انبیاء کا ایک بہت بڑا کام آزادی قائم کرنا ہے
اگر مذاہب کی تاریخ پر ہم نظر ڈالیں تو بانیانِ مذاہب یا انبیاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں جن اہم کاموں کے لئے آتے ہیں اُن میں سے ایک بہت بڑا اور اہم کام آزادی ہے۔ چاہے وہ ظالم بادشاہوں اور فرعونوں کی غلامی سے آزادی ہو یا مذہب کے بگڑنے کی وجہ سے یا مذہب کے نام پر مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے اپنے مفادات کی خاطر رسم و رواج یا مذہبی رسومات کے طوق گردنوں میں ڈالنے کی غلامی سے آزادی ہو۔ ہر قسم کی غلامی سے رہائی انبیاء کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔ لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ بہت سی قوموں نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا اور آزادی کے حقیقی عَلَم برداروں کا انکار کر کے نہ صرف اپنی حقیقی آزادی سے محروم ہوئے بلکہ خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آ کر تباہ و برباد بھی ہوئے۔ انہوں نے دنیاوی حاکموں کی غلامی کو احکم الحاکمین کی غلامی پر ترجیح دی۔ اُس غلامی پر ترجیح دی جس غلامی سے آزادیوں کے نئے باب کھلتے ہیں۔ پس آزادی کی ترجیحات بدلنے سے نہ صرف آزادی ہاتھ سے جاتی رہی بلکہ دنیا و آخرت بھی برباد ہو گئی۔ پس اگر آزادی کی حقیقت کی گہرائی میں جائیں تو اصل آزادی انبیاء کے ذریعہ سے ہی ملتی نظر آتی ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے سامنے جو آزادی کا سورج ہے، جس کی کرنیں دور دور تک پھیلی ہوئی اور ہر قسم کی آزادی کا احاطہ کئے ہوئے ہیں، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے جنہوں نے ظاہری غلامی سے بھی آزادی دلوائی اور مختلف قسم کے طوق جو انسان نے اپنی گردن میں ڈالے ہوئے تھے، اُن سے بھی آزاد کروایا۔ بلکہ آپؐ کے ساتھ حقیقی رنگ میں جڑنے سے آج بھی آپؐ کی ذات آزادی دلوانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین کے خطاب سے نوازا تو آپ کی خاتمیت تمام دینی و دنیاوی حالات کا احاطہ کرتے ہوئے اُس پر مہر ثبت کر گئی۔ پس اس میں کوئی شک نہیں اور اللہ تعالیٰ کی گواہی اور اعلان کے بعد کسی سعید فطرت کے ذہن میں یہ شک پیدا بھی نہیں ہو سکتا کہ صرف اور صرف مُہرِ محمدی ہی ہے جو تمام قسم کے کمالات پرمُہر ثبت کرنے والی ہے اور ان کمالات کی انتہا آپؐ کی ذات میں ہی پوری ہوتی ہے۔ پس جب ہر کام اور ہر معاملے کی انتہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو کسی بھی رنگ میں آزادی دلوانے کے کمالات بھی آپؐ کی ذات سے ہی پورے ہونے تھے اور ہوئے۔ اور ایک دنیا نے دیکھا کہ یہ کمالات بڑی شان سے آپؐ کے ذریعے پورے ہوئے یا پورے ہو رہے ہیں اور جو حقیقت میں آپ کے ساتھ جڑنے والے ہیں وہ اب تک اس کا نظارہ دیکھ رہے ہیں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍ نومبر ۲۰۱۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۱)