زیلینڈیا
دنیا بھر میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ زمین صرف سات برِّاعظموں پر مشتمل ہے افریقہ، انٹارکٹیکا، ایشیا، آسٹریلیا، یورپ، شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ ۔ جبکہ ۲۰۱۷ءکے بعد ماہرین ارضیات کو بعض شواہد ملے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک اَور براعظم موجود ہے جو کہ اب تک نظروں سے اوجھل تھا۔ یہ براعظم نیوزی لینڈ اور نیو کیلیڈونیا کے نیچے زیادہ تر زیرِ آب پوشیدہ ہے۔ اس کا ایک حصہ جو کہ آسٹریلیا سے تقریباً دو تہائی ہے نمودار ہوا ہے جسے زیلینڈیا کا نام دیا گیا ہے۔
ماہر ارضیات نِک مورٹائمر نےنیوزی لینڈ کے ایک رسالے جی این ایس سائنس کے مارچ/ اپریل ۲۰۱۷ء کے شمارہ میں بتایا کہ زیلینڈیا کو مختلف براعظموں کے چھوٹے چھوٹے جزائر کی بجائے ایک براعظم کے طور پر علیحدہ طور پر جاننا چاہیے اور یہی بات درست ہے۔
ماہرین کے مطابق گونڈوانالینڈ جو کہ ماضی میں ایک عظیم الشان براعظم تھا سے ٹوٹ کر کوئی ستّر یا اسّی ملین سال پہلے زی لینڈیا الگ ہو کر وقت کے ساتھ ساتھ پانی میں روپوش ہو گیا تھا۔ اپنے کل حجم میں یہ آدھے آسٹریلیا کے برابر ہے اور پانی میں پینتیس سو فٹ نیچے ہے اور تقریباً ایک بلین سال پرانا ہے۔
مگر بہت سے ماہرین ارضیات زیلینڈیا کو ایک براعظم کے طور پر ماننے پر آمادہ نہیں ہیں اور ۲۰۱۷ءکے بعد سے ان دو دھڑوں کے درمیان تحقیقاتی بحث چل رہی ہے۔
۲۰۱۷ءمیں نیوزی لینڈ، نیو کیلیڈونیا اور آسٹریلیا کے گیارہ ماہرین ارضیات کی ایک ٹیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ زیلینڈیا مائیکرو براعظم یا براعظمی ٹکڑے کی بجائے زیر آب براعظم مانے جانے کی تمام ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اس فیصلے کو میڈیا نےبھی بڑے پیمانے پر کور کیا تھا۔
نیو کیلیڈونیا قدیم براعظم کے شمالی سرے پر ہے جبکہ نیوزی لینڈ پلیٹ باؤنڈری سے اٹھتا ہے جو اسے دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ زمینوں کے ان دو بڑے ٹکڑوں میں اروکاریاس اور پوڈوکارپس پر شامل ہیں۔خلیج کیوریو کے قریب جدید کوری اور نورفولک پائن سے ملتے جلتے ایک فوسلائزڈ جنگل کی باقیات موجود ہیں جو قریباً ایک سو اسّی ملین سال پہلے جراسک دور میں گونڈوانا سے الگ ہونے سے پہلے زیلینڈیا کا حصہ رہے تھے۔ ان جنگلات میں اگنے والے درخت آتش فشانی کیچڑ کے بہاؤ سے دب گئے اور آہستہ آہستہ سیلیکا نے ان کی جگہ لے لی جن میں فوسلز پیدا ہو ئے جو اب سمندر کے بہائو کی وجہ سے سامنے آگئے ہیں۔جب علاقے کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گرتا ہے اور سمندر کی سطح کم ہو جاتی ہے تو زیلینڈیا زمینی ماحول کا منظر پیش کرنے لگ جاتا ہے۔
کیلی فورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر جوشوا شوارٹز نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ سائنسدان کئی دہائیوں سے زیلینڈیا کی حقیقت جاننے کی راہ پر چل رہے ہیں اور یہ کہ ارضیات کا مضمون اتنا وسیع اور گھمبیر ہے کہ براعظم کی حقیقی اور مکمل تعریف کرنا ممکن ہی نہیں جس سے پتا چل جائے کہ زمین کے ٹکڑے میں کونسی شرائط ہوں تو ہی اسے براعظم کہا جا سکتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو زیلینڈیا کی چٹانوں اور سطح سے پتا چلتا ہے کہ یہ دیگر براعظموں سے کم عمر ہے کیونکہ دوسرے براعظموں کی چٹانیں تقریباً تین بلین سال پرانی ہیں ۔ پروفیسر شوارٹز لکھتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ زیلینڈیا کم عمر ہو اور ہم لوگ اپنی آنکھوں سے ایک نیا براعظم بنتا دیکھ رہے ہوں، یہ ایک بالکل نئی پیدائش کا عمل ہے۔
الغرض زیلینڈیا تحقیق کی ایک نئی دنیا اپنے ساتھ لایا ہے۔نئی زمین اور نیا جغرافیہ ہمارے سامنے ہے۔ ہم اور ہماری نسلیں ایک نئے براعظم کو اپنی آنکھوں سے بنتا دیکھیں گے۔ ابھی یہ زمین پوری طرح دریافت نہیں ہوئی بقول شاعر
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کُنْ فَیَکُوْن
٭…٭…٭