محترم مولانا امام الدین صاحب فاضل کا ذکرِ خیر
ایک مجاہد اسلام سے انٹرویو
[محترم مولانا امام الدین صاحب مبلغ انڈونیشیا ۱۹۶۹ء میں رخصت پر ربوہ تشریف لائے ہوئے تھے تو خاکسار نے رسالہ تحریک جدید کے لیے ان سے انٹرویو لیا۔اس میں آپ نے اپنی دینی خدمات کا ذکر کرنے کے علاوہ قبولیت ِدعا کا ایک ایمان افروز ذاتی واقعہ بھی بیان فرمایا۔ نظر ثانی کے بعد یہ مضمون قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔]
خدمت اسلام کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینا یا اس قربانی کے عزم صمیم کے ساتھ ہمیشہ ہمیش کے لیے اپنی زندگی وقف کر دینا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ موجودہ دور کے اہم ترین تقاضوں میں سے ایک ہے۔ جس کو پورا کرنے کی سعادت انہی کو عطا کی جاتی ہے جن کے ساتھ خدا کا خاص فضل شامل حال ہوتا ہے۔ اللہ اگر توفیق نہ دے تو یہ انسان کے بس کی بات نہیں۔
مکرم جناب مولانا امام الدین صاحب فاضل سابق رئیس التبلیغ انڈونیشیا سے جب میں نے یہ پوچھا کہ آپ کے دل میں خدمت اسلام کا خیال کب اور کیسے پیدا ہوا؟ تو آپ نے فرمایا کہ میرے والد حضرت میاں عبد الغفور صاحب (جو حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے صحابہ ؓ میں شامل تھے) کی شدید خواہش اور تمنا تھی کہ ان کا کوئی بچہ خدمت دین کرنے والا ہو۔ وہ ہمیشہ اس امر کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری سے دعا کیا کرتے تھے۔چنانچہ ان کی اس پاک خواہش اور متضرعانہ دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں خدمت اسلام کا جذبہ کچھ اس طرح بیدار کیا کہ میں اس جذبہ سے سرشار ہو کر مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو گیا۔ مولانا موصوف خدمت اسلام کے اس حسین آغاز کا ذکر کر رہے تھے اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ اولاد کے خادم دین بننے میں ان کے والدین کی صحیح تربیت اور متضرعانہ دعاؤں کا کتنا دخل ہوتا ہے۔
آپ نے بتایا کہ ۱۹۲۸ء میں جب میں مدرسہ احمدیہ قادیان کی چوتھی جماعت کا طالب علم تھا میں نے خواب میں حضرت بانیؑ سلسلہ عالیہ احمدیہ اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ کو دیکھا کہ گھوڑوں پر سوار احمد یہ چوک قادیان کی طرف تشریف لا رہے ہیں۔ اور دونوں کے ہاتھ میں نیزے ہیں جو چمک رہے ہیں۔ میں نے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے گھوڑے کی لگام کو پکڑ لیا۔حضرت صاحب نے اپنے سفر کے بارے میں فرمایا کہ میں دنیا کو فتح کرنے کے لیے جا رہا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ مجھے بھی ساتھ لے جائیں۔ اس پر حضرت بانیؑ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے حضرت امام جماعت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ وہاں چلے جائیں۔ مولانا نے بیان کیا کہ اس جواب سے میں نے سمجھ لیا کہ اس زمانہ میں خدمت دین حق کی بہترین صورت یہ ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے منشا کے مطابق کام کیا جائے۔ چنانچہ اس خواب کے چھ سال بعد ۱۹۳۴ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے جماعت کے نوجوانوں کو خدمت اسلام کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کرنے کی تحریک فرمائی تو آپ نے فورا ً اپنی زندگی وقف کر دی۔ اور اس طرح تحریک جدید کے اولین واقفین ِزندگی میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کرلی۔
۹؍جنوری ۱۹۳۵ء میں آپ کو نظام سلسلہ عالیہ احمدیہ کی طرف سے پہلی خدمت سپرد کی گئی۔ ابتدا میں تقریباً ڈیڑھ سال آپ نے قادیان کے گردو نواح میں مفوضہ فرائض کی سر انجام دہی میں گزارے۔ آپ کو اعوان نامی گاؤں میں بطور طبیب کام کرنے کا بھی موقع ملا۔ ۱۹۳۸ء میں آپ تحریک جدید کے بورڈنگ میں بطور ٹیوٹر مقرر ہوئےجو ان دنوں براہ راست حضرت صاحب کی نگرانی میں ہو تا تھا۔ یہ سلسلہ جون۱۹۴۶ء تک جاری رہا۔ اس لحاظ سے قریباً آٹھ سال تک آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خصوصی نگرانی میں کام کرنے کا موقع ملا۔
جون ۱۹۴۶ء میں آپ پہلی بار قادیان سے تبلیغ اسلام کی غرض سے سنگا پور جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ سنگاپور میں آپ کو ساڑھے تین سال تک دعوت الی اللہ کا موقع ملا۔ اس زمانہ میں مولانا غلام حسین صاحب ایاز (مرحوم) سنگاپور مشن کے انچارج تھے۔ دسمبر ۱۹۴۹ء میں آپ سنگاپور سے انڈونیشیا تشریف لے گئے جہاں مولانا رحمت علی صاحب مبلغ انچارج تھے۔ ۱۹۵۰ء کے شروع میں آپ کی واپسی کے بعد مولوی سید شاہ محمد صاحب اس مشن کے انچارج مقرر ہوئے۔
انڈونیشیا میں قیام کے دوران مولوی امام الدین صاحب کو سماٹرا کے حلقہ کا انچارج مقرر کیا گیا۔ جہاں آپ نے تقریباً آٹھ سال تک دعوت الی اللہ کا فریضہ ادا فرمایا۔ ابتدائی تین چار سال میں زیادہ تر جماعت احمدیہ کے افراد کو منظم کرنے کا کام دیا گیا۔ کیونکہ خانہ جنگی کی وجہ سے ملک میں ہر طرف افرا تفری کا عالم تھا۔ تاہم اس عرصہ میں دیگر خدمات کے علاوہ متعدد مساجد کی تعمیر کی گئی۔ ان میں سے پاڈانگ کی مسجد خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ یہ ایک وسیع مسجد ہے جس میں بیک وقت ایک ہزار آدمی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس عرصہ میں جلسے منعقد کرنے کی اجازت نہ تھی۔ اس وجہ سے زیادہ تر انفرادی طور پر لوگوں تک پیغام پہنچایا جاتا رہا۔
۱۹۵۷ء میں آپ مرکز کی ہدایت کے مطابق جاوا تشریف لے گئے اور ۱۹۶۴ء تک وہاں خدمات بجا لاتے رہے۔ اس عرصہ میں آپ نے مختلف جماعتوں میں تھوڑا تھوڑا عرصہ قیام کیا اورجماعتی تربیت کے علاوہ دعوت الی اللہ کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ زیادہ تر آپ کا قیام سرابا یا اور بنڈونگ کے شہروں میں رہا۔ ۱۹۶۴ء میں آپ انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتا چلے آئے جہاں ۱۹۶۷ء تک آپ نے انڈونیشیا کے رئیس التبلیغ کے طور پر کام کیا۔ اس عرصہ میں مولوی ابو بکر ایوب صاحب، مکرم میاں عبد الحی صاحب، مولوی عبد الواحد صاحب سماٹری، مولوی محمد ایوب صاحب، مولوی ذینی دهلا ن صاحب مکرم صالح شبیبی صاحب، مولوی محی الدین شاہ صاحب اور دوسرے مقامی مربیان کرام کو آپ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ۱۹۶۷ء میں آپ مرکز سلسلہ ربوہ تشریف لے آئے۔ جون ۱۹۴۶ء سے ستمبر ۱۹۶۷ء کے عرصہ کے دوران ۱۹۵۲ء میں آپ چند ماہ کے لیے ربوہ تشریف لائے تھے۔ اور اس عرصہ میں تحریک جدید کے تحت انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے انچارج کے طور پر کام کرتے رہے۔ اس کے بعد ۱۹۶۰ء میں دوبارہ صرف چندہ ماہ کے لیے ربوہ آئے۔ اس لحاظ سے مجموعی طور پر آپ کو کم و بیش بیس سال تک تبلیغ اسلام کے میدان میں کام کرنے کا موقع ملا۔
’’مولانا یہ فرمائیے کہ انڈونیشیا کی جن جماعتوں میں کام کرنے کا آپ کو موقع ملا ہے وہاں کے دوستوں کا انداز تبلیغ کیا ہے ؟‘‘میرے اس سوال پر آپ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انڈونیشیا میں نہایت مخلص اور پُر جوش احمدی جماعتیں ہیں۔ ان میں سے ہر فرد تبلیغ کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو احمدیت کا ایک مبلغ تصوّر کرتا ہے۔ چنانچہ ان میں سے اکثر دوست بہت تندہی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اور مرکزی مبلغین کے ساتھ پورا پورا تعاون کرتے ہیں۔ انڈونیشین احمدی احباب کے طرزِ تبلیغ کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے بتایا کہ ہر جماعت یوم تبلیغ مناتی ہے۔ اور اکثر جگہوں پر احمدی دوست اپنے گھروں میں ہفتہ وار تربیتی اور تبلیغی جلسے منعقد کرتے ہیں۔ پھر احمدی احباب اپنے دوستوں کو اپنے گھروں پر بلا کر بڑی محبت کے ساتھ دوستانہ ماحول میں ان سے گفتگو کرتے ہیں جو بڑی مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
تبلیغ کے ذرائع کا ذکر چل نکلا تو میں نے دریافت کیا کہ آپ کے مشاہدہ میں تبلیغ کا سب سے مؤثر ذریعہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: انفرادی طور پر احباب سے رابطہ اور محبت و پیار سے گفتگو کرنا بہت اچھا طریق ہے۔ اگر اپنے دوستوں کو گھر میں مدعو کر کے مختلف امور پر تبادلہ خیالات کیا جائے تو اس سے بہت اچھے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔
’’ اس سلسلے میں تبلیغی لٹریچر کی کیا اہمیت ہے ؟‘‘ آپ نے بتایا کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع کیا جانے والا لٹریچر بہت مقبول اور مفید ثابت ہو رہا ہے۔ خاص طور پر اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ میں اس کی مانگ رو زبر و ز زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ بہت مقبول ہے۔ جو لوگ بھی جماعت کے لٹریچر کو پڑھتے ہیں بہت اچھا اثر لیتے ہیں اور ان کی بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں آپ نے مزید بتایا کہ انڈو نیشیا سے جماعت کا ایک رسالہ سینارِ اسلام کے نام سے شائع ہوتا ہے۔جس کا مطلب ہے۔’اسلام کی کرن اور روشنی‘۔ واقعی جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع ہونے والے تمام رسائل و کتب آفتابِ اسلام کی کرنوں کی مانند ہیں۔ کیونکہ ان کے ذریعہ ظلمتیں کافور ہوتی ہیں۔ اور دہریت و الحاد کے تاریک گوشے منور ہو جاتے ہیں۔
میرا اگلا سوال یہ تھا کہ انڈونیشیا میں احمدیوں کی تعداد کتنی ہو گی ؟ یہ سوال سنتے ہی مولانا موصوف کے چہرے پر خوشی اور بشاشت کی لہر دوڑ گئی۔ یوں معلوم ہوتا تھا گویا چشم تصور میں وہ انڈونیشیا کی مخلص جماعتوں کو دیکھ رہے ہیں جن کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کر چکی ہے۔ آپ نے بتایا کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے انڈونیشیا میں اتنی کثرت سے لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہو چکے ہیں کہ اب تو متعدد گاؤں ایسے ہیں جن کا ایک فرد بھی احمدیت کی نعمت سے محروم نہیں رہا۔ تاہم یہ بتانا مشکل ہے کہ احمدی احباب کی معین تعداد کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب اس علاقے میں بے شمار احمدی ہیں۔ اور انڈونیشیا کی جماعت بیرون پاکستان کی جماعتوں میں سے صف اول کی جماعتوں میں شمار ہوتی ہے۔ اور اپنی تعداد اور قربانیوں کے لحاظ سے دیگر ممالک کے لیے بطور مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ مولانا امام الدین صاحب نے اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ انڈونیشیا کے احمدی احباب ہر مالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ان میں ایسے احباب کی کثرت ہے جو نظام وصیت میں شامل ہیں اور وہ بھی جو ابھی اس سعادت سے محروم ہیں۔ مختلف تحریکات میں شمولیت کے اعتبار سے ان کی قربانی کا معیار بھی مثالی ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں کہ جب ان کے سامنے کوئی مالی تحریک کی گئی تو جن کے پاس روپے تھے انہوں نے نقد ادائیگی کی اور جن کے پاس روپے نہ تھے انہوں نے بھی اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے اپنی جائیداد کا کوئی حصہ یا اپنی زمین کا کوئی ٹکڑا اس مد میں پیش کر دیا۔ مستورات اپنے زیور اتار کر راہ خدا میں قربان کر دیتی ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان جماعتوں کے قربانی کے اس جذبہ کو دیکھ کر رشک آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس سلسلہ کو کیسے کیسے مخلص جاں نثار اور فدائی عطا کیے ہیں۔
’’ مربیان کرام جو اپنے وطن سے ہزاروں میل دور ہوتے ہیں انہیں کئی مواقع پر مشکلات تو پیش آتی ہوں گی؟‘‘ میں نے پوچھا۔
آپ نے فرمایا: بسا اوقات مربیان کو وقتی طور پر بعض پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے لیکن مربیان کرام کی زندگی کا یہ پہلو بہت ایمان افروز اور حوصلہ افزا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسلام کے ان ادنیٰ خدام کی ہر قدم پر تائید و نصرت کرتا ہے۔ نہ صرف ان کی مشکلات کو دور کر دیتا ہے۔ بلکہ ان کی ضروریات کو خود ہی ایسے رنگ میں پورا کرتا ہے کہ ظاہر بین نگاہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔
مولانا بڑی تفصیل سے بتا رہے تھے کہ جب بھی مربی کو کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے یا جماعت کو بحیثیت مجموعی کوئی مشکل پیش آتی ہے تو خداتعالیٰ کی طرف سے تائید و نصرت کا غیبی ہاتھ حرکت میں آ جاتا ہے۔ اور غیروں کے ہر ارادہ کو ناکام بنا کر جماعت کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ خدائی مدد اغیار کی نظر میں اتنی غیر متوقع اور ناممکن الوقوع ہوتی ہے کہ اس کے ظہور کے بعد انہیں یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ اس جماعت پر خدا کا ہاتھ ہے۔
’’قبولیت دعا کے بے شمار شیریں پھل آپ نے بھی کھائے ہوں گے۔ اس سلسلے میں کوئی ایک واقعہ! ‘‘ میں نے سوال کیا۔
مولانا سوچ میں پڑگئے کہ میں کس واقعہ کو بیان کروں اور کس کو چھوڑوں۔ کافی سوچ کے بعد کہنے لگے کہ جماعتی طور پر تائید و نصرت الٰہی کے واقعات تو بہت ہیں اور کافی تفصیل چاہتے ہیں۔ اس وقت میں ایک ذاتی نوعیت کے واقعے کا ذکر کرتا ہوں۔
سماٹرا میں قیام کے دوران ایک موقع پر اہلیہ کی لمبی بیماری کے اخراجات کی وجہ سے مجھے سخت مالی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک جرمن ڈاکٹر کر و سے میری بیوی کا معالج تھا اور چار صد روپے کے قریب رقم کا بل واجب الادا تھا۔ اس سے قبل ڈاکٹر نے کبھی بل کا مطالبہ تک نہیں کیا تھا۔ کیونکہ اسے پورا پورا اعتماد تھا کہ میں جب کہوں گا میری رقم ادا ہو جائے گی۔ اب اس نے بتایا کہ کل شام وہ اپنے وطن واپس جا رہا ہے اس لیے بل کی رقم فوری ادا کی جائے۔ ادھر میری یہ حالت تھی کہ بل ادا کرنے کے لیے رقم موجود نہ تھی۔ اور نہ ہی رقم حاصل کرنے کی کوئی ظاہری صورت نظر آتی تھی۔ عجیب پریشانی کا عالم تھا اور کچھ سمجھ نہ آتا تھا کہ کل دوپہر تک اس خطیررقم کا بندوبست کس طرح ہوگا۔ میں نے اپنی ضرورت کا ذکر جماعت کے کسی دوست سے کرنا مناسب نہ سمجھا۔ جب رات ہوئی تو میں نے تہجد کی نماز میں نہایت عاجزی اور انکساری سے اپنی یہ التجا قاضی الحاجات کے حضور پیش کر دی۔ اور جس طرح بعض دفعہ بچہ اپنے والد کے سامنے ضد کر کے چیز مانگتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ چیز ابھی ملنی چاہیے اسی طرح میں نے بھی نہایت درد اور یقین بھرے دل کے ساتھ اپنے مولا کے حضور یہ التجا کی کہ کل ظہر سے پہلے پہلے میری اس ضرورت کو پورا فرما دے۔
خدا کا کرنا کیا ہوا کہ اگلے روز بعض مصروفیات کی وجہ سے وقتی طور پر اس ضرورت کا خیال دل سے نکل گیا اور میں دوپہر تک بعض اور کاموں میں مصروف رہا۔ اور رقم حاصل کرنے کے لیے کوئی کوشش بھی نہ کر سکا۔ ظہر کے وقت باہر صحن سے ایک احمدی دوست نے بآواز بلند یہ اطلاع دی کہ موٹر میں ایک مہمان آئے ہیں اور ملنا چاہتے ہیں، میں نے یہ خیال کر کے کہ مہمان کو انتظار نہ کرنا پڑے، نہ معلوم ا نہیں کتنا ضروری کام ہو، یہی مناسب سمجھا کہ پہلے ان سے بات کرلوں۔ باہر آیا تو دیکھا کہ پاڈانگ کے ایک سکھ تاجر کھڑے ہیں انہوں نے ایک لفافہ میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا کہ میں ابھی ابھی تین ماہ کے بعد میزان (Meezan) شمالی سماٹرا سے بذریعہ ہوائی جہاز آیا ہوں اور ہوائی اڈہ سے سیدھا آپ کے پاس آ رہا ہوں۔ یہ لفافہ آپ کے لیے ہے۔ یہ کہا اور چل دیے۔ میں نے لفافہ لیا اور میرا خیال تھا کہ اس لفافہ میں میزان سے ہمارے کسی احمدی دوست کا خط ہو گا۔ لیکن میری حیرانی اور خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے لفافہ کھولا تو اس میں سے چار پانچ ہزار روپیہ کے کرنسی نوٹ نکلے۔ اور خط کوئی نہ تھا۔ شام کو وہ تاجر دوبارہ آیا تو اس نے بتایا کہ جب میں میزان سے روانہ ہونے لگا تو جہاز میں میرے دل میں غیر معمولی طور پر یہ تحریک ہوئی کہ مجھے آپ کی خدمت میں کوئی تحفہ یا نذرانہ پیش کرنا چاہیے۔ جتنی رقم میری جیب میں تھی وہ میں نے پیش کر دی ہے۔ اسے آپ قبول فرمائیں!
مولانا نے فرمایا کہ اب بھی جب میں اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو میرا دل آستانہ الوہیت پر شکر کے جذبات سے جھک جاتا ہے کہ کس طرح میرے خدا نے میری عاجزانہ دعا کو سنا اور ایک شخص کے دل میں تحریک کر کے میری ضرورت کو پورا کیا اور میری التجا اور دعا کے عین مطابق رقم کا انتظام کر دیا۔ الحمد للہ
محترم مولانا امام الدین صاحب ان دنوں جب میں نے انٹرویولیامرکز سلسلہ میں مفوضہ خدمت بجا لا رہے تھے۔ میں نے ان کے آئندہ پروگرام کے بارے میں دریافت کیا تو کہنے لگے میں خدمت سلسلہ کے لیے ہر وقت تیار ہوں میرے بارہ میں حضرت صاحب کا جو بھی ارشاد ہو گا اس کے مطابق عمل ہوگا۔ ان شاء اللہ
[نوٹ:مولانا امام الدین صاحب۲۳؍فروری ۱۹۷۸ء کو ربوہ میں ۶۵؍سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آپ کا نماز جنازہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے پڑھایا۔ آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔]