اسباب کو خدا نہ بنایا جاوے
قرآن شریف اس قسم کی آیتوں سے بھرا پڑا ہے کہ وہ متقیوں کا متولّی اور متکفّل ہو تا ہے۔ تو پھر جب انسان اسباب پر تکیہ اور توکّل کرتا ہے تو گویا خداتعالیٰ کی ان صفات کا انکار کرتا ہے اور ان اسباب کو ان صفات سے حصہ دیتا ہے۔ اور ایک اَور خدا اپنے لئے ان اسباب کا تجویز کرتا ہے۔ چونکہ وہ ایک پہلو کی طرف جھکتا ہے۔ اس سے شرک کی طرف گویا قدم اٹھاتا ہے۔ جو لوگ حکاّم کی طرف جھکے ہوئے ہیں اور ان سے انعام یا خطاب پاتے ہیں اُن کے دل میں اُن کی عظمت خدا کی سی عظمت داخل ہو جاتی ہے۔ وہ ان کے پرستار ہو جاتے ہیں اور یہی ایک امر ہے جو توحید کا استیصال کرتا ہے اور انسان کو اس کے اصل مرکز سے ہٹا کر دُور پھینک دیتا ہے۔ پس انبیاء علیہم السلام یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اسباب اور توحید میں تناقض نہ ہونے پاوے۔ بلکہ ہر ایک اپنے اپنے مقام پر رہے اور مآل کار توحید پر جا ٹھہرے۔ وہ انسان کو یہ سکھانا چاہتے ہیں کہ ساری عزتیں، سارے آرام اور حاجات برآری کا متکفّل خدا ہی ہے۔ پس اگر اس کے مقابل میں کسی اور کو بھی قائم کیا جاوے تو صاف ظاہر ہے کہ دو ضدّوں کے تقابل سے ایک ہلاک ہو جاتی ہے۔ اس لئے مقدم ہے کہ خداتعالیٰ کی توحید ہو۔ رعایت اسباب کی جاوے۔ اسباب کو خدا نہ بنایا جاوے۔ اسی توحید سے ایک محبت خداتعالیٰ سے پیدا ہوتی ہے جبکہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ نفع و نقصان اسی کے ہاتھ میں ہے۔ محسن حقیقی وہی ہے۔ ذرّہ ذرّہ اسی سے ہے۔ کوئی دوسرا درمیان نہیں آ تا۔ جب انسان اس پاک حالت کو حاصل کرلے تو وہ موحّد کہلاتا ہے۔ غرض ایک حالت توحید کی یہ ہے کہ انسان پتھروں یا انسانوں یا اور کسی چیز کو خدا نہ بنائے بلکہ ان کو خدا بنانے سے بیزاری اور نفرت ظاہرکرے اور دوسری حالت یہ ہے کہ رعایت اسباب سے نہ گزرے۔
(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۸۲،۸۱، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)