علم و معرفت میں حصولِ کمال
حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے… سو اے سننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا۔‘‘ (تجلیات الہٰیہ، روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ ۴۰۹۔۴۱۰)حضرت مسیح موعودؑ کی اس پیشگوئی کے الفاظ کی تفاصیل میں جانے سے پہلے ہم سادہ طور پر یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ علم کے لغوی یا لسانی معنی کیا ہیں۔ اردو زبان میں یہ لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اردو لغات کی رُو سے اس کے مندرجہ ذیل ممکنہ معانی کیے جاتے ہیں :جاننا، آگاہی، واقفیت، عقل، تمیز، شعور، گُن، ہنر،پڑھائی، تعلیم، سائنس۔
مثالوں سے بعض معنوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے مجھے علم نہیں کے فلاں چیز کہاں ہے۔ یہاں علم سے مراد کسی چیز کے بارے میں فوری اور سادہ واقفیت ہے۔ فلاں شخص کو بازار، خریدو فروخت اور یہ کہ کون سی شے کہاں سے اچھی ملتی ہے اس کا بڑا علم ہے۔ یہاں بھی علم سے محض معلومات اور باربار کے تجربے کے بعد حاصل ہونے والے نتائج مراد ہیں۔ یہ بھی وہ علم نہیں جس کی طرف حضرت مسیح موعودؑ نے توجہ دلائی ہے۔ فلاں شخص بڑا زبردست مقرر ہے۔ فلاں شخص بحث مباحثے میں کسی کو جیتنے نہیں دیتا۔ یہاں بھی علم نہیں مہارت اور مشق مراد ہے۔
پیشگوئی کے الفاظ سے واضح ہورہا ہے کہ علم باقاعدہ ایک الگ حیثیت میں موجود حقیقت ہے جسے ایک انسان حاصل کرسکتا ہے۔ اور علم سے مراد کسی مخصوص شعبہ میں اوّل آگاہی دوم انتہائی حد تک معلومات، سوم مہارت اور مشق، چہارم اس شعبہ کی ممکنہ معلوم سچائیوں تک رسائی نیز مزید سچائیوں کی دریافت کے سفر میں اپنے تمام اصولوں،مجاہدوں اور فکر و تدبر میں کلیۃً سچائی پر قائم رہنا اور اس استقامت کی طاقت سے روشنی پیدا کرنا، پنجم علم کے انتہائی عروج پر پہنچ کر ایسے دلائل تک رسائی پا جانا ہےجن کی طاقت کے آگے اس شعبے سے وابستہ تاریکیاں دور ہوجائیں۔
اس درجہ ترقی کے بعد ایک اور درجہ ہے اور وہ درجہ تمام علوم میں مشترک ہے یعنی کوئی بھی انسان جب کسی بھی سچے علم کی اس انتہا پر پہنچتا ہے جہاں اس کے دلائل اتنے طاقتور ہوجاتے ہیں کہ وہ ہر باطل نظریے کو رد کردیتے ہیں وہاں سے آگے خدا تعالیٰ پر ایمان لانے والا طالب علم اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں وہ اپنے علم کی گہرائی اور مہارت کے باعث دوسروں کے لیے خداتعالیٰ کی ہستی کا ثبوت بن جاتا ہے۔ اس سے ایسے کام صادر ہوتے ہیں جو اتنے غیر معمولی ہوتے ہیں کہ وہ ایک ایسے انسان کےاختیار میں نہیں ہوتے جس کا خدا تعالیٰ سے تعلق اور اس پر پختہ ایمان نہیں ہوتا۔
احمدی طلبہ، اساتذہ، محققین، سائنسدان، تخلیقی صلاحیت رکھنے والے مصنفین، شعرا، مبلغین ان سنہرے اصولوں کو اپنا کر اس پیشگوئی کا مصداق بن سکتے ہیں۔ پس ہم جس بھی شعبہ تعلیم، تحقیق، تصنیف، تبلیغ وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں ان اصولوں کو مدنظر رکھ کر ہم بھی علم و معرفت میں کمال حاصل کرسکتے ہیں جو اوپر بیان کیے گئے ہیں۔
ایک طالب علم کو کیا کرنا چاہیے ؟ اس سوال کو مزید سادہ انداز میں حل کرتے ہیں۔ فرض کرتے ہیں کہ بطور ایک طالب علم آپ پہلے ہی کسی علمی شعبے کا انتخاب کرچکے ہیں۔ نیز اس بارے میں آپ کچھ نہ کچھ علم بھی رکھتے ہیں یعنی تعلیم حاصل کررہے ہیں اور کچھ نہ کچھ معرفت بھی یعنی اس علم کے فوائد، نقصانات، اس کے حصول سے روز مرہ زندگی میں یا آخرت میں کامیابی کے امکانات وغیرہ سے بھی آپ کسی نہ کسی حد تک واقف ہیں۔ اب آپ کا اگلامرحلہ اس شعبہ میں کمال حاصل کرنا ہے۔ کمال یہ نہیں کہ آپ نے کوئی جادو دکھانا ہے یا کوئی انہونی بات کرنی ہے۔ بلکہ آپ نے اپنی طاقت اور صلاحیت کے مطابق اس علم کے حصول میں زیادہ سے زیادہ سنجیدگی اختیار کرنی ہے۔ ترجیحات میں اسے پہلے دوسرے نمبر پر لانا ہے۔ اس کے لیے کچھ بھی قربان کرنا ہے مگر کسی بھی ایسی خواہش یا مقصد کے لیے جو نسبتاً اپنے مقاصد میں ادنیٰ ہو اس حصول علم کو نظر انداز یا پس پشت نہیں ڈالنا۔ چاہے وہ تفریحات ہوں، دوستی ہو یا خواہشات۔ اس شعبہ علم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنی ہیں لیکن دکھاوے یا بحث کے لیے نہیں بلکہ اس علم میں گہری بصیرت کے حصول کے لیے۔
سنجیدگی سے کیا مراد ہے ؟ سنجیدگی یعنی Academic Integrity۔ دراصل علم ایک خزانہ ہے اور اس کے ارد گرد قانونِ قدرت کا سخت پہرہ ہے۔ اس خزانے تک کس کو کتنی رسائی ملے گی اس کا انحصار طالب کی صحتِ نیت، دیانت داری، غیر متعصبانہ سوچ، مغالطوں سے بچنے کا پختہ عزم، دھوکا دہی اور دکھاوے سے پاک ہونا نیز اپنے علم کو عوام الناس کے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی لاشعوری توفیق پر ہے۔
سنجیدگی، ترجیحات اور معلومات کو درست کرنے کے بعد آپ نے اپنے ارادے پر پوری سچائی سے کام کرنا ہے۔ یہاں سچائی کے کئی معنی بنتے ہیں۔ ایک سچائی وہ ہے جو طالب کی ذات سے متعلق ہے جس کا اوپر ذکر ہوچکا ہے دوسری سچائی کا تعلق علم کے حصول کے دوران کسی عالمگیر سچائی کی صحت کو نقصان نہ پہنچانے کے عہد سے ہے۔
مندرجہ بالا اصولوں پر عمل کرکے ہی ایک طالب علم علوم دینی و دنیوی میں وہ کمال حاصل کرسکتا ہے جس کی خوشخبری حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے ماننے والوں کو دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اصولوں کو سمجھنے اور ان پر چلتے ہوئے اپنی اپنی استعداد کے مطابق اپنے اپنے شعبہ تعلیم میں کمال حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین