سچائی کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۹؍ ستمبر ۲۰۱۱ء)
سچائی ایک ایسا وصف ہے کہ جس کے اپنانے کے بارے میں صرف مذہب ہی نے نہیں کہا بلکہ ہر شخص جس کا کوئی مذہب ہے یا نہیں اس اعلیٰ خُلق کے اپنانے کا پُر زور اظہار کرتا ہے۔ لیکن اگر ہم جائزہ لیں تو اس اظہار کے باوجود سچائی کے اظہار کا حق نہیں ادا کیا جاتا۔ جس کو جب موقع ملتا ہے اپنے مفاد کے حصول کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔ انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک میں سچائی کا خُلق اپنانے کا جس شدت سے اظہار کیا جاتا ہے اُسی شدت سے وقت آنے پر اُس کی نفی کی جاتی ہے۔ اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے روزمرہ کے معمولی معاملات میں بھی جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے اور وہ حقیقی سچائی جسے قولِ سدید کہتے ہیں اُس کی نفی ہو رہی ہوتی ہے۔ کاروباری معاملات ہیں تو دنیا کا ایک بہت بڑا طبقہ اِن میں جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔ معاشرتی تعلقات ہیں تو ان میں بسا اوقات جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ملکی سیاست ہے تو اس میں سچ کا خون کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سیاست اور تعلقات ہیں تو اِس کی بنیاد بھی جھوٹ پر ہے۔ اکثر دفعہ تو یہی دیکھنے میں آیا ہے۔ حتی کہ مذہب جو خالصتاً سچائی کو لانے والا اور پھیلانے والا ہے اس میں بھی مفاد پرستوں نے جھوٹ کو شامل کر کے سچ کی دھجیاں بکھیر دی ہیں یا کوشش کرتے ہیں کہ سچ کو اس طرح چھپا دیں کہ سچ کا نشان نظر نہ آئے۔ بعض لوگ تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ جو ہے وہ جھوٹ بن جائے اور جھوٹ جو ہے وہ سچ بن جائے۔ یہ بے خوفی اور بیباکی سچائی کو ہر سطح پر پامال کرنے کی اس لئے پیدا ہو گئی ہے کہ خدا تعالیٰ پر یقین نہیں رہا۔ اگر خدا تعالیٰ پر یقین ہو تو ہر سطح پر جھوٹ کا سہارا اس طرح نہ لیا جائے جس طرح اس زمانے میں لیا جاتا ہے یا اکثر لیا جاتا ہے۔ ذاتی زندگی میں گھروں میں ناچاقیاں اس لئے بڑھتی ہیں کہ سچائی سے کام نہیں لیا جاتا اور اس سچائی سے کام نہ لینے کی وجہ سے میاں بیوی پر اعتمادنہیں کرتا اور بیوی میاں پر اعتمادنہیں کرتی اور جب بچے دیکھتے ہیں کہ ماں باپ بہت سے موقعوں پر جھوٹ بول رہے ہیں تو بچوں میں بھی جھوٹ بولنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ نئی نسل جب بعض غلط کاموں میں پڑ جاتی ہے وہ اس لئے کہ گھروں کے جھوٹ اُنہیں برائیوں پر اُبھارتے ہیں۔ یوں لا شعوری طور پر یا شعوری طور پر اگلی نسلوں میں بجائے سچائی کی قدریں پیدا کرنے کے اُسے بعض گھر زائل کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنے بچوں کو برباد کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر باقی معاشرے سے تعلقات کا بھی یہی حال ہے۔ اسی طرح کاروباری جھوٹ ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا بدقسمتی سے مسلمان ممالک میں یہ زیادہ عام بیماری ہے۔ سچائی اور صداقت کا جتنا شور مچایا جاتا ہے اتنا ہی عملاً اس کی نفی کی جاتی ہے۔ اسی طرح ملکی سیاست ہے اس میں عموماً جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن مسلمان کہلانے والے ممالک جن کو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچائی پر قائم رہنے اور جھوٹ سے نفرت کرنے کی تلقین کی ہے، بڑی شدت سے ہدایت دی ہے وہ اُتنا ہی جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں کراچی اور سندھ کے حالات پر جب ایک سیاستدان نے اپنے لوگوں سے ناراض ہو کر اندر کا تمام کچا چٹھابیان کیا تو بعض سیاستدانوں اور تبصرہ نگاروں نے یہ تبصرہ کیا کہ سچائی کا اظہار سیاستدان کا کام نہیں ہے۔ سیاستدان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ کبھی سچ بولے۔ یہ اگر سچ بول رہا ہے تو یہ سیاستدان نہیں ہے بلکہ پاگل ہو گیا ہے۔ اس کا انکار نہیں کیا کہ جو باتیں ہیں وہ غلط ہیں، تبصرہ ہو رہا ہے تو اس بات پر کہ یہ سچ بول رہا ہے اس لئے پاگل ہے۔ تبصرے والے کہتے ہیں کہ اس نے اپنی سیاسی زندگی اور دنیاوی منفعت کو داؤ پر لگا دیا ہے، جو صرف ایک پاگل ہی کر سکتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک یہ سچائی اور صداقت زوال کا ذریعہ بنے گی۔ یہ تو ان کا حال ہے۔ پس ان کی نظر میں سیاست اور حکومت خدا کے قول پر حاوی ہے۔ اللہ اور اُس کا رسول کہتے ہیں جھوٹ نہ بولو۔ لیکن یہ کہتے ہیں کہ سیاست اور حکومت کے لئے جھوٹ بولو، اگر نہیں بولو گے تو تم غلط کرو گے۔ اس کے باوجود یہ لوگ پکے مسلمان ہیں اور احمدی غیر مسلم ہیں جو سچائی کی خاطر اپنے کاروباروں، منفعتوں اور جانوں کو داؤ پر لگائے ہوئے ہیں اس لئے کہ وہ ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہیں جس نے کہا ہے کہ جھوٹ شرک ہے اور اُس نبی کو ماننے والے ہیں جس پر آخری شرعی کتاب قرآنِ کریم نازل ہوئی اور جن کا فرمان ہے کہ تمام برائیوں کی اور گناہوں کی جڑ جھوٹ ہے۔
پھر بین الاقوامی سیاست ہے تو اس میں مسلمان حکومتیں ہوں یا مغربی حکومتیں ہوں اِن سب کا ایک حال ہے۔ اِن ملکوں کو جو آپس کے تعلقات میں عموماً سچائی کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ ان میں سچ ہے۔ جب دوسرے ممالک کا سوال پیدا ہو، مسلمان ممالک کا سوال پیدا ہو، دوسری حکومتوں کا سوال پیدا ہو تو ان کی سچائی کے نظریے بالکل بدل جاتے ہیں۔ ان کا حال تو پہلے عراق پر جو حملے انہوں نے کئے اُسی سے پتہ چل گیا۔ جب صدام حسین کو اُتارنے کے لئے عراق کو تباہ و برباد کر دیا، اُس کے وسائل پر قبضہ کر لیا تو پھر کہہ دیا کہ ہمیں غلطی لگی تھی۔ جتنا ظلم اور خوفناک منصوبہ بندی اور خطر ناک ہتھیاروں سے دنیا کو تباہ کرنے اور ہمسایوں کو زیرِ نگیں کرنے کی ہمیں اطلاعیں ملی تھیں کہ صدام حسین کرنا چاہتا ہے، اُتنا کچھ تو وہاں سے نہیں نکلا۔ پھر لیبیا کو نشانہ بنایا گیا تو اب کہتے ہیں کہ اصل میں غلط اطلاعیں تھیں۔ اتنا ظلم وہاں عوام پر نہیں ہو رہا تھا۔ تو یہ سب باتیں مغربی پریس ہی اب دے رہا ہے۔ انہی کے تبصرے آ رہے ہیں۔ پس پہلے جھوٹا پروپیگنڈہ کر کے حملے کئے جاتے ہیں۔ پھر سچا بننے کے لئے اپنے میڈیا کے ذریعے سے ہی کہہ دیا جاتا ہے کہ ہمیں غلطی لگی۔ جتنا کچھ ہمیں بتایا گیا تھا اُتنا کچھ ثابت نہیں ہوا۔ اصل میں تو یہ سچائی بھی جھوٹ چھپانے کے لئے ہے۔ مقصد وسائل پر قبضہ کرنا تھا جو ہو گیا لیکن اس کا موقع بھی مسلمان ہی مہیا کرتے ہیں۔ اگر سینکڑوں بلین ڈالرز کی ملک کی دولت عوام پر خرچ کی جائے تو نہ کبھی ملک کے اندر ایسے فتنے فساد اُٹھیں، نہ ان لوگوں کو دخل اندازی کی جرأت ہو۔
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی ہی تھی کہ جب آپ نے اپنے عزیزوں اور مکّہ کے سرداروں کو جمع کر کے کہا کہ اگر مَیں تمہیں کہوں کہ اس ٹیلے کے پیچھے ایک فوج چھپی ہوئی ہے جو تمہیں نظر نہیں آ رہی تو کیا یقین کر لو گے۔ جو بظاہر ناممکن بات تھی کہ اُس کے پیچھے کوئی فوج چھپی ہو یہ ہو نہیں سکتا کہ نظر نہ آئے۔ لیکن اس کے باوجود سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) تُو نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اس لئے ہم یقین کر لیں گے۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر، سورۃ تبت یدا ابی لہب باب 1/1 حدیث نمبر 4971)
پھر آپ نے اُن لوگوں کو تبلیغ کی۔ لیکن یہ دنیا دار لوگ تھے۔ جو پتھر دل تھے اُن پر تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، اُن کے انجام بھی بد ہوئے، کچھ بعد میں مسلمان ہوئے۔
٭…٭…٭