹیوں کو انکار نہیں کرتے تھے۔ آپؑ اپنا عملی نمونہ دکھاتے تھے۔ حضرت ام ناصر صاحبہؓ حرم اول حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ ’’حضور علیہ السلام مجھ پر نہایت مہربانی اور شفقت فرمایا کرتے تھے۔ مجھے جس چیز کی ضرورت ہوتی حضورؑ سے عرض کرتی حضورؑ اس کو مہیا کر دیتے اور کبھی انکار نہ کرتے۔ میرا اور سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا روز مرہ کا معمول تھا کہ عصر کے بعد ایک دن مَیں اور ایک دن مبارکہ بیگم حضورؑ کے پاس جاتے اور کہتے کہ حضورؑ بھوک لگی ہے۔ حضورؑ کے سرہانے دو لکڑی کے بکس ہوتے تھے۔ حضورؑ چابی دے دیتے۔ مٹھائی یا بسکٹ جو اس میں ہوتے تھے جس قدر ضرورت ہوتی ہم نکال لیتے، ہم کھانے والی دونوں ہوتی تھیں مگر ہم تین یا چار یا چھ کے اندازہ کا نکال لیتیں اور حضورؑ کو دکھا دیتیں تو حضور علیہ السلام نے کبھی نہیں کہا کہ زیادہ ہے اتنا کیا کرو گی۔‘‘(سیرت المہدی روایت نمبر ۱۴۴۶)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی اولاد کی تربیت کے لیےسبق آموز اچھی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ آپؑ متعدد مرتبہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’اچھی کہانی سنا دینی چاہئے اس سے بچوں کو عقل اور علم آتا ہے۔‘‘(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۷۰ حصہ سوم از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ) ان چند مثالوں سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے ایک پہلو کی کچھ جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ آپؑ کا بچوں کی احسن رنگ میںتربیت کرنا آپؑ کے اعلیٰ اخلاق کی گواہی دیتا ہے۔