خوشگوار عائلی زندگی
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے: وَمِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَاۤ اَنۡتُمۡ بَشَرٌ تَنۡتَشِرُوۡنَ۔وَمِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَجَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّرَحۡمَۃً ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ۔(سورۃروم آیت ۲۲،۲۱) اور اس کے نشانات میں سے (ایک یہ بھی) ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ پھر (گویا) اچانک تم بشر بن کر پھیلتے چلے گئے۔ اور اس کے نشانات میں سے (یہ بھی) ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم اُن کی طرف تسکین (حاصل کرنے) کے لئے جاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔ یقیناً اس میں ایسی قوم کے لئے جو غوروفکر کرتے ہیں بہت سے نشانات ہیں۔
خوشگوار عائلی زندگی کے وسیع موضوع پر ہمیں کئی پہلوؤں سے غور کرنے کی ضرورت ہے تبھی ہم وہ خدائی نشانات دیکھ سکتے ہیں جن کا ذکر ان آیات میں آیا ہے اور یوں باہمی تسکین، محبت اور رحمت کا تجربہ کرسکتے ہیں۔
عموماً دیکھا جاتا ہے کہ شادی کی ابتدا میں کسی حد تک تسکین، محبت اور رحمت نظر آتی ہے لیکن کچھ عرصہ بعد اختلافات، فساد، اور بے سکونی اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، اس مضمون میں میاں بیوی میں اختلافات کی کچھ بنیادی وجوہا ت، اس کے کچھ طبی پہلو اور پھر ان کا ممکنہ حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
جب ہم سائنسی حوالے سے انسان کی پیدائش پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک کروموسوم کے فرق سے عورت اور مرد کا وجود بننا شروع ہوجاتا ہے اور اگر کروموسوم میں کمی یا زیادتی ہو جا ئے یا ترتیب بدل جائے تو ایک عجیب الخلقت چیز وجود میں آتی ہے۔ اب اسی ایک کروموسوم کے فرق کی وجہ سے بلوغت کی عمر میں پہنچنے پر ایک مخفی اصول کے تحت جنسی ہارمون پیدا کرنے والے غدود ایکٹیو ہونا شروع ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے جہاں عورت اور مرد کی جسمانی وضع میں فرق آتا جاتا ہے وہاں ذہنی اور نفسیاتی فرق بھی واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔ انسان جسمانی تبدیلیوں کو تو آسانی سے قبول کر لیتا ہے مگر ذہنی اور نفسیاتی اثرات چونکہ اتنے واضح دکھائی نہیں دیتے یا ان کا علم نہیں ہوتا، اس لیے ان کو اس طرح قبول نہیں کیا جاتا۔ آج ہمیں سائیکالوجی یہ بھی بتاتی ہے کہ عورت اور مرد کے سوچنے اور سمجھنے کے انداز میں بھی فرق ہے۔ اور یہ فرق دوسرے عوامل کے علاوہ مختلف ہارمونز کی وجہ سے بھی ہو تا ہے۔ دوسرے عوامل جو ہماری شخصیت کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان میں ماحول، تعلیم و تربیت، مذہب اور وہ روایات بھی ہیں جن میں ہم پرورش پاتے ہیں۔
عورتوں میں زیادہ تر ایسٹروجن اور پروجسٹرون سے feminine یعنی نسوانی، اور مردوں میں زیادہ ٹیسٹوسٹیرون کی پروڈکشن سے masculine یعنی مردانہ آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ اب اگر کسی وجہ سے ان ہارمونز کے توازن میں فرق آ جائے تو عورت میں مرد اور مرد میں عورت جیسے کچھ خدوخال اور سوچنے کے انداز ہو سکتے ہیں۔ آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ عموماً عورت دل سے سوچتی ہے اور مرد دماغ سے۔ ارتقائی لحاظ سے غور کرنے سے معلوم ہوتا ہےکہ عورت اور مرد کا تخلیقی فرق ان کی آئندہ زندگی میں ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے ضروری تھا۔ مرد کو جسمانی طور پر مضبوط کرنے سے اسے باہر کی ذمہ داریوں کے لیے تیار کرنا تھا اور عورت میں زیادہ محبت، نرمی، برداشت اور مامتا کے جذبات آئندہ نسل کی پرورش کے لیے رکھے گئے۔
بنیادی طور پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عورت اور مرد کے سوچنے اور سمجھنے کے انداز مختلف ہیں۔اور بعض دفعہ اسی فرق کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں میاں بیوی میں اختلافات ہو جاتے ہیں اور نوبت علیحدگی تک بھی جا پہنچتی ہے۔ جس میں سب سے بڑھ کر بچوں پر منفی اثرات پڑنے کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے میں ایک بے چینی کی کیفیت پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
اسلام تو ہر موقع پر ہماری راہنمائی کرتا ہےمگر عموماً انسان اس راہنمائی سے فائدہ نہیں اٹھاتا۔ مثلاً بلوغت کی عمر میں جہاں جسم میں جنسی ہارمونز کے کمالات ظاہر ہورہے ہوتے ہیں، انسان کا حسن و جمال نمایاں ہوتا ہے وہاں دوسری طرف ان ہارمونز کی شدت مخالف جنس کی کشش کا باعث بن رہی ہوتی ہے۔ اور بعید نہیں ہوتا کہ انسان ٹھوکرکھا کر بے راہ روی کا شکار ہوجائے۔ اس موقع پر اسلام نے عفت اور پاک دامنی کی حفاظت کے لیے نگاہیں نیچی رکھنے، پردہ اور پھر نکاح کا حکم دیا ہے۔ اور نکاح کو عورت اور مرد کے لیے ایک محفوظ قلعہ قرار دیا ہے۔ دراصل نکاح اور شادی کا ایک مقصد اولاد کا حصول اور نسل انسانی کے سلسلے کو جاری رکھناہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے اپنی مخلوق کی پیدائش میں انسان کو وسیلہ بنایا ہے۔ اور اس لحاظ سے بطور والدین میاں بیوی پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔ یعنی اولاد ہونے کی صورت میں لڑکا یا لڑکی ایک بھاری ذ مہ دار ی اٹھانے والے والدین بن جاتے ہیں۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو نہ صرف گھروں میں بے سکونیاں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں بلکہ پورا معاشرہ بےچینی کا شکار ہوجاتا ہے۔ بعض دفعہ گھروں میں ساتھی سے تسکین نہ ملنے کی صورت میں باہر تسکین کی تلاش کی جاتی ہےاور جب شادی شدہ انسان اپنا ساتھی ہونے کے باوجود باہر پوشیدہ تعلقات قائم کرے تو دراصل سکون کی بجائے مزید فساد کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ خامی عموماً مردوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس سے نہ صرف آپس کے تعلقات کمزور سے کمزور تر ہوتےہیں بلکہ اگر بچے ہوں تو وہ بھی اسی ڈگر پر چل نکلتے ہیں جس پر وہ اپنے والدین کو پاتے ہیں۔
اب ہم ہارمونز میں نارمل اتار چڑھاؤ یا عدم توازن کی وجہ سے انسان کے مزاج میں تبدیلی کے بارے میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کو بہتر طور پر جاننے سے ہم آپس کے معاملات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور روزمرہ کے بہت سے مسائل، بد مزگیوں اور جھگڑوں سے بچ کر اپنی زندگیوں کو خوشگوار طریق پر گذار سکتے ہیں۔ مثلاً مردوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عمر کے ایک خاص حصہ میں عورتوں میں مردوں کے مقابل پر ہارمونز کا اتار چڑھاؤ زیادہ ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ زیادہ جذباتی ہوجاتی ہیں۔ جیسا کہ خواتین کے ماہانہ نظام سے وابستہ premenstrual tension تو عام بات ہے جس میں خواتین بہت حساس ہو جاتی ہیں اور معمولی سی بات بھی ان کے لیے تکلیف اور غصہ کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ اسی طرح دوران حمل mode swings ہوتے ہیں، اور اگر ایسی باتوں کا علم نہ ہو تو بعض اوقات ساس بہو میں خاص کر بد ظنی اور اختلافات پیدا ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ ساسیں عموماً اپنی مثال دیتی ہیں کہ ہم تو ایسا نہیں کرتی تھیں حالانکہ وہ بھول رہی ہوتی ہیں یا بعض اوقات واقعی وہ کسی اور یا ملتی جلتی کیفیت سے گذر چکی ہوتی ہیں۔ پھر بچے کی پیدائش کے بعد postpartum depression عام ہے۔ جس کو گھروں میں اَور طریقے سے سمجھا جاسکتا ہے، بعض اوقات سستی کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ پچاس پچپن سال کی عمر کے قریب مینو پاز کا زمانہ ہوتا ہے جب ہارمون کی کمی اور عدم توازن ایک دفعہ پھر عورت کی جسمانی و ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتا ہے، ڈیپریشن ہو سکتا ہے اور بعض دفعہ رویے میں کجی کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ اس زمانہ میں عموماً اولاد جوان ہوچکی ہوتی ہے اورساس سسر مزید بوڑھے ہو چکے ہوتے ہیںاور بعض اوقات ان کی برداشت اور پھر یادداشت بھی متاثر ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے گھر میں مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ مینوپاز کے زمانہ میں عورت میں رویہ کی تبدیلی اور اتار چڑ ھاؤ کو مرد لاعلمی کے نتیجے میں نہیں سمجھتا اور نتیجۃً غلط ردعمل دکھاتا ہے۔ آنحضورﷺ نے عورتوں کو نازک شیشوں سے تشبیہ دی ہے اور ان کے جذبات اور احساسات کا خیال کرنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی مردوں کو فرمایا ہے کہ عورت کی ہر کج خلقی کو برداشت کرے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِکی تعلیم دی ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک عورت بھی ایک دوسری عورت کے مختلف عمر اور حالتوں میں بدلنے والے جذبات کو ٹھیک طریقے سے سمجھ نہیں پاتی اور گھر کا ماحول متاثر ہوتا ہے۔ تصور کریں کہ جب ایک نویلی دلہن گھر میں آتی ہے تو عموماً اس کی ساس اپنے مینو پاز کے زمانے میں ہوتی ہے یا پھر کچھ عرصہ بعد ساس کا مینوپاز کا زمانہ شروع ہوجاتاہے۔ دونوں مختلف لحاظ سے جذباتی ادوار میں سے گذر رہی ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کی حالتوں کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں ایک دوسرے سے ناچاکی پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر ایسی حالتوں کی آگاہی ہو تو بہت سی ناچاکیوں اور بد مزگیوں سے نہ صرف بچا جاسکتا ہے بلکہ ایک دوسرے کا خیال کرتے ہوئے پرسکون زندگی گذاری جاسکتی ہے۔
اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مردوں کا غصہ گھریلو مسائل کو بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔ دیگر عوامل کے علاوہ مردانہ ہارمونز اور ہائی بلڈ پریشر یا کوئی اَور بیماری بھی اس کا سبب ہو سکتے ہیں۔ ٹیسٹوسٹیرون ایک ایگریسو ہارمون ہے۔ جہاں اس کے اپنے فوائد ہیں وہاں اس کا عدم توازن بے جا غصہ کا باعث بھی ہو سکتا ہے اور اگر اسے اعتدال میں نہ لایا جائے تو انسان اس کا شکار ہوکر بعض دفعہ ظلم کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔عموماً غصہ چند لمحے رہ کر ختم بھی ہوجاتا ہے اور بعد میں مرد اپنے غصہ پر افسوس بھی کرتا ہے۔ اب اگر اس کیفیت میں بیوی بھی تکرار کرنے لگے تو معاملات مزیدخراب ہوں گے۔ اسی لیے حضرت اماںجانؓ نئی دلہنوں کو نصیحت کیا کرتی تھیں کہ جب خاوند غصے میں ہو تو اس وقت اس کو جواب نہ دیں۔ بعد میں موزوں وقت پر اسے سمجھایا جاسکتا ہے۔ یورپ اور امریکہ وغیرہ میں تو غصے کو کنٹرول کرنے کے لیے کورسز بھی کروائے جاتے ہیں۔ اگر اپنی ایسی کمزوریوں کو وقت پر پہچان کر ان پر قابو پالیا جائے تو گھر کو جنت نظیر بنایا جا سکتا ہے۔ غصےکو اعتدال میں لانے اور برداشت کو بڑھانے کے لیے روزانہ کی بنیا د پر ورزش اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ورزش کرنے سے بھی اچھے ہارمونز بنتے ہیںجو خوشی اور امید پیدا کرتے ہیں۔عمو ماً جب ایک بیو ی اپنے خاوند سے اپنے سارے دن کا احوال بیان کررہی ہوتی ہے جس میں کچھ مسائل بھی ہو سکتے ہیں تو خاوند اکثر ان مسائل کا فوری حل بتا نا شروع کردیتے ہیں جبکہ عموماً اس وقت بیوی کو حل سے زیادہ اپنی بات سنے جانے کی ضرورت اور خواہش ہوتی ہے، حل کی نہیں۔ مردوں کو چاہیے کہ وہ اچھے سامع بنیں۔ عموماً عورتیں اپنے stressکو شیئر کرکے جبکہ مرد خاموش رہ کر اور تنہائی میں سکون پاتے ہیں۔ اسی طرح بیوی ہمدردی میں مختلف معاملات میں بغیر مانگے خاوند کو مشورہ دیتی ہے جس کو مرد سنجیدگی سے قبول نہیں کرتا۔ ہاں اگر خاوند کے مانگنے پر بیوی مشورہ دے تو خاوند کی نظر میں اس کی بہت اہمیت ہوگی۔
پھر بہت سے معاملات چیزوں کو نظر انداز کرنے سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ عموماً ہمیں نظر انداز یا صرف نظر کرنا سکھایا نہیں جاتا۔مگر جب انسان کوشش کرکے یہ سیکھ جاتا ہے تو اپنے آپ کو ایک سکون کی حالت میں پاتا ہے اور پچھتاوے جیسے عذاب سے بچا رہتا ہے۔
ایک اور بات جو گھریلو ماحول پر مثبت اثر ڈال سکتی ہے وہ یہ ہے کہ میاں بیوی اپنے اپنے حقوق کی بجائے اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دیں تو اکثر معاملات کچھ عرصہ میں بہتر ہو سکتے ہیں۔ عائلی معاملات میں عدل و انصاف سے زیادہ احسان اور ایتاء ذی القربیٰ کے اصولوں پر عمل کیا جائے تو گھریلو ماحول خوشگوار ہو سکتا ہے۔ آپس میں بات چیت اور بہتر communication بھی مسائل کے حل میں کلیرٹی کا کردار ادا کرتے ہیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ دوسرے کے سوچنے کے انداز کو مثبت طور پر سمجھنے اور اپنی سوچ میں معمولی تبدیلی لانے سے بڑے بڑے نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اگر مرد اور عورت ایک دوسرے کی شخصیت کو تبدیل کرنے کی بجائے خامیوں اور خوبیوں سمیت قبول کرلیں اور یہ خیال کریں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مجھ سے مختلف بنایا ہے۔ پھر وہ اس فرق کو انجوائے بھی کرسکتے ہیں اور ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء آیت ۲۰ میں مردوں کو اپنی بیویوں سے حسن سلوک کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا ہے فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡہُنَّ فَعَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّیَجۡعَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ خَیۡرًا کَثِیۡرًا کہ اگر تم انہیں ناپسند کرو تو یاد رکھو کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بہتری کا سامان پیدا کردے۔ اپنے جیون ساتھی کی خوبیوں پر نظر رکھیں۔ میاں بیوی کی رفاقت زندگی بھر کےلیے ہوتی ہے۔ اس میں ضروری نہیں کہ اپنے ساتھی کی تمام ادائیں اور عادات ہمیشہ پسند آئیں یا ایک دوسرے کی منشا کے مطابق ہوں۔ طبائع کا فرق اور فاصلہ درگذر، بلند حوصلہ، شیریں نصیحت اور عمدہ نمونے سے آہستہ آہستہ دور کیا جا سکتا ہے۔حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’کوئی صاحب ایمان مرد، صاحب ایمان عورت سے بغض نہ رکھے۔ اگر اس کی ایک خو اسے نا پسند ہے تو اس کی دوسری خو یا وصف اسے پسند بھی تو ہے۔‘‘(صحیح مسلم)
گھروں میں سکون کے لیے ایک بڑا اصول یہ بھی ہے کہ روز مرہ کی بنیاد پر اچھی باتیں تلاش کرکے ایک دوسرے کی تعریف کریں، ایک دوسرے کی عزت کریں اور ایک دوسرے کے کام کو سراہیں۔اس سے بھی اچھے ہارمونز کا اخراج ہوگا۔ اور دونوں کو اپنے کار آمد ہونے کا احساس بھی ہوگا۔ مثلاً بیوی نے اگراچھا کھانا بنایا ہے تو اس کی تعریف کریں۔ اسی طرح خاوند نے گھر کے کاموں میں مدد کروائی ہے تو بیوی کو چاہیے کہ اس کی شکرگذار ہو۔اس سے ایک دوسرے کو بہت طاقت ملے گی۔ ایک دوسرے کو مسکرا کر، پیار سے دیکھنے سے بھی اچھے ہارمونز کا اخراج ہوتا ہے جو ہماری صحت پر اچھا اثر ڈالتے ہیں۔ پھر بولنے سے پہلے تھوڑا سوچ لیں کہ کہیں آپ کے الفاظ آپ کے ساتھی کے لیے تکلیف کا باعث تو نہ بنیں گے۔ بات ہمیشہ نرم لہجے میں کریں۔ ایک دوسرے کو معاف کرنا سیکھیں۔ اس سے آپ کی اپنی ذہنی صحت اچھی ہوگی۔ پھر شکر گذاری ایک بڑا خلق ہے جس پر عمل کرنے سے بے انتہا نعمتیں ملتی ہیں، سکون ملتا ہے۔ اللہ نے بھی فرمایا ہے: لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُم(سورت ابراہیم آیت ۸)یعنی اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا۔ پھر ایک دوسرے سے باتیں چھپانے سے بد اعتمادی پیدا ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا لباس کہا ہے۔جس کا ایک بڑا اور بنیادی مطلب ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرنا ہے۔
یہ بھی ایک عام رویہ ہے کہ صحت کی حالت میں تو ایک دوسرے کا خیال کیا جاتا ہے مگر بیماری کی صورت میں مثلاً پرانی بیماری میں اور خاص کر جسم میں کسی قسم کا درد ہو تو ایک دوسرے کا خیال مشکل ہوجاتا ہے۔دراصل بیماری اور درد کی حالت میں انسان کی قوت برداشت بہت کم ہوتی ہے۔ اور یہی موقع ایک دوسرے کا خیال کرنے کا ہے۔ اس کے لیے یہ سوچ کر کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس تکلیف سے بچایا ہوا ہے، یا یہ کہ اگر یہ بیماری خدا نخواستہ مجھے ہوتی تو میں اپنے ساتھ کس سلوک کا متمنی ہوتا، دوسرے کا خیال رکھنے کا جذبہ بڑھاتی ہے۔
مرد کو اللہ تعالیٰ نے قوام بنایا ہے اور معاشی ذمہ داری اس پر ڈالی ہے۔ مگر ایک بات جو عموماً مردوں کی فطرت میں ہوتی ہے اور اکثر بد خلقی پر منتج ہو کر گھروں میں بے چینیاں پیدا کرتی ہے وہ بخل اور کنجوسی ہے۔ بیوی بچوں پر خرچ کرنا مرد کا فرض ہے۔ اللہ نے اس کا بہت اجر رکھا ہے۔ یہاں مغربی معاشرے میں ضرورت کے مطابق عورتیں بھی بسا اوقات نوکری کرتی ہیں۔ باہمی رضامندی ہو اور گھریلو فرائض کا ہرج نہ ہو تو اس میں ہرج نہیں۔
ایک اور بات جو اکثر سامنے آتی ہے اور گھروں میں بےچینیوں کا باعث بھی بنتی ہے اور اس بات کو ایڈریس بھی نہیں کیا جاتا وہ میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات میں بےسکونی ہے جس کی وجہ سے نامناسب اور غلط رویے جنم لیتے ہیں۔ ایسے معاملات کو حل کرنے کے لیےدرست معلومات میسر ہوتی ہیں جنہیں حاصل کیا جا سکتا ہے۔اس سلسلے میں professional helpسے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے پانچ جگہ نکاح کے موقع پر تقویٰ کا لفظ استعمال کرکے ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہارا ہر فعل، تمہارا ہر قول، تمہارا ہر عمل اپنی ذات کے لئے نہ ہو بلکہ تقویٰ پر بنیاد رکھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اللہ کے بھی حقوق ادا کرنے والا ہو اور ایک دوسرے کے بھی حقوق ادا کرنے والا ہو۔‘‘(مستورات سے خطاب، فرمودہ ۲۳؍جولائی ۲۰۱۱ءبر موقع جلسہ سالانہ یوکے)
پھر گھروں میں سکون کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔ عبادات میں بھی اس وقت لذت پیدا ہو سکتی ہے جب ہماری عائلی زندگی میں سکون ہوگا۔عائلی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے تیر بہدف نسخہ دعا ہے۔درود شریف بہت پڑھا کریں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ جو دعا سیکھائی ہے اسے کثرت سے کیا کریں اور بچوں کو بھی سیکھائیں: رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا (سورۃ الفرقان آیت ۷۵) اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔
اللہ ایسے گھروں کو یقیناً بلند کرتا ہے جس میں اس کا ذکر ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی عبادات پر بھی توجہ دیں۔ لیکن ساتھ عملی کام بھی کریں۔ایک عملی کام جس سے آپ آغاز کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے کوئی تحفہ یا پھول لے کر آئیں اور ساتھ ایک دوسرے کو ایک خط تحریر کریں جس میں دوسرےکی اچھی باتوں کا ذکر ہو اور اگر اس سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو اس کا اظہار بھی کریں۔ وقت گذر جاتا ہے۔انسان بوڑھا اور کمزور ہوجاتا ہے اور آخر کار دونوں میں سے ایک دنیا سے چلا جاتاہے۔ ایسا نہ ہو کہ بقول کسے ع’’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ‘‘جیسا پچھتاوا رہ جائے۔ آخرت میں تو ہر ایک نے اپنے اپنے اعمال کا جواب خود ہی دینا ہے۔یہ صرف اشرف المخلوقات ہی ہے جو بہتری کی طرف سوچتا ہے اور خود کو اچھے سے اچھا بنا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ایک بزرگ احمدی شاعرہ نے ’’میری نظر میں گھر کا مقام ‘‘کے عنوا ن سے ایک لمبی نظم لکھی ہے جس میں سے کچھ پیش کرکے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں؎
میری نظر میں گھر ہے وہ
میرے عزیز دوستو!
جہاں محبتیں بھی ہوں
جہاں رفاقتیں بھی ہوں
جہاں خلوص دل بھی ہو
جہاں صداقتیں بھی ہوں
جہاں ہو احترام بھی
جہاں عقیدتیں بھی ہوں
جہاں ہو کچھ لحاظ بھی
جہاں مروتیں بھی ہوں
جہاں نوازشیں بھی ہوں
جہاں عنایتیں بھی ہوں
جہاں ہو ذکر یار بھی
جہاں عبادتیں بھی ہوں
کسی حسین دل نواز کی حکایتیں بھی ہوں
جہاں نہ ہوں کدورتیں
جہاں نہ ہوں عداوتیں
دل و نگاہ و فکر کی
جہاں نہ ہوں کثافتیں
یہ ایسی ایک جگہ ہے کہ جسے میں اپنا کہہ سکوں
جہاں میں سکھ سے جی سکوں جہاں سکوں سے رہ سکوں
یہ گھر عجیب چیز ہے
مجھے بہت عزیز ہے
اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں پر غور کرکے اپنے آپ کو بہتر بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین