مکرم چودھری محمد اشرف باجوہ صاحب
خاکسار کے بڑے بھائی مکرم چودھری محمد اشرف باجوہ صاحب ابن مکرم چودھری سلطان علی صاحب مرحوم مورخہ ۲۵؍ فروری ۲۰۲۳ء کو مختصر علالت کے بعد بعمر ۸۷ سال گوپنگن سٹٹ گارٹ جرمنی(GOPPINGEN STUTTGART)میں مولائے حقیقی سے جا ملے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ چک نمبر ۳۷ جنوبی ضلع سرگودھا کے نامور زمیندار گھرانہ کے چشم وچراغ، نہایت مخلص، اطاعت گزار نظام جماعت احمدیہ کے کامل وفادار خلیفہ وقت کے سچے خادم جاںنثار پیدائشی احمدی تھے۔
آپ کے خاندان میں احمدیت کا پودا آپ کی دادی محترمہ حضرت حاکم بی بی صاحبہ کے ہاتھوں لگا جو حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی والدہ محترمہ کی خالہ زاد بہن تھیں اور آپ دونوں بہنوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیالکوٹ آمد پر دستی بیعت کا شرف حاصل کیا۔بعد میں اپنے خاوند چودھری حسین بخش صاحب کو قادیان لے کر گئیں جہاں چودھری حسین بخش صاحب نے ۱۹۰۴ءکے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دستی بیعت کی۔مرحوم محمد اشرف کے والد مکرم چودھری سلطان علی صاحب اس وقت ابھی گود میں تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سیالکوٹ میں اس بچے کے سر پر اپنا دست مبارک پھیر کر پیار دیا۔ مرحوم کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان کے دادا دادی اور نانا نانی صحابی تھے۔ محمد اشرف مرحوم اپنے والدین کے بےحد اطاعت گزار، خدمت کا حق ادا کرنے والے تھے۔اپنے بچوں کے رشتہ ناطہ کے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے ادا کیے، ان کی بہت عمدہ دینی تعلیم و تربیت کی۔ آپ کے بچے اللہ کے فضل سے دین کی خدمت میں اخلاص سے حصہ لیتے ہیں۔
مرحوم کے والد محترم چودھری سلطان علی صاحب علاقے کی بہت معزز شخصیت تھے۔ وہ صدر ایوب کے دور میں بھاری اکثریت سے بی ڈی ممبر منتخب ہوئے یہ ان کی شرافت غریب پروری اور اپنے ماحول میں دیانت اور باوقار باہمی میل و محبت کا ثمر تھا۔
مرحوم کئی سال تک اپنے علاقہ گوپنگن سٹٹ گارٹ میں زعیم انصار اللہ رہے اور بڑی لگن سے خدمات بجا لاتے۔ چندہ کی وصولی باقاعدگی سے کرتے اور مالی تحریکات میں ٹارگٹ سے بڑھ کر وصولی کرتے۔جماعتی عہدیداران اور مربیان کرام کی بہت عزت کرتے، خاص کر نو جوان مربیان کی بہت دلداری اور حوصلہ افزائی کرتے۔ میدان عمل میں نو وارد مربیان کا کہنا ہے کہ جب ہم ان کے ہاں دورہ پر جاتے تو ان کے شفقت بھرے حُسن سلوک سے ہمیں یوں لگتا جیسے بچہ باپ سے مل کر آرہاہے۔
بہت مہمان نواز اور اپنے پرائے سے بےحد محبت کا سلوک روا رکھتے۔ آپ کی بیگم صاحبہ کی اعلیٰ ظرفی اور دریا دلی کی بدولت آپ کا دستر خوان بڑا وسیع ہوا کرتا تھا۔جب تبلیغی میٹنگ کا پروگرام بنتا تو اس پر مہمانوں کی میزبانی اور ضیافت کی اجازت کے لیے سب سے پہلا ہاتھ آپ کا اٹھتا۔ اپنے گھر سے بڑے شوق سے طعام وغیرہ کا انتظام فرماتے۔ چرچ کے خواتین و حضرات گاہے بگاہے آپ کے گھر آتے تو ان کی پراٹھوں اور پاکستانی کھانوں سے خوب تواضع کرتے جس سے وہ بہت محظوظ ہوتے۔ اپنےاس تعلق کو بحال رکھتے اور انہیں تبلیغ اسلام کرتے۔
ایک دفعہ ہسپتال داخل تھے۔ علاج کے بعد ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی توان سے کہنے لگے کہ آپ نے مجھے فارغ کردیا ہے میرا تو ابھی آپ کو پاکستانی کھانا کھلانے کا پروگرام تھا۔ عملہ بہت حیران ہوا آپ کی اس خواہش پر ڈاکٹرز نے کہا کہ ہم آپ کو دو دن اور ہسپتال میں رکھ لیتے ہیں اس دوران آپ نے ان کے لیے گھر سے وافر مقدار میں بریانی وغیرہ پر مشتمل پُرتکلف کھانا بنوا کر پیش کیا جو تمام عملہ نے بہت خوش ہو کر کھایا اس کے بعد آپ کو ہسپتال سے فارغ کیاگیا۔
جلسہ سالانہ ربوہ ہوتا یا جرمنی بحالت صحت ضرور شرکت کرتے۔ خلافت ثالثہ کے بابرکت دور میں آپ کو حضرت مرزا طاہراحمد صاحبؒ کے ساتھ جلسہ سالانہ پر ڈیوٹی دینے کی سعادت نصیب ہوئی۔اس وقت مہمانوں کی قیام گاہ پر بستر وغیرہ مہیا کرنے کے مرحلے بھی آجایا کرتے جو مختلف گھروں سے ہنگامی حالت میں اکٹھے کیے جاتے ان کی واپسی پر گھر والوں کو بعض دفعہ شکایت ہوتی کہ ان کے بستر یا تو تبدیل ہوگئے ہیں یا کچھ چیزیں کم واپس ہوئی ہیں۔اس پر ایک سال حضرت میاں صاحب نے یہ خدمت آپ کے سپرد کی۔ آپ نے نہایت حسن عمل سے اس خدمت کو انجام دیا اور اس سال کسی گھرسے اشیا کی تبدیلی یا گمشدگی کی شکایت موصول نہ ہوئی۔اس پر حضرت میاں صاحب نے دریافت فرمایا کہ آپ نے اس کا کیسے بندوبست کیا ہے یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اس شعبہ میں کوئی شکایت نہیں ملی۔ اس پر آپ نے بتایا کہ میں ہر اہل خانہ سے چیزوں کی لسٹ تیار کر کے دستخط لے لیتا اور واپسی پر بھی دستخط لے لیتا تھا۔اس طرح شکایت کی کوئی گنجائش باقی نہ رہتی۔اس پر حضرت میاں صاحب نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور آئندہ کےلیے جب تک یہ خدمت آپ کے سپرد رہی آپ نے بشاشت سے سر انجام دی۔
مرحوم نے بیوہ، چار بیٹیاں اور دو بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ ایک بیٹی کینیڈا میں اور باقی تمام بچے جرمنی میں مقیم ہیں۔سب بچے اپنے گھروں میں خوش وخرم آباد ہیں۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور درجات بلند فرمائے ۔
تما م احباب جنہوں نے اِس غم کی گھڑی میں ہمارے ساتھ ہمدردی کا اظہار فرمایا اور ہماری دلجوئی کی ہم تمام اہل خانہ ان کے تہ دل سے شکر گزار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے گھروں کو اپنی رحمت کے سایہ تلے رکھے۔آمین
اے جانے والے تیرے پر ہزاروں رحمتیں۔ آمین
بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تُو جاں فدا کر