(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۴؍ جولائی ۲۰۱۷ء)
بہت سی عورتیں مرد لکھتے ہیں اور ملیں، ملاقات کریں تب زبانی بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں اولاد ہونے والی ہے اس کے لئے دعا کریں۔ یا یہ کہ ہم اس پیدا ہونے والی اولاد کے لئے کیا دعا کریں۔ یا پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ ہماری اولاد ہے، بچے ہیں اور بچپن سے جوانی کی طرف بڑھ رہے ہیں، اس میں قدم رکھنے و الے ہیں، ان کی تربیت کی فکر رہتی ہے ان کے لئے کیا دعا کریں؟ کس طرح ان کی تربیت کریں کہ ہمارے بچے صحیح راستے پر اور نیکیوں پر قائم رہیں؟
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی اکثریت یہ سوچ رکھتی ہے اور ان کو یہ توجہ ہے یا کم از کم فکر ہے کہ کس طرح اپنے بچوں کی تربیت کرنی ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا ہم احمدیوں پر بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی وجہ سے ہماری سوچیں اس زمانے میں جبکہ دنیا کی خواہشات نے ہر ایک کو گھیرا ہوا ہے، یہ ہیں کہ ہم اپنی اولاد کے لئےصرف دنیا کی فکر نہیں کرتے بلکہ دین کی بہتری کا بھی خیال پیدا ہوتا رہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ہم مسلمانوں پر احسان فرمایا ہے بشرطیکہ مسلمان اس طرف توجہ دیتے ہوئے اس پر عمل کرنے والے ہوں کہ قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر بچوں کی پیدائش سے پہلے سے لے کر تربیت کے مختلف دَوروں میں سے جب بچہ گزرتا ہے تو اس کے لئے دعائیں بھی سکھائی ہیں اور تربیت کا طریق بھی بتایا ہے اور والدین کی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ اگر ہم یہ دعائیں کرنے والے اور اس طریق کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والے اور اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دینے والے ہوں تو ایک نیک نسل آگے بھیجنے والے بن سکتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کی تربیت کوئی آسان کام نہیں اور خاص طور پر اس زمانے میں جب قدم قدم پر شیطان کی پیدا کی ہوئی دلچسپیاں مختلف رنگ میں ہر روز ہمارے سامنے آ رہی ہوں تو یہ بہت مشکل کام ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جب دعائیں اور طریق بتائے ہیں تو اس لئے کہ اگر ہم چاہیں تو خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی شیطان کے حملوں سے بچا سکتے ہیں لیکن اس کے لئے مسلسل دعاؤں، اللہ تعالیٰ کی مدد اور محنت اور کوشش کی ضرورت ہے۔ ایک مسلسل جہاد کی ضرورت ہے۔ اور حقیقی مومن سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جُڑ کر اپنے آپ کو بھی اور اپنی اولاد کو بھی شیطان کے حملوں سے بچائے نہ کہ مایوس ہو جائے یا تھک جائے اور خوفزدہ ہو کر منفی سوچوں کو اپنے اوپر طاری کر لے۔
منفی سوچ کی ایک فکر انگیز مثال گزشتہ دنوں ایک خط میں میرے سامنے آئی جب ایک شخص نے لکھا کہ آج کل کی دنیا میں پیسے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ غیر اخلاقی سرگرمیوں کی انتہا ہوئی ہوئی ہے۔ منشیات کی نئی نئی قسمیں اور ان کا استعمال عام ہو رہا ہے۔ معاشرے کی عمومی بے راہ روی بڑھتی چلی جا رہی ہے لکھنے والا کہتا ہے کہ اس وجہ سے میں نے سوچا کہ شادی تو بیشک کروں یا شادی ہوئی ہوئی ہے تو بہتر یہی ہے کہ بے اولاد رہوں۔ اولادنہ ہو۔ یہ انتہائی مایوس کن سوچ ہے۔ گویا شیطان سے ہار مان کر اس کو تمام طاقتوں کا منبع اور حامل سمجھ کر یہ بات کی جا رہی ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ میں کوئی طاقت نہیں کہ اولاد کی تربیت کے لئے ہماری کوششوں میں، ہماری دعاؤں میں برکت ڈالے (نعوذ باللہ) اور ہماری اولاد کو اور ہمیں شیطان کے حملوں سے بچائے، چاہے جتنی بھی ہم کوشش کر لیں اور دعائیں کر لیں۔ گویا دوسرے لفظوں میں ہم شیطان کے چیلوں کو کھلی چھٹی دینے والے بن جائیں اور مومنین کی نسل آہستہ آہستہ ختم ہو جائے۔ یہ سوچ انتہائی خطرناک اور مایوس کُن سوچ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے والے کی ایسی سوچ نہیں ہوسکتی اور نہ ہونی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس انقلاب کے پیدا کرنے کے لئے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے اس کا حصہ بننے کے لئے ہم نے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کو استعمال کرنا ہے اور اپنی نسل میں بھی اس روح کو پھونکنا ہے۔ جو ہمارے مقاصد ہیں ان کے لئے دعائیں بھی کرنی ہیں۔ ان کی تربیت بھی کرنی ہے کہ معاشرے کے ان سب گندوں اور غلاظتوں کے باوجود ہم نے شیطان کو کامیاب نہیں ہونے دینا۔ اور دنیا میں خدا تعالیٰ کی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
پس مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں بلکہ ایک عزم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نیک اولاد کے لئے ہمیں قرآن کریم میں دعائیں سکھائی ہیں جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا۔
ایک جگہ حضرت زکریا علیہ السلام کے ذریعہ دعا سکھائی اور وہ دعا یہ ہے کہ رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۚ اِنَّکَ سَمِیۡعُ الدُّعَآءِ(آل عمران :39) اے میرے رب! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ ذریّت، اولاد عطا کر۔ یقیناً تُو بہت دعائیں سننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود یہ دعا سکھائی کہ مَیں دعائیں سننے والا ہوں۔ اس لئے تم بھی کہو کہ اے اللہ تُو دعا سننے والا ہے۔ اس لئے ہماری دعائیں قبول کر اور ہمیں پاک اولاد بخش۔
پس جب پاکیزہ اولاد کی خواہش ہو تو اس کے لئے دعا بھی ہونی چاہئے لیکن ساتھ ہی ماں باپ کو بھی ان پاکیزہ خیالات کا اور نیک اعمال کا حامل ہونا چاہئے جو نیکوں اور انبیاء کی صفت ہیں۔ ہر ماں اور باپ کو وہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض دفعہ مائیں دینی امور کی طرف توجہ دینے والی ہوتی ہیں، عبادات کرنے والی ہوتی ہیں تو مردنہیں ہوتے۔ بعض جگہ مرد ہیں تو عورتیں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہیں۔ اولاد کے نیک ہونے اور زمانے کے بد اثرات سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ اولاد کی خواہش اور اولاد کی پیدائش سے بھی پہلے مرد عورت دونوں نیکیوں پر عمل کرنے والے ہوں۔
قرآن کریم میں حضرت زکریا کے حوالے سے سورۃ الانبیاء میں اس دعا کا بھی ذکر ملتا ہے کہ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًاوَّاَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ(الانبیاء:90) کہ اے میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تُو سب وارثوں سے بہتر ہے۔ اس دعا میں بھی جب اللہ تعالیٰ کو خیر الوارثین کہا ہے تو واضح ہے کہ اولاد کی دعا صرف اس لئے نہیں کہ اولاد ہو جائے اور وارث پیدا ہو جائیں جو دنیاوی معاملات کے وارث ہوں بلکہ ایسے وارث اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوں جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے ہوں اور ظاہر ہے ایسی دعا وہی لوگ مانگ سکتے ہیں جو خود بھی دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے ہیں۔ اگر دنیا داری میں انسان ڈوبا ہوا ہے تو نیک وارث کس طرح مانگے گا۔ اگر کوئی عورت صرف اس لئے اولاد کی خواہش کر رہی ہے کہ عورت کا اولاد کی خواہش کرناایک فطری تقاضا ہے یا پھر بعض اوقات اس لئے خواہش کر رہی ہے کہ خاوند کی خواہش ہوتی ہے تو ایسی اولاد پھر بعض دفعہ ابتلا کا موجب بن جاتی ہے۔ اولاد کی خواہش بڑی جائز خواہش ہے لیکن ساتھ ہی نیک وارث پیدا ہونے کی بھی دعا کرنی چاہئے۔