اشکوں میں ڈوبی دل سے نکلتی ہے یہ صدا
اشکوں میں ڈوبی دل سے نکلتی ہے یہ صدا
’’اے کاش ہمیں سمجھتے نہ ظالِم جُدا جُدا‘‘
اِن کو ہمارے کلمہ پہ گر نہ یقین تھا
شک تھا تو دِل کو چیر کر یہ دیکھتے خُدا
عشقِ خُدا کی رمزیں سِکھائی تھیں جس نے دِل
وہ پاک مصطفیٰ ہے وہ محبوبِ کبریا
صحرا کے ذرے ذرے نے کرنیں سمیٹ لیں
اُس نُورِ آفتاب نے ظُلمت کو دی رِدا
اِک چودھویں کا چاند جو نِکلا تھا ہند میں
آنکھیں تھیں جِن کی ہوگئے اُن کے تو دِل فِدا
اِک سلسلہٴ نُورِ خلافت تھما کے وہ
مہدی مسیح وہ وقت کا ہم سے ہوا جُدا
ہم پھول لے کے آئے تھے دَر پہ تِرے وطن
سنگ باری کرکے کردیا تُونے تو خوں زدہ
اِنکار کرنے والے سب مٹی میں مِل گئے
کشکول لے کے بن گئے ہر در کے وہ گدا
بغض و حسد کی آگ میں تم جل گئے وطن
جب ربّ نے ہم کو ہر گھڑی پھولوں سے ہے لَدا
دِل غمزدہ ہیں آنکھیں ہیں اشکوں سے پُر عبادؔ
’’اے کاش ہمیں سمجھتے نہ ظالِم جُدا جُدا‘‘
(عبدالجلیل عبادؔ۔ جرمنی)