انبیاء کا ایک خُلق: بہادری اور جراٴت
اللہ تعالیٰ کے انبیاء کا ایک خُلق بہادری اور جرأت بھی ہوتا ہے۔ اور یہ خداتعالیٰ پر یقین اور توکّل کی وجہ سے مزید ابھرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کام ان کے سپرد کئے ہوتے ہیں وہ اس وقت تک انجام نہیں دئیے جا سکتے جب تک جرأت اور بہادری کا وصف ان میں موجود نہ ہو۔ دوسرے اوصاف کی طرح یہ وصف بھی انبیاء میں اپنے زمانے کے لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم الانبیاء ہیں، ان میں تو یہ وصف تمام انسانوں سے بلکہ تمام نبیوں سے بھی بڑھ کر تھا۔ جس کی مثالیں نہ اُس زمانے میں ملتی تھیں، نہ آئندہ زمانوں میں مل سکتی ہیں۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر موقع پر جرأت کا مظاہرہ کیا ہے تاریخ میں کسی لیڈر کی ایسی مثال نظر نہیں آتی بلکہ سوواں، ہزارواں حصہ بھی نظر نہیں آتی۔ انتہائی مشکل حالات میں بھی قوم کا حوصلہ بلند رکھنے کے لئے، اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بلند رکھنے کے لئے، ان کو صبر اور استقامت اور جرأت اور اللہ تعالیٰ پر توکل کی تلقین نہ کی ہو۔ اور خود آپؐ کا عمل یہ تھا کہ اگر تنہا بھی رہ گئے اور دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں تب بھی کبھی کسی قسم کے خوف کا اظہار نہیں کیا۔… ہم دیکھتے ہیں کہ وحی نازل ہونے کے بعد مختلف اوقات میں آپؐ نے کس قدر بہادری اور جرأت کے مظاہرے کئے۔ مکّہ کی تیرہ سالہ زندگی میں یعنی دعویٰ نبوت کے بعد آپؐ کو ہر طرح سے ڈرایادھمکایا گیا اور آپؐ کے بزرگوں اور پناہ دینے والوں کی پناہیں آپؐ سے ہٹانے کی کوششیں کی گئیں۔ لیکن اس جرأت و شجاعت کے پیکر نے ان کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کی۔
یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے[الَّذِیۡنَ یُبَلِّغُوۡنَ رِسٰلٰتِ اللّٰہِ وَ یَخۡشَوۡنَہٗ وَ لَا یَخۡشَوۡنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہَ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیۡبًا ۔ (الاحزاب:۴۰)]۔ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اللہ کے پیغام پہنچایا کرتے تھے اور اس سے ڈرتے رہتے تھے اور اللہ کے سواکسی اَور سے نہیں ڈرتے تھے اور اللہ حساب لینے کے لحاظ سے بہت کافی ہے۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے بھی گزر چکی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو سب سے بڑھ کر اس کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے تھے۔ آپؐ کا عمل اور صحابہ ؓ کی گواہیاں اس بات پر شاہد ہیں کہ خدائے واحد کا پیغام پہنچانے میں جس جرأت کا مظاہرہ آپؐ نے کیا وہ بے مثال ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں یہ جرأت اور اللہ کے علاوہ کسی اور کا خوف نہ کرنا۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍ اپریل ۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۶؍ مئی ۲۰۰۵ء)