رسول پاکﷺ بحیثیت رحمۃ لِّلعالمین
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے:وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ (انبیاء: ۱۰۸)اے محمد! ہم نے تجھے تمام جہانوں کے لیے باعث رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
زمین و آسمان میں موجود ہر ایک جہاں تیری رحمتوں کا طالب ہے۔ تمہاری ذات مجسم رحمت کا پیکر ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت عرب کے بنجر اور سنگلاخ خطہ میں ہوئی۔عرب کے باسیوں کے دل بھی خطہ زمین کی مانند رحمت و نرمی سے بالکل ناآشنا تھے۔ شقاوت قلبی اس حد تک تھی کہ معصوم بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا۔ معمولی واقعات کی بنا پر نہ ختم ہونے والی لڑائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا اور جنگوں میں بڑی بے رحمی و بے دردی سے لاشوں کا مثلہ کیا جاتا جیسے زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کا بھی مثلہ کیا گیا۔ انسانوں کے علاوہ بےزبان جانوروں کو بھی اپنی سفاکیت کی بھینٹ چڑھایا جاتا۔
جیسے زمین عرب آسمانی موسلادھار بارش کی منتظر تھی بالکل ویسے ہی انسانیت بھی اپنے از سر نو احیاکے لیے خدائی رحمت کی طلبگار تھی۔چنانچہ خداتعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں رحمت خداوندی کا پرتو دنیا میں آیا۔
ارسلت من رب کریم محسن
فی الفتنۃ الصماء و الطغیان
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آتے ہی رحمت و شفقت کے جلوے بکھیرنے شروع کردیے۔اور ہر سو منادی کرنے لگے: مَنْ لَا یَرْحَمْ لَا یُرْحَمْ یعنی جو رحم نہیں کرتا وہ یاد رکھ لے کہ اس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقط قولی رنگ میں رحمت کی تعلیم کا پرچار نہیں کیا بلکہ اپنے عمل سے بھی تمام جہانوں کو جذبہ رحمت سے مستفیض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب سفر طائف میں کفار کی جانب سے لہو لہان کیا گیا تو پہاڑوں کا فرشتہ آیا اور درخواست کی کہ اے محمد! اگر ارشاد ہو تو میں یہ پہلو کے دونوں پہاڑ ان لوگوں پر پیوست کر کے ان کا خاتمہ کر دوں؟ آپؐ نے کمال رحم کرتے ہوئے فرمایا کہ نہیں نہیں۔مجھے امید ہے کہ اللہ انہی لوگوں میں سے خدائے واحد کے پرستار پیدا کردے گا۔( صحیح بخاری کتاب بدء الخلق)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت نے جنگوں میں مقتولوں، قیدیوں کے حقوق مقرر فرمائے۔ اپنے اسوہ سے تمام غیر انسانی افعال کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہندہ زوجہ ابوسفیان وہ عورت تھی جس نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا مثلہ کروانے کے بعد کلیجہ بھی نکال کھایا تھا۔اپنے بے رحمانہ جرائم کی بنا پر قتل کی حقدار ٹھہرائی گئی۔ فتح مکہ کے موقع پر چھپتی چھپاتی عورتوں کے ساتھ بیعت کر لی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو آواز سے پہچانا تو کہنے لگی کہ یارسول اللہ اب تو میں مسلمان ہو گئی ہوں۔ آپ مجھے قتل نہیں کر سکتے تو نبی رحمت وشفقت نے ہنستے ہوئے فرمایا۔ہاں تم پر کوئی گرفت نہیں۔(تفسیر ابن کثیر سورۃ الممتحنہ)
فتح مکہ کے موقع پرآپ کی رحمت کا سلسلہ اس وقت آ کر تھما جب آپ نے علی الاعلان فرمایا۔ لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمکہ اے مکہ والو! تم نے ساری زندگی ہم پر ظلم و زیادتی کرتے ہوئے گزار دی۔تمہارے گھناؤنے افعال ہر گز رعایت کے حقدار نہیں لیکن میرا جذبہ رحم سزا کی اجازت نہیں دیتا۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔
الطاف حسین حالی نے کیا خوب فرمایا ہے:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فتح خیبر پر یہود نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دے کر قتل کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔ منصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ایک سریع الاثر زہر بڑی مقدار میں ران کے گوشت میں ملا کر سلام بن مشکمکی بیوی زینب کے ذریعہ بطور تحفہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا۔آپ نے کھانے کا پہلا نوالہ منہ میں ڈالا تو فوراً ہی زہر کا احساس ہو گیا۔اسی کھانے کو کھانے کی وجہ سے صحابی رسولؐ حضرت بشرؓ کی وفات ہو گئی۔آپؐ نے یہود کو بلایا اور فرمایا کہ اے یہود ! سچ سچ بتاؤ کہ تم نے کیوں کھانے میں زہر ملایا ہے؟ زہر دینے والی عورت کہنے لگی کہ ہم نے کہا کہ اگر آپ حق پر ہیں تو کبھی بھی زہر اثر نہیں کرے گا اور اگر نعوذ باللہ آپ حق پر نہیں تو ہم سب کو نجات مل جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے جلال سے فرمایا میرا خدا تمہارے تمام تر قتل کے منصوبوں کے باوجود، تمہیں میرے قتل کی طاقت نہیں دے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زہرآلود نوالہ کی تکلیف کا اثر اپنی مرض الموت میں بھی محسوس کیا۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایاکہ میں اب تک اس زہر کی اذیت محسوس کرتا ہوں جو یہود نے فتح خیبر کے وقت مجھے دیا۔ اب بھی میرے بدن میں زہر کی وجہ سے کٹاؤ اور جلن کی کیفیت ہے۔(صحیح بخاری کتاب المغازی باب مرض النبیؐ وفاتہ)
اہل خیبر یہود اپنے مکروہ فعل کی بنا پر بلا شبہ سزا کے مستحق تھے لیکن نبی رحمت و شفقت نے اس عورت سمیت سب یہود کو معاف کردیا اور رحمۃللعالمین کے الٰہی نام کو تا قیامت جاوداں بنادیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطہر قلب انتہائی حساس واقع ہوا تھا۔اپنوں، پیاروں کی تکالیف پر جہاں صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہونے دیتے وہیں اس رحمت کا بھی اظہار فرماتے جو خدا نے سینہ صافی میں ودیعت کی ہوئی تھی۔
آپؐ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ نے پیغام بھجوایا کہ میرا بیٹا آخری سانس لے رہا ہے۔تشریف لائیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سلام کیا اور کہلا بھیجا کہ جو کچھ اللہ دیتا ہے وہ واپس لیتا ہے وہ سب اللہ کا ہی ہے۔ ہر چیز اس کے ہاں معین مدت کے لیے ہے۔ حصول ثواب کے لیے صبر سے کام لو۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے دوبارہ پیغام بھجوا دیا اور قسم دی کہ آپ ضرور تشریف لائیں تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مع اصحاب اٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت زینب کی طرف چل پڑے۔ جب وہاں پہنچے تو بچہ آپ کی گود میں دیا گیا۔بچے کا سانس اکھڑا ہوا تھا۔حضور نے بچہ کو دیکھا تو بے اختیار آنکھوں سے آنسو بہ پڑے۔حضرت سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ!آپ کیوں رونے لگے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ وہ رحم کا جذبہ ہے جو خدا نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھا ہوا ہے۔خدا اپنے بندوں میں سے ان پر رحم کرتا ہے جو خود رحم کرنے والے ہوتے ہیں۔( صحیح بخاری، کتاب الجنائز باب یعذب المیت)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمتوں سے جانوروں اور پرندوں نے بھی خوب حظ اٹھایا۔
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے باغ میں داخل ہوئے، وہاں ایک لاغر اونٹ تھا۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی زور سے آواز نکالی اور آنکھوں سے آنسو بہانے لگا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور کمال شفقت سے اس کی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اس کے مالک کو فرمایا:کیا تم ان چوپایوں اور جانوروں کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتے جن کا اللہ نے تم کومالک بنایا ہے، اس (اونٹ) نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہواور اس سے مسلسل کام لیتے ہواوراس کو تھکاتے ہو۔( سنن ابو داؤد، کتاب الجہادباب ما یؤمر بہ من القیام علی الدوائب والبھائم)
ایک روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مع اصحاب ایک سفر پر تھے۔ راستے میں انہوں نے ایک پرندے کے گھونسلے سے اس کے ننھے ننھے دو بچے اٹھا لیے جس کے بعد ان کی ماں قافلے کے اوپر بے قراری کی حالت میں اڑنے اور چکر لگانے لگی۔
حضور اکرم ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپؐ نے سخت خفگی کا اظہار کیا اور پرندے کے بچوں کو واپس ان کی جگہ پر چھوڑنے کی ہدایت کی۔(مستدرک حاکم کتاب الذبائح)
آپ کی ساری زندگی رحمت، عفو و درگزر کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔اسی رحمۃللعالمین نے ہی دنیا کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنایا تھا۔
پس آج رحمۃ للعالمین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ از سر نو تقاضا کرتا ہے کہ تمام عالم رحمت و شفقت کے مضبوط بندھن میں بندھ جائے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلَی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ