قناعت اور سادگی اپنائیں
ایک مومن کی یہ شان نہیں ہے کہ ان عارضی سامانوں کے پیچھے پھرتا رہے۔ دنیا کے پیچھے پھرنا تو کافروں کا کام ہے، غیر مومنوں کا کام ہے، تمہارا مطمح نظر تو اللہ تعالیٰ کی رضا، اس کی عبادت اور اس کی مخلوق کی خدمت ہونا چاہئے۔ لیکن بدقسمتی سے اس خوبصورت اور پاکیزہ تعلیم کے باوجود مسلمانوں نے دنیا کو ہی مطمح نظر بنا لیا ہے اور حرص اور ہوس انتہا تک پہنچ چکی ہے۔ دجال کے دجل کی ایک یہ بھی تدبیر تھی جس سے مقصدمسلمانوں کو دین سے پیچھے ہٹانا تھا اور اس میں وہ کامیاب بھی ہو گئے ہیں۔ اور قناعت اور سادگی کو بھلا دیا گیا ہے اور ہوا و ہوس کی طرف زیادہ رغبت ہے اور امیر سے امیر تر بننے کی دوڑ لگی ہے۔پس ان حالات میں خاص طور پر احمدیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ہر طبقہ کے احمدی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قناعت اور سادگی کو اپنائیں۔ تو دین کی خدمت کے مواقع بھی میسر آئیں گے، دین کی خاطر مالی قربانی کی بھی توفیق ملے گی، اپنے ضرورت مند بھائیوں کی خدمت کی بھی توفیق ملے گی، ان کی خدمت کرکے خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی بھی توفیق ملے گی اور دنیا کے کاموں میں فنا ہونے سے بچ کر اللہ تعالیٰ کی عبادات بجا لانے کی بھی توفیق ملے گی۔ اور آخر کو انسان نے اللہ تعالیٰ کے حضور ہی حاضر ہونا ہے، اسی طرح زندگی چلتی ہے۔ ایک دن اس دنیا کو چھوڑنا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہی بہترین جگہ ہے اور یہ بہترین جگہ اس وقت حاصل ہو گی جب دنیاداری کو چھوڑ کر میری رضا کے حصول کی کوشش کرو گے اور میرے احکامات پر عمل کرو گے۔… جب تک انسان میں قناعت پیدا نہ ہو، سادگی پیدا نہ ہو وہ ہمیشہ مالی لحاظ سے اپنے سے بہتر کو دیکھ کر بے چین ہو جاتا ہے۔ اگر قناعت ہو گی تو اس کو کوڑی کی بھی پرواہ نہیں ہو گی کہ فلاں کے پاس کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ بلکہ وہ اس بات پر عمل کرے گا کہ نیکیوں میں اپنے سے بہتر کو دیکھو اور رشک کرو اور پھر نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو اور ہمیشہ یہ سامنے رہے گا کہ اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے اور مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی کوشش کرنی ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍ اپریل ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍مئی ۲۰۰۴ء)