اسلام کی صداقت کے غیرمعمولی نشان کے حامل سہ ماہی رسالہ دی افریقن کریسنٹ کا اجرائے نو
الحمد للہ کہ جماعت احمدیہ سیرالیون کو اپنے تاریخی جماعتی آرگن ’’دی افریقن کریسنٹ‘‘ میگزین کے اجرائے نو کی توفیق حاصل ہوئی ہے۔ مورخہ ۲۰؍مئی ۲۰۲۳ء کو نیشنل مجلس مشاورت کے مقام شوریٰ پر سٹال لگایا گیا۔ افتتاحی اجلاس سےقبل موسیٰ میوا صاحب امیر جماعت احمدیہ سیرالیون نے شمارے کی پہلی کاپی خریدی اور اس کے ساتھ شمارے کا فیس بک پیج لانچ کیا۔ اس موقع پر موجود احباب نے نعرۂ ہائے تکبیر بلند کیے۔ نمائندگانِ شوریٰ نے اس رسالے کے اجرائے نو کو خوش آئند قرار دیا اور اس شمارہ کی متعدد کاپیاں خریدیں۔
دی افریقن کریسنٹ کا مطلب ہے ’’ہلالِ افریقی‘‘ ۔ پہلا شمارہ جنوری تا مارچ ۲۰۲۳ء چالیس صفحات پر مشتمل ہے۔ پہلے شمارہ کا موضوع فروری میں ہونے والے جلسہ کے سبب جلسہ سالانہ رکھا گیا تھا۔
اس کے اجرائے نو پر گذشتہ سال کام شروع کیا گیا تھا۔ شمارہ کے اجرا، ایڈیٹوریل بورڈ اور مینیجمنٹ بورڈ کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہِ شفقت منظوری عطا فرمائی تھی۔ جس کے بعد کام میں تیزی پیدا کی گئی۔ پریس کے بعض مسائل کے سبب پہلا شمارہ تاخیر کا شکار ہوا۔ تاہم شوریٰ سے ایک روز قبل شمارہ طبع ہو کر تیار ہو گیا۔ اور احباب جماعت کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ پہلا شمارہ ایک ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے درج ذیل بورڈز کی منظوری عطا فرمائی۔
چیئر مین: مکرم موسیٰ میوا صاحب امیر جماعت احمدیہ سیرالیون
ایڈوائزر: مولانا سعید الرحمٰن صاحب (مبلغ انچارج)
مینیجمنٹ بورڈ: سیکرٹری: احمد جی کالون صاحب (نیشنل سیکرٹری اشاعت)،مینیجر: شاہد کورجی صاحب (نیشنل سیکرٹری وقفِ نو)، پبلشر: عثمان احمدطالع صاحب (مینیجر رقیم پریس)، ممبرز: ابراہیم ایس بنگورہ صاحب (نائب امیر رابع)، سعیدو کیلفلا صاحب (سیکرٹری وقفِ جدید)، کینی جی مومو (ممبر مجلس انصار اللہ)
ایڈیٹوریل بورڈ: ایڈیٹر: خاکسار (ذیشان محمود۔ مبلغ سلسلہ)، نائب مدیر: جوزف لامین کمارا صاحب (لیکچرار فوروبے کالج)، ڈیزائنر: لطف الرحمٰن صاحب۔ (واقفِ زندگی)، ممبرز: حمید علی بنگورا صاحب (مبلغ سلسلہ)، حسن سیسے صاحب (سرکٹ مشنری)، الحاج ابو بکر بنگورا (معلم)، عزیزم صوفی سونگو، عزیزم طاہر سونگو، عزیزم سعیدو کانو (طلبہ)۔ ان کے علاوہ عزیزم امتثال احمد بھی بطور معاون ٹیم میں شامل ہیں۔
دی افریقن کریسنٹ کے اجرا اور نذیر مسلم پریس کے قیام کی مختصر تاریخ اور دو فدائیانِ سلسلہ کا ذکر خیر
افریقن کریسنٹ کے اجرا کے بعد عیسائی مطبع کی جانب سے مذہبی بنیادوں پر اس کی اشاعت بند کی گئی اور یسوع مسیح کے مقابل اسلام کے خدائے واحد کو للکارا گیا کہ اسلام کا خدا اس کے چھاپنے کے سامان کرے۔ اور ان عیسائیوں نے اپنی آنکھ سے اس امر کا مشاہدہ کیا کہ افریقہ کے مقامی لوگوں نے ہی خدائی توفیق سے دو ماہ میں اپنا مطبع قائم کر لیا اور اشاعت حق کا بیڑا اٹھا لیا۔
تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ ۴۰۸ تا ۴۱۱ میں اس شمارہ کے اجرا کی مختصر تاریخ درج ہے۔ لکھا ہے کہ
مئی اور جولائی ١٩٥٥ء کے دو مہینے دارالتبلیغ سیرالیون کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ مئی ١٩٥٥ء میں مشن کی طرف سے مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کی ادارت میں ماہنامہ’’دی افریقن کریسنٹ‘‘ (The African Crescent) جاری کیا گیا۔ جولائی ١٩٥٥ء کو حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی مبارک خواہش کی تعمیل اور مولوی نذیر احمد علی صاحب کی یادگار میں بو کے مقام پر ’’نذیر مسلم پریس‘‘خرید کیا گیا۔( الفضل ١٥؍ نومبر ١٩٥٥ء صفحہ ٣)
اخبار کے اجرا پر سیرالیون گورنمنٹ کے وزیر مواصلات ورسل ورسائل آنریبل ایم ایس مصطفیٰ سنوسی نے ایڈیٹر صاحب کے نام حسب ذیل پیغام بھیجا:
’’میں آپ کو اور آپ کے احمدیہ مشن کو اس شاندار اور عظیم القدر کام پر جس کا بیڑا آپ نے سارے مغربی افریقہ میں عموماً اور سیرالیون میں خصوصاً اٹھایا ہے۔ ہدیہ مبارکباد پیش کرتے ہوئے دلی خوشی محسوس کرتا ہوں۔ افریقن کریسنٹ کا اجرا آپ کے کام میں جو آپ تعلیمی اور مذہبی میدان میں سرانجام دے رہے ہیں ایک گرانقدر اضافہ کا موجب ہوا ہے اور سیرالیون کے ایک گروہ عظیم کی دیرینہ خواہش اور ضرورت کی تکمیل کا پیش خیمہ ہے۔ اس اخبار کا مقصد چونکہ محض اشاعت اسلام اور اس کی صحیح اور اصلی تعلیم سے لوگوں کو آشنا کرنا اور ملک کی عام خدمت ہے لہذا مجھے امید واثق ہے کہ یہ اخبار دنیا میں اور عوام کی نظروں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ خداتعالیٰ آپ کے اس نئے فریضہ میں جس کی ذمہ داری آپ نے اٹھائی ہے برکت ڈالے اور متلاشی حق والوں کے دل آپ کی اخلاقی اور مالی امداد کے لئے کھول دے۔ خداتعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ آپ اسے استقلال اور مداومت سے جاری رکھ سکیں۔ دستخط ایم۔ ایس مصطفیٰ ‘‘( ترجمہ منقول از اخبار الفضل ربوہ ١٦؍نومبر ١٩٥٥ء)
چیف قاسم کمانڈا آف وانڈو چیفڈم کی نمایاں قربانی کا ذکر
دی افریقن کریسنٹ کی اشاعت میں روک پیدا ہونے کے سبب پریس کا قیام ایک غیر معمولی نشان کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی تفصیل حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی زبان مبارک سے تحریر کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ حضوؓر فرماتے ہیں: ’’سیرالیون میں ہمارا ایک اخبار چھپتا ہے۔ اس کے متعلق ہمارے مبلغ[مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری]نے لکھا۔ کہ چونکہ ہمارے پاس کوئی پریس نہیں تھا اس لئے عیسائیوں کے پریس میں وہ اخبار چھپنا شروع ہوا۔ دو چار پرچوں تک تو وہ برداشت کرتے چلے گئے۔ لیکن جب یہ سلسلہ آگے بڑھا تو پادریوں کا ایک وفد اس پریس کے مالک کے پاس گیا اور انہوں نے کہا۔ تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اپنے پریس میں ایک احمدی اخبار شائع کررہے ہو جس نے عیسائیوں کی جڑوں پر تبر رکھا ہوا ہے۔ چنانچہ اسے غیرت آئی اور اس نے کہہ دیا کہ آئندہ میں تمہارا اخبار اپنے پریس میں نہیں چھاپوں گا۔ کیونکہ پادری برا مناتے ہیں۔ چنانچہ اخبار چھپنا بند ہو گیا تو عیسائیوں کو اس سے بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے ہمیں جواب دینے کے علاوہ اپنے اخبار میں بھی ایک نوٹ لکھا کہ ہم نے تو احمدیوں کا اخبار چھاپنا بند کردیا ہے اب ہم دیکھیں گے کہ اسلام کا خدا ان کے لئے کیا سامان پیدا کرتا ہے۔ یعنی پہلے ان کا اخبار ہمارے پریس میں چھپ جایا کرتا تھا۔ اب چونکہ ہم نے انکار کردیا ہے اور ان کے پاس اپنا کوئی پریس نہیں اس لئے اب ہم دیکھیں گے کہ یہ جو مسیح کے مقابلہ میں اپنا خدا پیش کیا کرتے ہیں اس کی کیا طاقت ہے۔ اگر اس میں کوئی قدرت ہے تو وہ ان کے لئے خود سامان پیدا کرے۔ وہ مبلغ لکھتے ہیں کہ جب میں نے یہ پڑھا تو میرے دل کو سخت تکلیف محسوس ہوئی۔ میں نے اپنی جماعت کو تحریک کی کہ وہ چندہ کرکے اتنی رقم جمع کردیں کہ ہم اپنا پریس خرید سکیں۔ اس سلسلہ میں مَیں نے لاری کا ٹکٹ لیا اور پونے تین سو میل پر ایک احمدی کے پاس گیا تاکہ اسے تحریک کروں کہ وہ اس کام میں حصہ لے۔ میں اس کی طرف جارہا تھا کہ خداتعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ابھی اس کا گاؤں آٹھ میل پرے تھا کہ وہ مجھے ایک دوسری لاری میں بیٹھا ہوا نظر آگیا۔ اور اس نے بھی مجھے دیکھ لیا وہ مجھے دیکھتے ہی لاری سے اتر پڑا اور کہنے لگا۔ آپ کس طرح تشریف لائے ہیں۔ میں نے کہا اس طرف ایک عیسائی اخبار نے لکھا ہے کہ ہم نے تو ان کا اخبار چھاپنا بند کردیا ہے۔ اگر مسیح کے مقابلہ میں ان کے خدا میں بھی کوئی طاقت ہے تو وہ کوئی معجزہ دکھا دے۔ وہ کہنے لگا آپ یہیں بیٹھیں میں ابھی گاؤں سے ہوکر آتا ہوں۔ چنانچہ وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ہی اس نے پانچ سو پونڈ لاکر مجھے دے دیئے۔ پانچ سو پونڈ وہ اس سے پہلے دے چکا تھا۔ گویا تیرہ ہزار روپیہ کے قریب اس نے رقم دے دی اور کہا میری خواہش ہے کہ آپ پریس کا جلدی انتظام کریں تاکہ ہم عیسائیوں کو جواب دے سکیں کہ اگر تم نے ہمارا اخبار چھاپنے سے انکار کر دیا تھا تو اب ہمارے خدا نے بھی ہمیں اپنا پریس دے دیا ہے۔ جماعت کے دوسرے دوستوں نے بھی اس تحریک میں حصہ لیا ہے اور اس وقت تک اٹھارہ سو پونڈ سے زیادہ رقم جمع ہوچکی ہے اور انگلینڈ میں ایک احمدی دوست کے ذریعہ پریس کے لئے آرڈر دے دیا گیا ہے۔ یہ شخص جس کے پاس ہمارا مبلغ گیا کسی زمانہ میں احمدیت کا شدید مخالف ہوا کرتا تھا اتنا سخت مخالف کہ ایک دفعہ کوئی احمدی اس کے ساتھ دریا کے کنارے جارہا تھا کہ اس احمدی نے اسے تبلیغ شروع کردی وہ دریا کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا کہ دیکھو یہ دریا ادھر سے ادھر بہہ رہا ہے۔ اگر یہ دریا یکدم اپنا رخ بدل لے اور نیچے سے اوپر کی طرف الٹا بہنا شروع کردے تو یہ ممکن ہے۔ لیکن میرا احمدی ہونا ناممکن ہے۔ مگر کچھ دنوں کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ کوئی بڑا عالم فاضل نہیں بلکہ ایک لوکل افریقن احمدی اس سے ملا اور چند دن اس سے باتیں کیں تو وہ احمدی ہوگیا پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی مدد کی اور اس کی مالی حالت پہلے سے بہت اچھی ہوگئی‘‘۔(حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کا انصاراللہ سے خطاب مورخہ ٢٧؍اکتوبر ١٩٥٦ء۔ روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ٢٦؍مارچ ١٩٥٧ء)
الحاج پاعلی روجرز صاحب کی غیر معمولی قربانی
یہاں سیرالیون کے ایک مخلص اور مخیر دوست الحاج سید علی روجرز صاحب کا ذکر کرنا نہایت ضروری ہے۔ محترم موصوف کا وجود جماعت احمدیہ سیرالیون کے لیے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھا اور ان کی قربانیاں جماعت احمدیہ سیرالیون کے لئے بطور کھاد کے تھیں۔ انہوں نے اپنا ایک عالیشان مکان جو اس وقت ایک ہزار پونڈ سے بھی زیادہ مالیت کا تھا۔ پریس کے قیام کے لئے وقف کردیا۔(الفضل ٦؍ستمبر ١٩٥٦ء صفحہ ١ کالم ٣۔) روجرز صاحب قبل ازیں پریس کے لیے پانچ سو پونڈ کا گرانقدر عطیہ بھی پیش کرچکے تھے۔ ان کی قربانی اور اخلاص کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب انہوں نے یہ مکان وقف کیا تو اس وقت ان کی اپنی رہائش کے لیے کوئی دوسری رہائش گاہ موجود نہیں تھی مگر اس کے بعد خداتعالیٰ نے انہیں ایک نیا مکان بنانے کی توفیق عطا فرمادی۔ اس سے ایک سال قبل اس سے ملحق مکان لائبریری کی خاطر وقف کر رکھا تھا۔ اور اس سے ملحق زمین مسجد کے لیے ہبہ کی ہوئی تھی۔ اس وقت مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری کی دعاؤں کے جواب میں خدائی القا پر لبیک کہتے ہوئے اپنے دونوں مکان بھی فی الفور جماعت کو ہبہ کر کے کاغذات تیار کروا دیے۔ ان کی دیگر قربانیوں کا ذکر ایک طویل مضمون کا متقاضی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگان کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔
ان دو بزرگان کی مساعی جلیلہ کی برکت سے بو شہر میں نذیر مسلم پریس کا قیام عمل میں آیا اور عیسائیوں کے خدا کے مقابل اسلام کے زندہ خدا نے سیرالیون کے مقامی باشندوں کو قربانیوں کے ذریعہ تھوڑے سے عرصہ میں اپنے پریس کے قیام کی بنا ڈالنےکی توفیق عطا فرمائی۔ یہ پریس اب دارالحکومت فری ٹاؤن میں رقیم پریس کے نام سے قائم ہے اور سیرالیون کے جدید ترین چھاپہ خانوں میں سے ایک ہے۔ اور افریقہ میں قائم تمام احمدیہ پریسز سے جدید ترین فائیو کلر مشین کا حامل پریس ہے۔ اور اب اس کے قیام کی اول غرض دی افریقن کریسنٹ کے اجرائے نو سے مکمل ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس شمارے کو حقیقی رنگ میں توحید کے قیام اور اسلام احمدیت کا پیغام سیرالیون کے مقامی باشندوں تک پہنچانے والا بنائے اور ساتھ ساتھ احمدیوں کی تعلیم و تربیت کے بھی سامان بہم پہنچانے والا بنائے۔ آمین
(رپورٹ: ذیشان محمود۔ مدیر دی افریقن کریسنٹ)