الوصیت کی برکات و حسنات
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے رسالہ الوصیت میں ایک قبرستان موسوم بہ بہشتی مقبرہ کے قیام کے اغراض و مقاصد اور برکات کا فصیح و بلیغ طریق پرذکرفرمایا ہے۔ اس کی اساس و بنا سے متعلق آپؑ فرماتے ہیں:’’غرض جب خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ ظاہرکردیا کہ اب تھوڑے دن باقی ہیں تواسی لیے میں نے وہ تجویزسوچی جوقبرستان کی ہے۔اور یہ تجویز میں نے اللہ تعالیٰ کے امراوروحی سے کی ہے اور اسی کے امرسے اس کی بناء ڈالی ہے کیونکہ اس کے متعلق عرصہ سے مجھے خبردی گئی تھی۔‘‘(ملفوظات جلد۴ صفحہ۵۹۲ایڈیشن1988ء) یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ جس چیزکی بابت امرالٰہی ہوتواس میں سراسرخیروبرکت اور بھلائی مضمرہوتی ہے۔چنانچہ الوصیت کی چند برکات کا ذکرحضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات عالیہ کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔
۱۔آئندہ نسلوں کے لیے نمونہ
آپؑ فرماتے ہیں:’’اس بنا سے غرض یہی ہے کہ تا آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسی قوم کا نمونہ ہوجیسے صحابہؓ کا تھا اورتا لوگ جانیں کہ وہ اسلام اوراس کی اشاعت کے لیے فدا شدہ تھے۔‘‘(ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۵۹۳ایڈیشن1988ء)
۲۔ابتلا کا تدارک
نظام وصیت انسان کومالی ابتلا سے بچاتا اورمحفوظ رکھتا ہے،کیونکہ ابتلا کا آنا لازمی ہے ۔اس سلسلہ میں آپؑ بحوالہ قرآن کریم فرماتے ہیں: ’’ابتلاوٴں کا آنا ضروری ہے اس سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ(العنکبوت:۳) یعنی کیا لوگ گمان کربیٹھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اتنی ہی بات پر راضی ہوجاوے اوروہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ وہ ابھی امتحان میں نہیں ڈالے گئے۔‘‘(ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۵۹۳)
۳۔اولاد کی بدی کے تدارک کا ذریعہ
ایک مرحوم کوکیا خبر کہ اولاداس کے ترکہ کو کس طرح استعمال میں لاتی ہے؟اگر نیک کاموں میں اس کا مصرف نہیں تووہ مرنے والے کے لیے موجب سزا ٹھہرے گا۔اس ضمن میں آپؑ فرماتے ہیں:’’اب غورکروکہ جولوگ اپنے بعدمال چھوڑجاتے ہیں وہ اموال ان کی اولاد کے قبضہ میں آتے ہیں۔مرنے کے بعد انہیں کیا معلوم کہ اولادکیسی ہو؟ بعض اوقات اولادایسی شریراورفاسق فاجر نکلتی ہے کہ وہ سارا مال شراب خانوں اورزنا کاری میں اورہرقسم کے فسق وفجور میں تباہ کیا جاتا ہے اوراس طرح پروہ مال بجائے مفید ہونے کے مضرہوتا ہے اورچھوڑنے والے پرعذاب کا موجب ہوجاتا ہے جبکہ یہ حالت ہے توپھرکیوں تم اپنے اموال کوایسےموقع پرخرچ نہ کروجوتمہارے لیے ثواب اورفائدہ کا باعث ہو۔اوروہ یہی صورت ہے کہ تمہارے مال میں دین کا بھی حصہ ہو۔اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ اگرتمہارے مال میںدین کا بھی حصہ ہے تو اس بدی کا بھی تدارک ہوجائے گا۔ جو اس مال کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو۔یعنی جو بدی اولاد کرتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۵۹۳ایڈیشن1988ء)
۴۔ صلحاء کی معیت
نظام وصیت کی ایک برکت یہ بھی ہے کہ موصیان کومرنے کے بعدصلحاء کی معیت نصیب ہوتی ہے۔یہ ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔اس بابت آپؑ کا ارشاد ہے:’’صلحاء کے پہلومیں دفن بھی ایک نعمت ہے۔حضرت عمررضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا ہے کہ مرض الموت میں انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہلا بھیجا کہ آنحضرتﷺ کے پہلومیں جوجگہ ہے انہیں دی جائے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایثارسے کام لے کروہ جگہ ان کو دے دی تو فرمایا۔مَا بَقِیَ لِیْ ھَمٌّ بَعْدَ ذَالِکَ۔ یعنی اس کے بعداب مجھے کوئی غم نہیں۔جبکہ میں آنحضرتﷺ کے روضہ میں مدفون ہوں۔‘‘ (ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۵۸۷ایڈیشن1988ء)
اللہ تعالیٰ موصیان کوان تمام برکات کا وارث بنائے جونظام وصیت کا حصہ ہیں اوردیگر احباب کوبھی اس میں شمولیت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭