قناعت کرکے سب کچھ چھوڑنا گویا سب کچھ ملنا ہوتا ہے
جس قدر انسان کشمکش سے بچا ہوا ہو اسی قدر اس کی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ کشمکش والے کے سینہ میں آگ ہوتی ہے اور وہ مصیبت میں پڑا ہوا ہوتا ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں یہی آرام ہے کہ کشمکش سے نجات ہو۔ کہتے ہیں ایک شخص گھوڑے پر سوار چلا جاتا تھا راستہ میں ایک فقیر بیٹھا تھا جس نے بمشکل اپنا ستر ہی ڈھانکا ہوا تھا۔ اس نے اس سے پوچھا۔ کہ سائیں جی کیا حال ہے؟ فقیر نے اسے جواب دیا کہ جس کی ساری مرادیں پوری ہو گئی ہوں اس کا حال کیسا ہوتا ہے؟ اسے تعجب ہوا کہ تمہاری ساری مرادیں کس طرح حاصل ہو گئی ہیں۔ فقیر نے کہا جب ساری مرادیں ترک کر دیں تو گویا سب حاصل ہو گئیں ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جب یہ سب حاصل کرنا چاہتا ہے تو تکلیف ہی ہوتی ہے۔ لیکن جب قناعت کرکے سب کچھ چھوڑ دے، تو گویا سب کچھ ملنا ہوتا ہے۔ نجات اور مکتی یہی ہے کہ لذت ہو دکھ نہ ہو۔دُکھ والی زندگی تو نہ اس جہان کی اچھی ہوتی ہے اور نہ اُس جہان کی۔جو لوگ محنت کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو صاف کرتے ہیں، وہ گویا اپنی کھال اتارتے ہیں۔اس لیے کہ یہ زندگی تو بہرحال ختم ہو جائے گی۔کیونکہ یہ برف کے ٹکڑہ کی طرح ہے خواہ اس کو کیسی ہی صندوقوں اور کپڑوں میں لپیٹ کر رکھو،لیکن وہ پگھلتی ہی جاتی ہے۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۳۲۶، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)