ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر ۱۴۱)
مسئلہ نجات
’’آریوں کی دعا بھی ترمیم کے قابل ہے کیونکہ ان کی مکتی سے مراد جاودانی مکتی نہیں ہوتی بلکہ ایک محدودوقت تک انسان جونوں سے نجات پاتاہےاورچونکہ روحیں محدودہیں اورنئی روح پرمیشرپیدانہیں کرسکتامجبوراً اُن نجات یافتہ کو نکال دیتاہے۔پس جب ان کے پرمیشرنےجاودانی مکتی ہی نہیں دینی تودعابھی ترمیم کرکے یوں مانگنی چاہیےکہ اے پرمیشرتوجودائمی مکتی دینے کے قابل نہیں ہےتوایک خاص وقت تک مجھے نجات دےاورپھردھکادےکر اسی دارالمحن دنیامیں بھیج دےاورفطرت بھی بدل ڈال کہ اس میں جاودانی نجات کا تقاضا ہی نہ رہے۔
مجھے تعجب ہے کہ یہ لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ انسانی فطرت کا تقاضاجاودانی نجات کا ہے نہ عارضی کا۔اور عارضی نجات والا جس کو یقین ہوکہ پھر انہیں تلخیوں میں بھیجا جاوے گا،کب خوشی حاصل کرسکتاہے۔ایسے پرمیشر پر انسان کیا بھروسہ اور امید رکھ سکتاہے۔ بقول شخصے
با خویشتن چہ کردی کہ بما کنی نظیری حقا کہ واجب آید ز تو احتراز کردن‘‘
(ملفوظات جلد ششم صفحہ ۸۲-۸۳ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
تفصیل :اس حصہ ملفوظات میں آمدہ فارسی شعرمحمد حسین نظیری نیشاپوری کا ہے۔شعر مع اعراب واردو ترجمہ ذیل میں دیاجاتاہے:
بَاخَویشْتَنْ چِہْ کَرْدِیْ کِہْ بِمَاکُنِیْ نَظِیْرِیْ
حَقَّا کِہْ وَاجَبْ آیَدْ زِتُو اِحْتِرَازْ کَرْدَنْ
ترجمہ:تو نے اپنوں سے کون سا اچھا سلوک کیا ہے کہ ہم سے بھی کرے گا بخدا تجھ سے بچ رہنا لازم ہے۔