کیا اس کائنات کا کوئی خالق ہونا ضروری ہے؟ دہریہ حضرات کے چند نظریات کا سائنسی تجزیہ
پہلی جنگ عظیم کا دور ختم ہوچکا تھا اور اب دنیا سیاسی، اقتصادی، سائنسی، مذہبی اور معاشرتی اعتبار سے ایک تلاطم کے دور سے گذر رہی تھی۔۱۹۲۷ءمیں مشہور فلاسفر اور ریاضی دان برٹرینڈ رسل نے جنوبی لندن میں نیشنل سیکیولر سوسائٹی میں ایک لیکچر دیا۔ اس لیکچر کا عنوان تھا:
’’Why I am not Christian‘‘یعنی میں مسیحی کیوں نہیں ہوں؟ برٹرینڈ رسل دہریہ تھے اور اس لیکچر میں انہوں نے خدا تعالیٰ کے وجود کے انکار کے دلائل پیش کیے۔ دہریت کی تاریخ میں اس لیکچر کی ایک خاص اہمیت ہے۔ اور اب تک دہریہ حضرات یعنی وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار کرتے ہیں، اس لیکچر کو اپنے نظریات کے حق میں ایک عظیم دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
برٹرینڈ رسل کے دو مفروضے
مختلف دانشور خدا تعالیٰ کے وجود کے جو دلائل دیتے رہے ہیں، ان میں سے ایک دلیل First Cause Argumentبھی ہے۔ یعنی ہر چیز کو وجود میں لانے کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔لیکن یہ سلسلہ کسی وجود پر جا کر ختم ہوگا۔ یعنی کوئی وجود تو علت العلل ہوگا۔ اور وہ وجود جس سے یہ تخلیق کا سلسلہ شروع ہوا، خدا تعالیٰ کا وجود ہے۔ برٹرینڈ رسل نے اس دلیل پر تنقید شروع کی اور کہا:
“If everything must have a cause, then God must have a cause. If there can be anything without a cause, it may just as well be the world as God, so that there cannot be any validity in that argument. It is exactly of the same nature as the Hindu‘s view, that the world rested upon an elephant and the elephant rested upon a tortoise; and when they said, ’’How about the tortoise?‘‘ the Indian said,’’Suppose we change the subject.‘‘ The argument is really no better than that. There is no reason why the world could not have come into being without a cause; nor, on the other hand, is there any reason why it should not have always existed. There is no reason to suppose that the world had a beginning at all. The idea that things must have a beginning is really due to the poverty of our imagination. Therefore, perhaps, I need not waste any more time upon the argument about the First Cause.”
ترجمہ: اگر یہ ضروری ہے کہ ہر چیز کا کوئی بنانے والا ہو تو پھر کوئی ایسا وجود بھی ہونا چاہیے جس نے خدا کو بنایا ہو۔اگر کوئی چیز بغیر خالق کے وجود میں آ سکتی ہے تو پھر ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ یہ عالم ہی خدا ہے۔اس دلیل میں کوئی وزن نہیں ہے۔یہ خیال تو ہندوئوں کے اس خیال کی طرح ہے کہ یہ عالم ایک ہاتھی کے سہارے پر قائم ہے اور یہ ہاتھی ایک کچھوے کے سہارے پر قائم ہے اور اگر یہ سوال کرو کہ یہ کچھوا کس کے سہارے پر قائم ہے تو ہندو کہتے ہیں کہ کوئی اور بات کرتے ہیں۔اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ یہ عالم بغیر کسی سبب کے خود بخود وجود میں نہیں آ سکتا۔اور نہ ہی اس کی کوئی وجہ ہے کہ یہ عالم ہمیشہ سے موجود نہ ہو۔اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ اس عالم کا کوئی نقطہ آغاز بھی تھا۔یہ خیال کہ اشیاء کا کوئی آغاز ہونا ضروری ہے تصورات کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔چنانچہ اس بات کی کوئی وجہ نہیں کہ میں اس دلیل پر مزید وقت ضائع کروں کہ ہر چیز کی کوئی علت(سبب) ہونی ضروری ہے۔
اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ برٹرینڈ رسل اس دلیل کا تفصیلی تجزیہ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔بہر حال اس لیکچر میں یہ دو بنیادی نظریات بیان کیے گئے تھے۔ پہلا نظریہ یہ تھا کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ یہ کائنات کبھی شروع ہوئی تھی ؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ یہ کائنات ہمیشہ سے اسی صورت میں موجود ہو۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ بغیر کسی خالق کے یہ کائنات خود بخود پیدا ہو گئی ہو۔ اور اس کا کوئی خالق نہ ہو۔پہلے ہم موجودہ سائنس کی روشنی میں پہلے نظریے کا جائزہ لیں گے۔ اس کے بعد دوسرے نظریہ کا تجزیہ کیا جائے گا لیکن اس بحث سے پہلے مضمون کے بارے میں قرآن مجید کی آیات درج کی جاتی ہیں۔
قرآن مجید کے بیان فرمودہ نظریات
کیا یہ کائنات دائمی ہے ؟ سب سے پہلے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اس بارے میں قرآن مجید کیا کہتا ہے؟
اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ ۫ وَّہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ (الزمر:۶۳)ترجمہ: اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز پر نگران ہے۔
بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ؕ وَاِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ( البقرۃ :۱۱۸)ترجمہ: وہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا آغاز کرنے والا ہے۔ اور جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو وہ اسے محض’’ ہوجا ‘‘ کہتا ہے تو وہ ہونے لگتا ہے اور ہو کر رہتا ہے۔
اس آیت میں ’’بدیع‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ کی لغت مفردات امام راغب میں ’’الابداع ‘‘کا مطلب لکھا ہے کسی تقلید اور اقتدا کے بغیر کسی چیز کو ایجاد کرنا۔ اور لکھا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ لفظ استعمال ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے بغیر آلہ، مادہ، زمان اور مکان کے کسی چیز کو ایجاد کرنا۔
وَہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ ؕ وَیَوۡمَ یَقُوۡلُ کُنۡ فَیَکُوۡنُ(الانعام:۷۴)ترجمہ: اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا۔اور جس دن وہ کہتا ہے ہو جا تو وہ ہونے لگتا ہے۔
اَوَلَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰہُمَا(الانبیاء:۳۱)ترجمہ: کیا انہوں نے نہیں دیکھا جنہوں نے کفر کیا کہ آسمان اور زمین دونوں مضبوطی سے بند تھے پھر ہم نے ان کو پھاڑ کر الگ کر دیا۔
اس آیت میں ’’رتق ‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مشہور عربی انگریزی لغت ’’لین‘‘ میں اس کا یہ مطلب لکھا ہے کہ زمین آسمان اس طرح بند تھے کہ ان میں کوئی خلا یا رخنہ موجود نہیں تھا۔
وَالسَّمَآءَ بَنَیۡنٰہَا بِاَیۡٮدٍ وَّاِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ(الذاریٰت:۴۸) ترجمہ: اور ہم نے آسمان کو ایک خاص قدرت سے بنایا اور یقیناََ ہم وسعت دینے والے ہیں۔
ان آیات کریمہ سے واضح ہے کہ قرآن کریم کے مطابق نہ صرف یہ کائنات بلکہ خدا کے سوا ہر چیز کا خالق خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے یہ تمام کائنات بغیر کسی پہلے سے موجود مادہ یا پہلے سے موجود کسی مکان یا کسی وقت کے تخلیق کی ہے۔ اور شروع میں یہ تمام کائنات ایک بند حالت میں تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے پھاڑ کر اسے علیحدہ کیا۔اور پھر کائنات کو وسعت دی۔اس طرح ان آیات کریمہ میں اس نظریہ کی مکمل تردید کی گئی ہے کہ یہ کائنات ہمیشہ سے موجود ہو سکتی ہے۔ اس بارے میں سائنسی حقائق کے منظر عام پر آنے سے کئی دہائیاں قبل ۱۸۹۲ءمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آئینہ کمالات اسلام میں تحریر فرمایا :’’قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور حال کی تحقیقاتیں بھی اس کی مصدق ہیں کہ عالم کبیر بھی اپنے کمال خلقت کے وقت تک ایک گٹھڑی کی طرح تھا جیسا کہ اللہ جل شانہٗ فرماتا ہے۔ اَوَلَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰہُمَا ؕ وَجَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ… یعنی فرماتا ہے کہ کیا کافروں نے آسمان اور زمین کو نہیں دیکھا کہ گٹھڑی کی طرح آپس میں بندھے ہوئے تھے اور ہم نے ان کو کھول دیا۔‘‘(روحانی خزائن جلد ۵صفحہ ۱۹۲و۱۹۵)
کائنات کے پھیلنے کے شواہد
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ برٹرینڈرسل کا یہ لیکچر ۱۹۲۷ءمیں دیا گیا تھا۔اس لیکچر میں بڑی تحدی سے یہ اعلان کیا گیاتھا کہ انہیں اس نظریہ کی کوئی دلیل نظر نہیں آ رہی کہ ہم یہ خیال کریں کہ یہ عالم ہمیشہ سے موجود نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ سے موجود ہے، یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اسی طرح یہ کائنات بھی ہمیشہ موجود ہو اور دائمی ہو اور ان کے نزدیک اس نظریہ کی کوئی دلیل نہیں تھی کہ کبھی اس کائنات کا آغاز ہوا تھا۔
لیکن جب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ کیا اس لیکچر میں برٹرینڈ رسل نے اس دعوے کی کوئی سائنسی دلیل بھی پیش کی تھی تو یہ حقیقت نظر آتی ہے کہ برٹرینڈ رسل نے اس لیکچر میں اس دعوے کی کوئی سائنسی دلیل پیش نہیں کی تھی۔اس ضمن میں یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ کیا ۱۹۲۷ءمیں ایسے کوئی سائنسی شواہد سامنے آ چکے تھے کہ یہ کائنات اسی صورت میں ہمیشہ سے موجود نہیں ہے اور اس کا ایک نقطہ آغاز بھی تھا؟حقیقت یہ ہے کہ اس لیکچر سے تین سال قبل سویڈن کے ایک ماہر فلکیات Knut Lundmarkنے ۱۹۲۴ءمیں اس نظریہ کے کافی معین شواہد دریافت کر لیے تھے اور وہ منظر عام پر بھی آ چکے تھے کہ ہماری کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ اور مختلف کہکشائیں (Galaxies)ایک دوسرے سے دور ہو رہی ہیں۔ جیسا کہ بعد کی تحقیقات نے ثابت کیا کہ یہ کائنات ماضی میں کم وسیع تھی۔ ہم یہ جائزہ لیں گے کہ اس دریافت کا کائنات کی پیدائش سے کیا تعلق ہے؟
(Steer, I. Who discovered Universe expansion?. Nature 490, 176 (2012) )
اب یہ جائزہ پیش کرتے ہیں کہ کیا سائنس کی بڑھتی ہوئی سائنسی تحقیق کے ساتھ Knut Lundmarkکے شواہد ثابت ہوئے یا رد کر دیے گئے۔۱۹۲۹ء میں ایڈون ہبل (Edwin Hubble) کے جمع کردہ سائنسی شواہد سامنے آگئے کہ نہ صرف کائنات پھیل رہی ہے بلکہ جو کہکشاں ہماری کہکشاں سے جتنی زیادہ دور ہے وہ اتنی ہی زیادہ تیز رفتاری سے ہماری کہکشاں سے اور دور ہٹ رہی ہے۔
بگ بینگ کا نظریہ
اور۱۹۳۱ءمیںبیلجیم کے ایک کیتھولک پادری اور ماہر فلکیات George Lemaitreکا ریسرچ پیپر منظر عام پر آ گیا کہ اس کائنات کا ایک نقطہ آغاز بھی تھا اور اس وقت کائنات کا تمام مادہ ایک مختصر نقطہ پر مقید تھا اور اس کے بعد ایک عظیم دھماکے یعنی بگ بینگ کے ساتھ یہ کائنات وجود میں آئی اور پھیلنی شروع ہوئی۔
اس کا لازمی طور پر یہ مطلب تھا کہ یہ کائنات دائمی نہیں ہے بلکہ اربوں سال پہلے اس کی پیدائش ہوئی تھی۔ اور چونکہ جب تمام کائنات کا مادہ ایک مقام پر جمع تھا تو اس کی کشش ثقل اتنی عظیم ہو گی کہ یہی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ کائنات کا مادہ ایک مختصر نقطہ پر مقید تھا، پھر جیسا کہ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے پھرایک عظیم دھماکے سے یہ مادہ منتشر ہونا شروع ہوا اور اس کے بعد کائنات وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی۔اس عظیم دھماکےسے قبل وقت بھی ساکن تھا اور اس کے بعد وقت نے آگے بڑھنا شروع کیا۔ اب جب کہ اس کائنات کو وجود میں آئے تیرہ ارب برس سے زائد عرصہ گذر چکا ہے یہ کائنات زیادہ تیز رفتاری سےبڑھتی جا رہی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ سائنسی ترقی کے ساتھ برٹرینڈ رسل کا یہ نظریہ تو غلط ثابت ہو گیا کہ یہ کائنات اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ ہمیشہ سے موجود ہو سکتی ہے لیکن اس نقص کے باوجود ابھی بھی دہریہ حضرات ان کے اس لیکچر کو ایک عظیم دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
کیا بغیر کسی خالق کے کائنات وجود میں آسکتی تھی؟
بہر حال اس کے بعدخدا تعالیٰ کا انکار کرنے والوں نے اس دلیل پر زور دینا بند کر دیا کہ یہ بھی توہو سکتا ہے کہ یہ کائنات کبھی تخلیق نہ ہوئی ہو بلکہ ہمیشہ سے اسی حالت میں موجود ہو اور یہ کہنا شروع کیا کہ ہم یہ فرض کیوں نہیں کر سکتے کہ اس عظیم کائنات کا تمام مادہ خود بخود بغیر کسی خالق کے محض عدم سے وجود میں آگیا ہو۔
چونکہ طبیعیات کی ابتدائی دریافتوں کی روشنی میں یہ بات مسلمہ سمجھی جاتی تھی کہ بغیر توانائی خرچ کیے کوئی ساکن چیز حرکت میں نہیں آ سکتی اور کوئی متحرک چیز ساکن نہیں بنائی جا سکتی۔ اور نہ ہی محض عدم سے کوئی مادہ یا توانائی جنم لے سکتے ہیں۔ اس کی روشنی میں خدا تعالیٰ کے وجود کے قائل گروہ یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہےکہ اس وسیع کائنات اور اس میں موجود تمام مادہ اور توانائی کو وجود میں لانے والا کوئی قادر مطلق خالق ہونا ضروری ہے۔اس دور کے دہریہ حضرات Quantum Physics کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کاوشیں کر رہے ہیں کہ یہ کائنات عدم سے خود بخود وجود میں آ سکتی ہے۔انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے دلائل پر تبصرہ کرنے سے قبل ان کے الفاظ میں ہی ان کے بنیادی دلائل بیان کیے جائیں۔
آج کل جو چوٹی کے ماہرین فلکیات اس نظریہ کا پرچار کر رہے ہیں ان میں ایک نمایاں نام لارنس کراس (Lawrence Krauss) کا ہے۔ انہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب A Universe from Nothingلکھی ہے۔اس کتاب کے دیباچہ کی ابتدائی سطور میں ہی یہ صاحب ایک بنا بنایا نتیجہ ان الفاظ میں پیش فرماتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
“In the interests of full disclosure right at the outset I must admit that I am not sympathetic to the conviction that creation requires a creator, which is at the basis of all of the world’ s religions.”(A Universe from Nothing, by Lawrence M. Krauss, Published by Free Press New York 2012, p 17)
ترجمہ: ابتدا ہی میں حقائق مکمل واضح کرنے کی غرض سے مجھے یہ اظہار کردینا چاہیے کہ میں اس نظریہ سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتا کہ تخلیق کے لیے کسی خالق کا ہونا ضروری ہے۔ اور یہی نظریہ دنیا کے تمام مذاہب کی بنیاد ہے۔
عام طور پر سائنسی دنیا میں پہلے حقائق پیش کیے جاتے ہیں اور پھر ان کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے لیکن لارنس کراس صاحب نے یہ ترتیب الٹ کر دی ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں نتیجہ کا اعلان پہلے ہی کر دیا ہے اور دلائل دینے کی کوشش بعد میں کی ہے۔
جیسا کہ اس کتاب کا عنوان ہی ظاہر کر دیتا ہے کہ اس کتاب کےلکھنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ ثابت کریں کہ محض عدم سے پوری کائنات وجود میں آ سکتی ہے۔ لیکن مندرجہ بالا ابتدائی جملوں کے فوری بعد وہ ایک ایسی مثال پیش کر دیتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود ان کےذہن میں ابہامات پائے جاتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ برف کے گالوں سے معجزانہ طور پر خوبصورت اشیاء بن جاتی ہیں اور قوس قزح کے خوبصورت رنگ نظر آتے ہیں لیکن سوائے چند قدامت پسندوں کے کوئی شخص یہ گمان نہیں کرتا کہ ان میں سے ہر ایک کو کسی خالق نے توجہ دے کر بنایا ہوگا۔ یہ بات نا قابل فہم ہے، وہ یہ مثال کیوں دے رہے ہیں ؟ یہ برف کے گالے محض عدم سے وجود میں تو نہیں آتے۔ پہلے پانی اپنے تمام خواص کے ساتھ موجود ہوتا ہے تب ہی وہ ان برف کے گالوں کی شکل اختیار کرتا ہے۔
اس کتاب کا موضوع تو یہ ہے کہ یہ کائنات محض عدم سے کس طرح وجود میں آئی ؟ اور ظاہر ہے اس موضوع پر اظہار خیال کے لیے ضروری ہے کہ کائنات کی پیدائش کے بارے میں سیر حاصل تبصرہ کیا جائے اور واضح دلائل سے ثابت کیا جائے کہ کس طرح یہ کائنات عدم سے خود بخود بغیر کسی خالق کے وجود میں آ گئی۔اس موضوع پربحث شروع کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس مرحلہ کے بارے میں خود ان کا ذہن کتنا واضح ہے؟ وہ کچھ صفحات کے بعد مذاہب عالم پر تنقید کرتے ہوئے یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوتے ہیں:
“We do not yet fully understand the origin of our universe”(A Universe from Nothing, by Lawrence M. Krauss, Published by Free Press New York 2012, p21)
یعنی ابھی ہم کائنات کے آغاز کو مکمل طور پر سمجھ نہیں سکے۔
اس پر کم از کم یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ اگر آپ ابھی تک کائنات کے آغاز کو صحیح طور پرسمجھ نہیں پائے تو کیا یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ عمل کسی خالق کے بغیر شروع ہو سکتا تھا؟
محض عدم سے خود بخود تخلیق کے دلائل
بہر حال تمام تمہید بیان کرنے کے بعد اس کتاب کے صفحہ ۱۴۵ پر وہ یہ نتیجہ پیش کرتے ہیں:
“And here, I think it is extremely significant that a universe from nothing-in a sense I will take pains to describe-that arises naturally, and even inevitably, is increasingly consistent with everything we have learned about the world.”
ترجمہ: یہاں پر اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ کائنات محض عدم سے خود بخودپیدا ہوئی۔ اور میں کوشش کروں گا کہ یہ ثابت کروں کہ اس کائنات کی پیدائش نہ صرف خود بخود ہوئی تھی بلکہ ایسا ہونا ناگزیر تھا۔
دوسرے الفاظ میں وہ یہ ثابت کرنے کے لیے تگ و دو کر رہے تھے کہ یہ وسیع کائنات دیکھ کر یہ خیال نہ کر بیٹھنا کہ اس عالم کا کوئی خالق تو ہونا چاہیے کیونکہ اب تک اس کائنات کا مطالعہ ہمیں یہی بتاتا ہے کہ محض عدم سے اور بغیر کسی بنانے والے کے وجود کے اس عالم کو خود بخود پیدا ہونا چاہیے تھا۔
عمومی طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ جب بھی کوئی چیز جنم لیتی ہے تو اس کی پیدائش کسی مادہ یا توانائی کی مرہون منت ہوتی ہے۔اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ بغیر مادہ یا توانائی کے یہ کائنات وجود میں آئی تھی تو مذہبی طبقہ اسے خدا تعالیٰ کی کامل قدرت کی طرف منسوب کرے گا اور اللہ تعالیٰ کے وجود کا ثبوت قرار دے گا۔اور لارنس کراس کسی قیمت پر یہ نظریہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
لارنس کراس Quantum Physics کی مدد سے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس بات کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ محض عدم سے،بغیر کسی مادہ یا توانائی کے تخلیق کا عمل خود بخود بغیر کسی خالق کے وجود کے نہ صرف شروع ہو سکتا ہے بلکہ اس عالم میں سائنسی طور پر ثابت کیا جا چکا ہے۔ ایسا ہوتا ہے۔وہ یہ دلیل ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
“Nevertheless, all of these phenomena imply that, under the right conditions, not only can nothing become something, it is required to.”
ترجمہ: بہر کیف یہ سب عوامل ظاہر کرتے ہیں کہ صحیح ماحول میں عدم سے موجودات پیدا ہو سکتے ہیں بلکہ ایسا ہونا ضروری ہے۔
پھر وہ لکھتے ہیں:
“Empty space is complicated. It is a boiling brew of virtual particles that pop in and out of existence in a time so short we cannot see them directly.”(A Universe from Nothing, by Lawrence M. Krauss, Published by Free Press New York 2012, p157)
ترجمہ : خلا ایک پیچیدہ چیز ہے۔یہ گویا ایک کھولتا ہوا مشروب ہے جس میں اتنے ہر دم مختصر وقت کے لیے ایسے ذرات جنم لے رہے ہوتے ہیں کہ ہم انہیں براہ راست دیکھ نہیں سکتے۔
یعنی لارنس کراس یہ دلیل پیش کر رہے ہیں کہ ہر وقت خلا میں ایسے ذرات پیدا ہو رہے ہوتے ہیں جن کی زندگی بہت ہی محدود وقت کے لیے ہوتی ہے، جس کے بعد وہ خود ہی فنا ہوجاتے ہیں۔ ان ذرات کو سائنسی اصطلاح میں virtual particlesکہتے ہیں۔ اگر خلا میں ایسے ذرات مسلسل پیدا ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ خود بخود عدم سے کسی مادہ یا توانائی کی پیدائش نہیں ہو سکتی۔
وہ اپنے دلائل کا رد پہلے ہی کر چکے تھے
لیکن افسوس اس نتیجہ کو پیش کرنے سے قبل ہی وہ اسی کتاب میں اپنے ہی مفروضے کی بنیاد کو غلط قرار دے چکے تھے۔ وہ اسی کتاب کےصفحہ ۱۵۱ پر لکھ چکے ہیں :
Empty space can have a non-zero energy associated with it, even in the absence of any matter or radiation.
ترجمہ: اگر فضا میں کوئی مادہ موجود نہ ہو اورکوئی تابکاری شعاعیں بھی نہ موجود ہوں تو ہو سکتا ہے کہ اس میں موجود توانائی صفر نہ ہو۔
یہاں وہ ہچکچاتے ہوئےیہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ان کے نزدیک خلا کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ مکمل طور پر خالی ہے اور اس میں محض عدم سے یہ ذرات یعنی virtual particles پیدا ہوتے ہیں اور فوری طور پر ختم ہوجاتے ہیں کیونکہ جسے ہم کائنات میں موجود خلا کا نام دیتےہیں سائنسی طور پر ثابت ہے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ مکمل طور پر خالی ہے کیونکہ اس میں بھی توانائی کی ایک مقدار موجود ہوتی ہے۔ لہٰذایہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ذرات محض عدم سے پیدا ہو رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ سائنسی طور پر ثابت ہے کہ جسے ہم خلا کہتے ہیں مکمل طور پر خالی نہیں ہے۔
پھر لارنس کراس اسی کتاب کے صفحہ۱۵۳پر ایک بار پھر اسی الجھن میں مبتلا نظر آتے ہیں اور لکھتے ہیں:
our universe arose though a process like that of inflation, a process whereby the energy of empty space (nothing) gets converted into the energy of something
ترجمہ: ہماری کائنات ایک پھیلتی ہوئی حالت میں پیدا ہوئی تھی۔ اور اس وقت خالی خلا یعنی عدم کی توانائی نے موجودات کی توانائی کا روپ دھار لیا تھا۔
اس ایک جملہ میں ہی ان کے نظریات کے تضادات واضح نظر آ جاتے ہیں۔ اگر خلا میں توانائی موجود ہے اور اس میں کسی چیز کا جنم ہو تو یہ بہر حال نہیں کہا جا سکتا کہ محض عدم سے کوئی چیز وجود میں آگئی ہے۔اور مذہبی حلقوں کا یہ نظریہ ہے کہ اگر یہ کائنات دائمی نہیں ہے بلکہ کبھی اس کی پیدائش ہوئی تھی تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کبھی یہ تمام مادہ عدم سےپیدا ہوا تھا اور کسی قادر پیدا کرنے والے خدا کے وجود کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں۔
خلا بھی مکمل طور پر خالی نہیں ہے
یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ خلا بھی درحقیقت مکمل طور پر خالی نہیں اور اس میں بھی توانائی موجود ہوتی ہے اور virtual particlesبن رہے ہوتے ہیں تو بہت بعد میں Quantum Physicsکی ترقی پر یہ معلوم ہوا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آئینہ کمالات اسلام میں ہی واضح فرما دیا تھا کہ خلا میں بھی کوئی بھی حصہ مکمل طور پر خالی نہیں ہو سکتا کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کی خالقیت پر حرف آتا ہے۔
(اس حوالہ کو پڑھنے سے قبل ان اصطلاحات کے مطالب ملاحظہ فرمالیں۔طبقات کثیفہ کا مطلب ہے کہ ٹھوس تہ یا ٹھوس چیز، پول کا مطلب ہے ایسا خلا جس میں کچھ بھی موجود نہ ہو، منطق کے علم میں ’’استقرا ‘‘کا مطلب ہے کہ جزو کے مطالعہ سے ایک عام اصول مرتب کیا جائے مثال کے طور پر اگر ایک سمندر کے کچھ حصوں سے معلوم ہو کہ اس کے پانی میں نمکیات کی ایک مخصوص مقدار پائی جاتی ہے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تمام سمندر کے پانی میں نمکیات اسی تناسب سے پائے جاتے ہوں گے۔’’مستمرا ‘‘کا مطلب ہے مستقل بنیادوں پر۔’’مملو‘‘کا مطلب ہے بھرا ہوا اور لبریز۔)
آپؑ تحریر فرماتے ہیں :’’قرآن کریم نے جو سمٰوات کی حقیقت بیان کی ہے وہ نہایت صحیح اور درست ہے جس کے ماننے کے بغیر انسان کو کچھ بن نہیں پڑتا اور اس کی مخالفت میں جو کچھ بیان کیا جائے وہ سراسر ناواقفی یا تعصب پر مبنی ہوگا۔ قرآن کریم نہ آسمانوں کو یونانی حکماء کی طرح طبقات کثیفہ ٹھہراتا ہے اور نہ بعض نادانوں کے خیال کے موافق نراپول جس میں کچھ بھی نہیں۔ چنانچہ شق اول کی معقولی طور پر غلطی ظاہر ہے جس کی نسبت ہم ابھی بیان کر چکے ہیں۔ اور شق دوم یعنی یہ کہ آسمان کچھ بھی وجود مادی نہیں رکھتانراپول ہے استقرا کی رو سے سراسر غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر ہم اس فضا کی نسبت جو چمکتے ہوئے ستاروں تک ہمیں نظر آتا ہے بذریعہ اپنے تجارب استقرائیہ کے تحقیقات کرنا چاہیں تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ سنت اللہ یا قانون قدرت یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے کسی فضا کو محض خالی نہیں رکھا چنانچہ جو شخص غبارہ میں بیٹھ کر ہوا کے طبقات کو چیرتا چلا جاتا ہے وہ شہادت دے سکتا ہے کہ جس قدر وہ اوپر کو چڑھا اس نے کسی حصہ فضا کو خالی نہیں پایاپس یہ استقرا ہمیں اس بات کے سمجھنے کے لئے بہت مدد دے سکتا ہے کہ اگرچہ یونانیوں کی طرح آسمان کی حد بست ناجائز ہے مگر یہ بھی تو درست نہیں ہے کہ آسمانوں سے مراد صرف ایک خالی فضا اور پول ہے جس میں کوئی مخلوق مادہ نہیں ہم جہاں تک ہمارے تجارب رویت رسائی رکھتے ہیں کوئی مجرد پول مشاہدہ نہیں کرتے پھر کیونکر خلاف اپنی مستمر استقرا کے حکم کر سکتے ہیں کہ ان مملو فضاؤں سے آگے چل کر ایسے فضا بھی ہیں جو بالکل خالی ہیں۔ کیا برخلاف ثابت شدہ استقراء کے اس وہم کا کچھ بھی ثبوت ہے ایک ذرا بھی نہیں۔ پھر کیونکر ایک بے بنیاد وہم کو قبول کیا جائے اور مان لیا جائے۔ ہم کیونکر ایک قطعی ثبوت کو بغیر کسی مخالفانہ اور غالب ثبوت کے چھوڑ سکتے ہیں اور علاوہ اس کے اللہ جلّ شانہٗ کی اس میں کسر شان بھی ہے گویا وہ عام اور کامل خالقیت سے عاجز تھا تبھی تو تھوڑا سا بنا کر باقی بے انتہا فضا چھوڑ دی اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس استقرائی ثبوت کے انکار میں کہ کوئی فضا کسی جوہر لطیف سے خالی نہیں کونسی یقینی اور قطعی دلیل ایسے شخصوں کے ہاتھ میں ہے جو مجرّد پول کے قائل ہیں یا قائل ہوں۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۱۴۲ تا ۱۴۶، حاشیہ در حاشیہ )
مارٹن ریس کے نظریات
اس بحث کی بنیاد یہ سوال ہے کہ کیا محض عدم سے اور بغیر کسی خالق کے وجود کےیہ کائنات جنم لے سکتی ہے۔ مناسب ہوگا اگر اس ضمن میں کسی اور سائنسدان اور ماہر فلکیات کے نظریات بھی پیش کیے جائیں۔ چنانچہ ان سوالات کے بارے میں مشہور برطانوی ماہر فلکیات اور مصنف مارٹن ریس (Martin Rees)کے نظریات کا جائزہ لینا مناسب ہوگا۔یہ صاحب کیمبرج یونیورسٹی میں پروفیسر اور فلکیات کے انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر کے عہدہ پر کام کر چکے ہیں اور پانچ سو تحقیقاتی مقالوں کے علاوہ اس موضوع پر بہت سی کتابیں تصنیف کر چکے ہیں۔اس موضوع پر ان کی کتاب Just Six Numbersعالمی شہرت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں وہ ان الفاظ میں اس سائنسی حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ ہم جسے خلا کہتے ہیں وہ بھی مکمل طور پر خالی نہیں ہے۔وہ لکھتے ہیں:
“We normally think vacuum as nothing. If one were to remove from the region of interstellar space the few particles that it contains, and even shield it from the radiation passing through it, and cool it to the absolute zero of temperature, the emptiness that‘s left may still exert some force.”(Just Six Numbers, by Martin Rees, published by Wiedenfeld and Nicolson, p107)
ترجمہ: ہم عام طور پر یہ خیال کرتے ہیں کہ خلا میں کچھ موجود نہیں ہے۔ اگر ہم ستاروں کے درمیان خلا میں سے تمام موجود ذرات نکال دیں اور باہر کی شعاعوں کو بھی اس میں داخل نہ ہونے دیں۔ اور اس کو انتہائی ممکن کم درجہ حرارت تک ٹھنڈا کر دیں۔پھر بھی اس خالی جگہ میں کچھ توانائی موجود ہو گی۔
یہاں مارٹن ریس اسی حقیقت کی نشاندہی کر رہے ہیں، جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۲ءمیں فرمایا تھا کہ فضا کا کوئی بھی حصہ مکمل طور پر خالی نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی کسر شان ہے کہ وہ کامل خالقیت سے عاجز تھا۔ تبھی کائنات میں فضا کا اکثر حصہ خالی چھوڑ دیا۔اورQuantum Physics نے اس مضمون کو اور بھی واضح کر کے دکھا دیا ہے کہ اس کائنات کا کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی خالقیت کے جلوے ظاہر نہ ہو رہے ہوں۔
بہر کیف اسی بنیاد پر مارٹن ریس ان نظریات کی تردید کرتے ہیں جن کی بنیاد پر دہریہ سائنسدان لارنس کراس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ سائنسی طور پر یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ عدم سے ذرات پیدا ہوتے رہتے ہیں، اسی طرح کائنات بھی خود بخود وجود میں آ گئی ہو گی۔ اس بارے میں مارٹن ریس لکھتے ہیں:
“Cosmologists sometimes claims that the universe can arise ’from nothing‘. But they should watch their language, especially when addressing philosophers. We have realized ever since Einstein that empty space can have a structure such that it can be warped and distorted. Even if shrunk to a point, it is latent with particles and forces. Still a far richer construct than the philosophers ’nothing‘. Theorists may, someday, may be able to write down fundamental equations governing reality. But Physics can never explain what breathes fire into the equations, and actualizes them in real cosmos. The fundamental question of ’Why there is something rather than nothing?‘ remains the province of philosophers. And even they may be wiser to respond with Ludwig Wittgenstein, ’that whereof one cannot speak, one may be silent‘.”(Just Six Numbers, by Martin Rees, published by Wiedenfeld and Nicolson, p 145)
ترجمہ: ماہرین فلکیات بعض مرتبہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کائنات محض عدم سے شروع ہو سکتی ہے۔لیکن انہیں چاہیے کہ الفاظ کو ناپ تول کر بولیں۔خاص طور پر جب وہ فلاسفروں سے گفتگو کر رہے ہوں۔آئن سٹائن کے وقت سے ہی ہمیں معلوم ہے کہ خلا کی بھی ایک ساخت ہوتی ہے۔اور یہ ساخت بگڑ سکتی ہے اور ٹیڑھی بھی ہو سکتی ہے۔اگر اسے ایک نقطہ تک بھی محدود کر دیا جائے تو اس میں بھی ذرات اور توانائی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اور جسے فلاسفر ’’عدم‘‘کا نام دیتے ہیں یہ اس سے بالکل مختلف صورت ہوتی ہے۔شاید کبھی نظریاتی طبیعیات کے ماہرین ایسی equationدریافت کر لیں جو کہ اس تمام موجودات کو چلا رہی ہو۔لیکن یہ ماہرین اس بات کی وضاحت کبھی نہیں کر سکتے کہ اس equationمیں روح کون پھونکتا ہے؟ جس کے نتیجہ میں یہ عالم وجود میں آ گیا ہو۔اصل سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا کہ ’’کچھ نہیں‘‘ کی جگہ یہ سب کچھ پیدا ہوا۔یہ سوال فلاسفروں سے تعلق رکھتا ہے۔اور شاید انہیں بھی لڈونگ ویٹگینسٹینکی طرح یہ کہنا چاہیے کہ جہاں کچھ نہ کہہ سکو وہاں خاموش رہنا ہی بہتر ہوتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایک صدی سے خاص طور پر دہریہ حضرات سائنس کی بنیاد پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ عالم کسی خالق کے بنانے سے وجود میں آیا ہو۔ لیکن وہ اس کی تائید میں جو بھی نظریات پیش کرتے ہیں، وہ یا تو سائنسی ترقی کے ساتھ غلط ثابت ہوجاتے ہیں یا ان کے نظریات کے سائنسی سقم خود ہی واضح ہوجاتے ہیں اور یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وہ یہ دلیل جن بنیادوں پر پیش کر رہے تھے، وہ بنیاد ہی سائنسی طور پر درست نہیں تھی۔بہر حال سائنس کی ترقی کا سفر جاری ہے اور اس کے ساتھ یہ دلچسپ بحث بھی مزید دلچسپ ہوتی جا رہی ہے۔