نماز کے پانچ اوقات انسان کی روحانی حالتوں کی ایک عکسی تصویر ہے
یاد رکھو کہ یہ جو پانچ وقت نماز کے لئے مقرر ہیں یہ کوئی تحکُّم اور جبر کے طور پر نہیں۔ بلکہ اگر غور کرو تو یہ دراصل روحانی حالتوں کی ایک عکسی تصویر ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا کہ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ (بنی اسرائیل:۷۹)یعنی قائم کرو نماز کودُلُوْکِ الشَّمْسِ سے۔ اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے یہاں قیام صلوٰۃ کو دُلُوْکِ شَمْس سے لیا ہے۔ دُلُوْک کے معنوں میں گو اختلاف ہے لیکن دوپہر کے ڈھلنے کے وقت کا نام دُلُوْک ہے۔ اب دُلُوْک سے لے کر پانچ نمازیں رکھ دیں۔ اس میں حکمت اور سر کیا ہے۔ قانون قدرت دکھاتاہے کہ روحانی تذلل اور انکسار کے مراتب بھی دُلُوْک ہی سے شروع ہوتے ہیں اور پانچ ہی حالتیں آتی ہیں۔ پس یہ طبعی نماز بھی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب حزن اور ہم و غم کے آثار شروع ہوتے ہیں۔ اس وقت جبکہ انسان پر کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے۔ تو کس قدر تذلل اور انکساری کرتا ہے۔ اب اس وقت اگر زلزلہ آوے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ طبیعت میں کیسی رقت اور انکساری پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح پر سوچو کہ اگر مثلاً کسی شخص پر نالش ہو تو سمن یا وارنٹ آنے پر اس کو معلوم ہو گا کہ فلاں دفعہ فوجداری یا دیوانی میں نالش ہوئی ہے۔ اب بعد مطالعہ وارنٹ اس کی حالت میں گویا نصف النہار کے بعد زوال شروع ہوا۔ کیونکہ وارنٹ یا سمن تک تو اسے کچھ معلوم نہ تھا۔ اب خیال پیدا ہوا کہ خدا جانے ادھر وکیل ہو یا کیا ہو؟ اس قسم کے ترددات اور تفکرات سے جو زوال پیدا ہوتا ہے یہ وہی حالت دُلُوْکہے۔ اور یہ پہلی حالت ہے جو نماز ظہر کے قائم مقام ہے اور اس کی عکسی حالت نماز ظہر ہے۔ اب دوسری حالت اس پر وہ آتی ہے جبکہ وہ کمرۂ عدالت میں کھڑا ہے۔ فریق مخالف اور عدالت کی طرف سے سوالات جرح ہو رہے ہیں اور وہ ایک عجیب حالت ہوتی ہے۔ یہ وہ حالت اور وقت ہے جو نماز عصر کا نمونہ ہے۔ کیونکہ عصر گھوٹنے اور نچوڑنے کو کہتے ہیں۔ جب حالت اَور بھی نازک ہو جاتی ہے اور فرد قرار داد جرم لگ جاتی ہے تو یاس اور ناامیدی بڑھتی ہے کیونکہ اب خیال ہوتا ہے کہ سزا مل جاوے گی۔ یہ وہ وقت ہے جو مغرب کی نماز کا عکس ہے۔ پھر جب حکم سنایا گیا اور کنسٹبل یا کورٹ انسپکٹر کے حوالہ کیا گیا تو وہ روحانی طور پر نماز عشاء کی عکسی تصویر ہے۔ یہاں تک کہ نماز کی صبح صادق ظاہرہوئی اور اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (الانشراح:۷)کی حالت کا وقت آگیا۔ تو روحانی نماز فجر کا وقت آ گیا اور فجر کی نماز اس کی عکسی تصویر ہے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۵۰۔۱۵۱،ایڈیشن۱۹۸۴ء)
اپنے دلوں میں خداتعالیٰ کی محبت اور عظمت کا سلسلہ جاری رکھیں اور اس کے لئے نماز سے بڑھ کراور کوئی شئے نہیں ہے کیونکہ روزے تو ایک سال کے بعد آتے ہیں اور زکوٰۃ صاحبِ مال کو دینی پڑتی ہے۔ مگر نماز ہے کہ ہر ایک حیثیت کے آدمی کو پانچوں وقت ادا کرنی پڑتی ہے۔ اسے ہرگز ضائع نہ کریں۔ اسے باربار پڑھو اور اس خیال سے پڑھو کہ میں ایسی طاقت والے کے سامنے کھڑا ہوں کہ اگر اس کا ارادہ ہو تو ابھی قبول کر لیوے۔ اسی حالت میں بلکہ اسی ساعت میں بلکہ اسی سیکنڈ میں۔ کیونکہ دوسرے دنیوی حاکم تو خزانوں کے محتاج ہیں اور ان کو فکر ہوتی ہے کہ خزانہ خالی نہ ہو جاوے اور ناداری کا ان کو فکر لگا رہتا ہے۔ مگر خداتعالیٰ کا خزانہ ہر وقت بھرا بھرایا ہے۔ جب اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو صرف یقین کی حاجت ہوتی ہے۔ اسے اس امر پریقین ہو کہ میں ایک سمیع، علیم اور خبیر اور قادر ہستی کے سامنے کھڑا ہوا ہوں۔ اگر اسے مہر آ جاوے تو ابھی دے دیوے۔ بڑی تضرّع سے دعا کرے۔ ناامیداور بدظن ہرگز نہ ہو وے اور اگر اسی طرح کرے تو (اس راحت کو) جلدی دیکھ لے گا اور خداتعالیٰ کے اَوراَورفضل بھی شاملِ حال ہوں گے اور خود خدا بھی ملے گا۔ تو یہ طریق ہے جس پر کاربند ہونا چاہئے۔ مگر ظالم فاسق کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی کیونکہ وہ خداتعالیٰ سے لاپروا ہے۔ ایک بیٹا اگر باپ کی پروا نہ کرے اور ناخلف ہو تو باپ کو اس کی پروا نہیں ہوتی تو خدا کو کیوں ہو۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۴۰۱۔۴۰۲،ایڈیشن ۱۹۸۴ء)