ہم نے اُڑتے ہی دیکھی ایسے فرمانوں کی راکھ
مغربی دنیا کے وہ قدامت پسند جو اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کا عمل جاری رکھے ہوے ہیں اس میں وہ عورتوں کے حقوق کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں عورتوں کے جن حقوق کا ذکر ملتا ہے ان کو بیان کرنے کی بجائے ان کی مخالفت کی بنیاد بعض مسلمان ممالک میں خواتین کے ساتھ روا رکھا جانے والا وہ سلوک ہے جس کی اسلام از خود نفی کرتا ہے۔ آج کل اسلام مخالف طبقات امریکہ واشنگٹن میں موجود تھنک ٹینک ولسن سنٹر اور یورپی یونین کی ایک رپورٹ کو بہت اچھال رہے ہیں جس میں ایران اور افغانستان میں سکول کی بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کے لیے مسلمان انتہا پسندوں کی طرف سے نازیبا اقدامات کا ذکر موجود ہے۔
ایران میں حجاب کے مسئلہ پر ایک یونیورسٹی طالبہ کی موت کے بعد طلبہ کی طرف سے جو مظاہروں کو سلسلہ چل نکلا تھا اس پر مغر ب کی کوشش تھی کہ اس احتجاج کو ملک گیر وسعت دے کر ایران میں قائم مذہبی ریاست کو جمہوری ریاست میں بدلنے کا عمل شروع کیا جاے۔اس نازک صورت حال میں ایران کی سپریم کورٹ نے ایک مدبرانہ فیصلہ دے کر حالات کو سنبھالنے میں ایک زبردست کردار ادا کیا۔ ہزاروں گرفتار طالب علموں کو فوری رہائی دلوا کر اور حکومت کو لباس اور حجاب میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کا مشورہ دے کر درمیانی راہ پیدا کی۔ اس ہنگامہ آرائی کے ماحول کو ٹھنڈا ہوتے دیکھ کر اب حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ نومبر سے لے کر اب تک ایران کے چار شہروں جو مذہبی شہر Quim کے علاقہ میں ہیں کے تیس سکولوں میں تیرہ ہزار بچیوں کو بتدریج زہر( slow poisoning) دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس نازیبا آور قابل مذمت حرکت میں ایسے انتہاپسند اسلامی گروہ شامل ہیں جو خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کے مخالف ہیں۔ اس کے علاوہ BOROUJERD نامی قصبہ میں لڑکوں کے سکول میں بھی ایسی شکایت سامنے آئی تھی۔
وزیر تعلیم نے تو یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ اس بارے میں عدالتی انکوائری ہو رہی ہے اس کا انتظار کریں۔ البتہ وزیر صحت بہرام Einollahi اور ان کے نائب یونس Panahi نے اس صورت حال کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔شعبہ تعلیم سے ایک اعلیٰ افسر محمد جاوید تباتبائی نے بھی آواز اٹھائی ہے۔
وزیر موصوف نے بتایا کہ متاثرہ بچیوں کی بعض کی دل کی دھڑکن اور بہت ساری بچیوں کا نروس سسٹم متاثر ہوا ہے۔ یاد رہے کہ ۲۰۱۴ء میں اصفہان میں ایک سکول کی بچیوں پر تیزاب پھینکنے کے واقعات پیش اے تھے جس کے بعد والدین نے اپنی بچیوں کو سکول سے اٹھا لیا تھا۔ اور اب بھی سینکڑوں بچیوں کے والدین نے اپنی اولاد کو سکول سے نکال لیا ہے۔ مغربی ذرائع یہی بتا رہے ہیں کہ جب ذمہ داران سے یہ سوال پوچھا گیا کہ اس قابل مذمت جرم کرنے والوں کے خلاف ریاست نے کیا کارروائی کی تو ان کا جواب غیر تسلی بخش تھا۔اب مغربی دنیا نے نامور وکیل علی رضا منادی کو نگران مقرر کیا ہے کہ وہ اس انکوائری سے دنیا کو باخبر رکھیں۔
افغانستان کے شمال میں واقع صوبہ SAR -e POL کے ضلع Sancharak ایک سکول کے باہر بچیوں کو سکول میں داخل ہوتے وقت کچھ لوگوں نے ساٹھ بچیوں کو دھوکے سے زہر دیا۔ کلاس میں جانے کے بعد بچیوں کی حالت خراب ہونا شروع ہو گئی۔ ان بچیوں کو فوری طبی امداد کے لیے ہسپتال لے جانا پڑا۔ علاقہ کے پولیس افسر دین محمد نظری نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوے بتایا کہ اب سب بچیاں خطرے سے باہر ہیں البتہ انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ زہر کی نوعیت کیا تھی۔ ولسن سنٹر کے اعلیٰ حکام اس بات پر پریشان ہیں کہ ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں کیوں نہیں آئی۔ بعض ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ اتحادی افواج کی موجودگی میں افغانستان کے بعض سکولوں میں بچیوں کو گیس کے ذریعہ ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ولسن سنٹر کے ذرائع افغانستان میں طالبان کی حکومت کو یہ باآور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے دور میں ان کو انٹرنیٹ اور سو ل میڈیا کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑیں گے۔ وہ زمانہ اب ماضی کا حصہ بن گیا جب کرکٹ سٹیڈیم میں تالیاں بجنے پر آپ نے میچ کی براڈ کاسٹنگ بند کر دی تھی۔ اب خود طالبان حکومت کے ذمہ داران خواتین جرنلسٹوں کو انٹرویو دے رہے ہیں۔
ابھی بھی افغانستان میں دو طرز زندگی رائج ہیں۔ بعض صوبوں میں بچیوں کے سیکنڈری سکولز بند کر دیے گئے ہیں۔ حکومتی دفاتر سے خواتین کو فارغ کر دیا گیا ہے۔ لیکن بعض سروے رپورٹس کے مطابق میوزک اور شیشہ بار حکومت کی طرف سے لگائی پابندی کے باوجود اب بھی کھلی ہیں۔ نوجوان شرط لگا کر کارڈ کھیلتے اور ایسی حرکات میں ملوث دیکھے گئے جو طالبان کو قبول نہیں۔لیکن طالبان بعض علاقوں میں بے بس ہیں۔ طالبان کو بالآخر وقت کی رفتار کے آگے ہتھیار ڈالنے ہیں تو خواتین اور بچیوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم نہ کریں۔
عالمی میڈیا پر گردش کرنے والی یہ دونوں خبریں اسلام کی اصل تعلیم کے برعکس انتہا پسندانہ سوچ کا مظہر ہیں۔
جس سے مغربی دنیا میں اسلام مخالف جذبات رکھنے والوں کو مواد مہیا ہوتا ہے۔ یورپ و دیگر ممالک میں دن رات اسلام کی تبلیغ میں مصروف عمل رہنے والے اور طرز معاشرت میں ایک مسلمان کے کردار سے آگاہی دینے والوں کی کمی نہیںلیکن بعض کمزور مسلمان ریاستوں کا طرز عمل اہل مغرب کو اسلام سے قریب لانے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
خصوصاً ایران اور افغانستان میں مسلمان بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنے والے مذہبی لوگ یہ جاننے کے باوجود کہ اقراء کا قرآنی حکم مرد اور عورتوں دونوں کے لیے ہے اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔اب وہ زمانہ نہیں جب
عورت ہونا تھی سخت خطا تھے تجھ پر سارے جبر روا
یہ جرم نہ بخشا جاتا تھا تا مرگ سزائیں پاتی تھی
آج کی دنیا میں مسلمان عورت نے جو مقام حاصل کر لیا ہے وہ مرہون منت ہے
وہ رحمت عالم آتا ہے تیرا حامی ہو جاتا ہے
تو بھی انساں کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے
مسلمان بچیوں سے ان کا بنیادی تعلیمی حق چھیننے والوں کے لیے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓکے ان اشعار میں جو پیغام ہے کاش وہ اس کی طرف توجہ کریں۔ ورنہ تاریخ نے ہمیں یہی بتایا ہے:
خامہ ہاے ظلم سے تحریر جو ہوتے رہے
ہم نے اُڑتے ہی دیکھی ایسے فرمانوں کی راکھ
٭…٭…٭