تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (قسط ۳۳) التنقید

(اواب سعد حیات)

مولوی ابراہیم سیالکوٹی کے رسالہ ’’الخبرالصحیح عن قبرالمسیح‘‘کا مدلل ردّ (مصنفہ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ عنہ )

حضرت مولانا غلام رسول صاحب قدسی فاضل ؓ کا شمار سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ان علماء میں ہوتاہے جو صاحب رویاء و کشوف تھے۔ آپ صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات کے گاؤں راجیکی میں پیداہوئے تھے۔ آپ نے اپنے سوانح حیات کے تفصیلی حالات خود قلم بند فرمائے تھے جس میں خاندانی حالات سے لے کر عہد طفولیت ، جوانی اور بڑھاپے تک کے ایمان افروز واقعات، نیز قرآن کریم کے سینکڑوں معارف اور قریباً نصف صدی تک کی کامیاب تبلیغی مہمات، خدا تعالیٰ کی خارق عادت مدد و نصرت، اپنے عارفانہ کلام، رویاء وکشوف، خلفائے احمدیت کی شفقت و عنایات کے واقعات وغیرہ کا ذکر درج کیا ۔ اس مسودہ کو اب تک مختلف مواقع پر حیات قدسی کے نام سے متعدد بار شائع کیا جاچکا ہے۔جس کا مطالعہ ایمان افروز بھی ہے اور علم و آگہی کا موجب بھی ہے۔

علالت طبع کے باوجودآپؓ نے محض ایک ہفتہ کے وقت میں ہی خاص نقادانہ نظر سے مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی کے رسالہ ’’الخبر الصحیح عن القبر المسیح‘‘ کا مدلل اور مسکت ردّ تیارفرمالیا تھا۔

قریباً پچاس صفحات پر مشتمل اس رسالہ کو حضرت میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق نے اپریل ۱۹۲۲ء میں فاروق پریس قادیان سے خود اپنی نگرانی میں چھپواکر فاروق منزل سے شائع کیاتھا۔

مصنف کتاب نے مولوی ابراہیم صاحب کو متوجہ کیا کہ ناحق طریق پر قرآن کریم ، احادیث سے مقابلہ اور ضد کرتے ہوئے، خلاف عقل سلیم حضرت مسیح کی حیات کی بابت عیسائیوں سے بھی بڑھ کر زور مار رہے ہیں حالانکہ اب تو یورپ اور بلاد مغربیہ کے عیسائیوں اور محققوں نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ مسیح فوت شدہ ہیں۔ اور ان کی دوبارہ آمد کا مسئلہ ایک امرموہوم اور تاویل طلب ہے۔

صفحہ ۵ پر لکھا کہ ’’پھر مولوی صاحب نے حضرت عیسیٰؑ کی نسبت لفظ نزول من السماء الی الارضلکھ کر دھوکہ دیا ہے اور دجل سے کام کیا ہے۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ نہ صرف قرآن میں مسیح کی نسبت رفع کے لفظ کے ساتھ سماء کا لفظ پایاجاتا ہے اور نہ ہی فقرہ رافعک الی اور فقرہ بل رفعہ اللّٰہ الیہ کی ضمیر متکلم اور ضمیر غائب کا مرجع آسمان ہے اور نہ ہی کسی حدیث صحیح میں لفظ نزولکے ساتھ لفظ سماءکا موجود۔ ‘‘

اس کے بعد مصنف نے ’’فیدفن معی فی قبری ‘‘ پر تفصیلی پہلوؤں سے روشنی ڈالی ہے۔ اور مولوی ابراہیم سیالکوٹی کے پیش کردہ بعض دیگر حوالہ جات کی اصل حقیقت بتاتے ہوئے غلط فہمیاں پھیلانے کی کوششوں کا سد باب کیا ہے۔

بنیادی طور پر اپنے رسالہ میں مولوی ابراہیم صاحب نے درج ذیل چار طرح کے اعتراضات کو جگہ دی تھی:

اول: احادیث اور روایات میں آیا ہے کہ مسیح کی قبر ، آنحضرت ﷺ کے روضہ میں ہوگی۔

دوم: مرزا صاحب کی تحقیق اس وجہ سے قابل اعتبار نہیں کیونکہ آپ اپنی پہلی تصانیف میں مسیح کی قبر بلاد شام میں لکھ چکے ہیں اور بعد میں سری نگر ، کشمیر کا ذکر کیاہے۔

سوم: آیت وَاٰوَیۡنٰہُمَاۤ اِلٰی رَبۡوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیۡنٍکو مرزا صاحب نے کشمیر والی مسیح کی قبر کی تصدیق اور تائید میں پیش کیا ہے حالانکہ اس آیت کا مصداق مسیح کے متعلق شام کا واقعہ ہے نہ کہ کشمیر کا۔

چہارم: مرزا صاحب نے اپنی تحقیق میں کشمیر والی قبر مسیح کی تصدیق اور تائید کے بارہ میں کتاب اکمال الدین کے بعض حوالہ جات سے کام لیا ہے۔ جو کسی طرح سے بھی مفید مطلب نہیں۔ وغیرہ

حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی نے اپنی اس تصنیف میں مذکورہ بالا چاروں طرح کے اعتراضات کا خوب جائزہ لیا ہے، اور مفید حوالہ جات پیش کرتے ہوئے مدلل بحث سے مخالف مولوی کی کج فہمی سے پردہ اٹھایا ہے۔ نیزمخالف مولوی صاحب کی پیدا کردہ غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے آپؓ نے اپنی اس تصنیف میں وفات مسیح، سفر کشمیر اور سری نگر میں مدفون ہونے کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کردہ ثقہ دلائل کو تفصیل سے جگہ دی ہے۔ یوں یہ کتاب کئی لحاظ سے جامع ٹھہرتی ہے جہاں وفات مسیح کے متنوع دلائل بھی یکجا ہیں اور ان پر ہونے والے بودے اعتراضات کا کافی و شافی جواب بھی موجود ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button