امانت اور باہمی لین دین کے معاملات میں اسلامی تعلیم
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۸؍ نومبر ۲۰۰۵ء)
اَوۡفُوا الۡکَیۡلَ وَ لَا تَکُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُخۡسِرِیۡنَ۔ وَ زِنُوۡا بِالۡقِسۡطَاسِ الۡمُسۡتَقِیۡمِ۔ وَ لَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡیَآءَہُمۡ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ(الشّعراء:182-184)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں بھی حضرت شعیب کی قوم کا ذکر کیا ہے ان کویہ نصیحت فرمائی کہ ماپ تول پورا دیا کرو۔ کم تولنے کے لئے ڈنڈی مارنے کے طریقے اختیار نہ کرو کیونکہ تمہاری یہ بدنیتی ملک میں فساد اور بدامنی پھیلانے کا باعث بنے گی۔ یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں یہ بھی اسی مضمون کی ہیں۔ ان کا ترجمہ ہے کہ: پورا پورا ماپ تولو اور ان میں سے نہ بنو جو کم کرکے دیتے ہیں۔ اور سیدھی ڈنڈی سے تولا کرو۔ اور لوگوں کے مال ان کو کم کرکے نہ دیا کرو۔ اور زمین میں فسادی بن کر بدامنی نہ پھیلاتے پھرو۔
اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’اور کسی طور سے لوگوں کو ان کے مال کا نقصان نہ پہنچاؤ اور فساد کی نیت سے زمین پر مت پھرا کرو۔ یعنی اس نیت سے کہ چوری کریں یا ڈاکہ ماریں یا کسی کی جیب کتریں یا کسی اور ناجائز طریق سے بیگانہ مال پر قبضہ کریں ‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ347)
تو یہ ماپ تول پورا نہ کرنا یا ڈنڈی مارنا، دیتے ہوئے مال تھوڑا تول کر دینا اور لیتے ہوئے زیادہ لینے کی کوشش کرنا یہ تمام باتیں چوری اور ڈاکے ڈالنے کے برابر ہیں۔ اس لئے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ کوئی بات نہیں تھوڑاسا کاروباری دھوکا ہے کوئی ایسا بڑا گناہ نہیں۔ بڑے واضح طور پر فرمایاگیا ہے کہ خبردار رہو، سن لو کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔
پھر بعض لوگ دوسرے کے مال پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی بات نہیں اس کو تو پتہ نہیں چل رہا کہ فلاں چیز کی کیاقدر ہے، اس کو دھوکے سے بیوقوف بنا لو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کچھ اپنی جیب میں ڈال لو، کچھ اصل مالک کو دے دو۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ بات یہ عمل بھی اسی زمرے میں آتے ہیں جو فساد پیدا کرنے والے عمل ہیں۔ اس قسم کے لوگ جو اس طرح کا مال کھانے والے ہوتے ہیں یہ لوگ دوسروں کے مال کھا کر آپس میں لڑائی جھگڑوں اور فساد کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ دوسرے فریق کو جب پتہ چلتا ہے کہ اس طرح میرا مال کھایا گیا تو ان کے خلاف کارروائی کرتا ہے اور اس طرح آپس کے تعلقات میں دراڑیں پڑتی ہیں۔ تعلقات خراب ہوتے ہیں، مقدمے بازیاں ہوتی ہیں۔ دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں اور بڑھتی ہیں۔ لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ اور اگر دوسرا فریق صبر کرنے والا ہو، حوصلہ دکھانے والا ہو تو پھر تو بچت ہو جاتی ہے ورنہ جیسا کہ مَیں نے بیان کیا یہ لڑائی جھگڑے، فساد، فتنہ یہی صورتحال سامنے آتی ہے۔ اور روزمرہ ہم ان باتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ پھر لوگوں کا مال کھانے والا، کم تول کرنے والا اس حرام مال کی وجہ سے جو وہ کھا رہا ہوتا ہے طبعاً فسادی اور فتنہ پرداز بن جاتا ہے۔ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے والا نہیں ہوتا۔ نیکی اور امن کی بات کی اس سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس کی ہر بات اور ہر کام میں سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ اور یہ کاروباری بددیانتی یا کسی بھی وجہ سے دوسرے کا مال کھانا یہ ایسے فعل ہیں جن کی وجہ سے جیسا کہ اس آیت میں آیاکہ فساد نہ کرو، پہلی قوموں پہ تباہی بھی آئی ہے، یہ بھی ایک وجہ تباہیوں کی بنتی رہی ہے۔ تو یہ واقعات جو قرآن کریم میں ہمیں بتائے گئے ہیں صرف ان پرانے لوگوں کے قصے کے طور پر نہیں تھے بلکہ یہ سبق ہیں آئندہ آنے والوں کے لئے بھی کہ دیکھو! اللہ تعالیٰ سے کسی کی رشتہ داری نہیں ہے۔ اگر اس تعلیم سے دور ہٹو گے تو اس کے عذاب کے مورد بنو گے۔ ورنہ پہلی قومیں بھی یہ سوال کر سکتی ہیں کہ ہماری ان غلطیوں کی وجہ سے تو ہمیں عذاب نے پکڑا لیکن بعد میں آنے والے بھی یہی گناہ کرتے رہے اور آزادانہ پھرتے رہے اور عیش کرتے رہے۔ یہ ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ مالک ہے جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے سزا دے، لیکن جن واقعات کی خداتعالیٰ نے خود اطلاع دے دی، یہ اطلاع اس لئے ہے کہ پہلی قوموں میں یہ یہ برائیاں تھیں جن کی و جہ سے ان کو یہ سزائیں ملیں، تم اگر سزا سے بچنا چاہتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو اور ان فساد کی باتوں سے رکو۔
اس زمانے میں دنیا کے لالچ کی و جہ سے عموماً انفرادی طور پر بھی اور قوموں کی سیاست کی و جہ سے قومی طور پر بھی ایک دوسرے کو تجارت میں، لین دین میں نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو معاہدے ہوتے ہیں ان پر من و عن عمل نہیں ہوتا۔ سو سو تاویلیں اور حجتیں نکالی جاتی ہیں۔ اگر ان مغربی قوموں کی اپنی مرضی کے مطابق غریب ممالک عمل نہ کریں تویہ اپنے معاہدوں کو اور سودوں کو نقصان پہنچانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح وہ اس معاہدے سے اتنا استفادہ نہ کر سکیں جس کی و جہ سے یہ معاہدے ہو رہے ہیں۔ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ ان غریب ممالک کو پہلے تجارت اور ہمدردی کے دھوکے میں رکھ کر لوٹا جاتا ہے اور پھر زیر نگیں کر لیا جاتا ہے۔ جو اختلاف کرے اس پر فوج کشی کر دی جاتی ہے۔ طاقت استعمال کرکے اس قوم کو اپنے تسلط میں لے لیا جاتا ہے۔ تو بہرحال ان فساد پیدا کرنے والوں کے، دوسروں کے حقوق چھیننے والوں کے یہ دوہرے معیار ہوتے ہیں کہ اپنی پسند کی قوموں سے، اپنی ہم مذہب قوموں سے لین دین اور طرح سے کرتے ہیں۔ غریب ملکوں سے یا غیر مذہب قوموں سے لین دین اور طرح سے ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ بھی کرتے ہیں کہ غریب ملکوں کی معاشی پالیسیاں بنانے کے بہانے سے ان کو ایسے شیطانی معاشی چکر میں گرفتار کر دیتے ہیں کہ وہ ترقی کر ہی نہیں سکتے۔