خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب (فرمودہ ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء بمقام مسجد بیت الاکرام، Dallas، ٹیکساس، یوایس اے)
سوال نمبر۱ : حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمسجدکی تعمیرمیں حصہ لینے والوں کےحوالہ سےکیابیان فرمایا؟
جواب :فرمایا:اللہ تعالیٰ ان سب کو اس مسجد کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ مسجد آپ نے خالصةً اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے بنائی ہو اور آنحضرتﷺ کے اس ارشاد سے فیض پانے والے ہوں جس میں آپﷺ نے فرمایا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے مسجد بنائی اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لیے ویسا ہی گھر بنائے گا۔اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بنائی ہوئی مسجد کا کام مسجد کی تعمیر کے بعد ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا انسان تبھی حامل بنتا ہے جب اس کے حکموں پر چلنے والا ہو،اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والا ہو، حقوق العباد ادا کرنے والا ہو،وفا اوراخلاص سے دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا ہو، اپنی بیعت کا حق ادا کرنے والا ہو۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں آنے والوں کو کن ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی؟
جواب: فرمایا: ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو ماننا اور آپؑ کی بیعت میں آنا ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے۔ ہمارا کام آپؑ کی بیعت میں آ کر ختم نہیں ہو گیا بلکہ پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ تبھی ہم ان انعامات کے وارث ٹھہریں گے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ سے کیا ہے۔ پس اپنی ذمہ داریوں کو ہم میں سے ہر ایک کو سمجھنا ہو گا۔ اس مسجد کو آباد رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ آپس میں پیارو محبت سے رہنا ہماری ذمہ داری ہے۔ رواداری اور بھائی چارے کے پیغام کو دنیا میں پھیلانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پیغام دنیا کو دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ مسلسل دعاؤں سے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ اپنی نسلوں کی اصلاح کی فکر کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ تبھی ہم مسجد کا حق بھی ادا کر سکیں گے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک موقع پر فرمایا کہ جہاں اسلام کا تعارف کروانا ہو وہاں مسجد بنا دو… مسجد سے تعارف ہمسایوں کو بھی ہو گا اور یہاں سڑک پر سے گزرنے والوں کو بھی ہو گا اور یہ جو تعارف کا راستہ کھلا ہے اس سے آپ کے تبلیغ کے راستے بھی کھلیں گے۔ پس ہر احمدی کو اسلام کی تعلیم کا نمونہ بھی بننا پڑے گا اور بننا چاہیے۔ دنیا کو ایک واضح فرق نظر آنا چاہیے کہ اس دنیا دار معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے کام کرتے ہوئے پھر دین کو دنیا پر مقدم کرنےو الے بھی ہیں اور اپنے پیدا کرنے والے قادر و توانا خدا سے تعلق رکھنے والے بھی ہیں اور مخلوق کی ہمدردی کرنے والے بھی ہیں اور مخلوق کے کام آنے والے بھی ہیں۔ جب یہ چیز دنیا دار دیکھتے ہیں تو ان میں تجسس پیدا ہوتا ہے اور پھر یہی اسلام کی تبلیغ کے راستے کھولتا ہے۔ پس اب ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر اسلام کی تعلیم کی عملی تصویر بننے کی ضرورت ہے۔
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےانصاف قائم کرنے کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انصاف قائم کرو اور انصاف کرنے کے بارے میں دوسری جگہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں انصاف سے دور نہ کرے۔ اب یہ معیار جو انصاف کا قائم کرنے والا ہے وہ کسی دوسرے کے متعلق غلط سوچ رکھ ہی نہیں سکتا۔ کسی کو نقصان پہنچانے کا تو سوال ہی نہیں۔ ایسا شخص تو موقع تلاش کرے گا کہ میں کس طرح دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہوں اور ایسے حقوق قائم کرنے والا جب انسان ہو تو یقیناً ماحول پر ایک نیک اثر ڈالتا ہے اور یہی نیک اثر پھر تبلیغ کے راستے کھولتا ہے۔پس اللہ تعالیٰ نے حقیقی مومنوں کو، مسجد میں آنے والوں کو مسجد کے حوالے سے پہلی نصیحت یہ فرمائی کہ حقوق العباد کی ادائیگی کے سامان کرو اور اس کے لیے سب سے اہم چیز انصاف قائم کرنا ہے۔ اب جہاں اللہ تعالیٰ غیروں اور دشمنوں سے بھی انصاف قائم کرنے کا حکم دے رہا ہے تو اپنوں سے کس قدر پیارو محبت سے ہمیں رہنا چاہیے اور جب یہ حالت ہوتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر بھی ایسے لوگوں پر پڑتی ہے۔جب یہ لوگ مسجد میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے داخل ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی عبادت کو قبول فرماتا ہے لیکن اگر ایک شخص اپنے گھر میں اپنی بیوی سے نیک سلوک نہیں کر رہا، ہر وقت اسے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا ہوا ہے، بچے اس سے علیحدہ خوف زدہ ہیں اور پھر وہ اپنے عمل سے بچوں کو دین سے دُوری کا باعث بھی بن رہا ہے تو پھر ایسے شخص کے نہ ہی جماعتی کام اور نہ ہی عبادتیں اللہ تعالیٰ کے حضور قابل قبول ہوتے ہیں۔ اس دو عملی کی وجہ سے دھوکا ہے جو انسان کسی اَور کو نہیں دے رہا ہوتا بلکہ اپنے آپ کو دے رہا ہوتا ہے۔پس حقیقی مومن وہی ہے جو اندر اور باہر انصاف قائم کرنے والا ہے، جس کا قول و فعل اندر اور باہر ایک جیسا ہے اور یہی لوگ وہ ہیں جو حقیقت میں مسجد کی آبادی کا حق ادا کرنے والے ہیں کیونکہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی خشیت سے پُر ہیں۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے پاکستان میں احمدیوں کی مساجدگرانےاورمسلمانوں کے زوال کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: احمدیوں کی مسجدوں کو آج کل پاکستان میں تو گرانے کا بھی زور ہے اس لیے کہ احمدیوں کی مساجد کی ہماری مسجدوں جیسی شکل نہ ہو،ان کے منارے نہ ہوں، ان کی محرابیں نہ ہوں ،لیکن عبادالرحمٰن اُن میں نہیں پیداہوئے۔ اسی بات کو یہ فخر سمجھتے ہیں کہ ہم احمدیوں پر ظلم کر رہے ہیں یا ان کے زعم میں ان کو صحیح راستے پر چلانے کی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہرحال پہلے زمانے میں بھی یہ زوال ہوا، اسی لیے ہوا کہ مسجدوں کی آبادی ظاہری تھی۔ خال خال بعض جگہوں پر حقیقی مسلمان بھی نظر آتے تھے لیکن عمومی طور پر زوال تھا۔بہرحال یہ سب کچھ ہونا تھا اور آنحضرتﷺ نے اس بارے میں آگاہ فرما دیا تھا لیکن اس ظلمت کے زمانے کے بعد جو روشنی کا زمانہ مسیح موعودؑ کی آمد سے آیا اور آنحضرتﷺ کے جس غلامِ صادق کی ہم نے بیعت کی توفیق پائی ہے اس عہد کے ساتھ کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اور قرآنِ کریم کے حکموں پر چلیں گے تو ہمیں پھر جیساکہ میں نے کہا بہت توجہ اپنی حالتوں پر دینی ہو گی۔ ان غیروں جیسی مسجدوں کی حالت سے اپنی مسجدوں کو بچانا ہو گا جس کے بارے میں حضرت علیؓ سے ایک روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اس زمانے کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے۔ ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور انہی میں لوٹ جائیں گے۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےایک نوجوان کاسوال کہ’’ہم اُن لوگوں کامقابلہ کس طرح کرسکتے ہیں جوہمارامذاق اڑاتے ہیں‘‘کاکیاجواب بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:ایک نوجوان نے سوال کیا کہ کس طرح ہم ان لوگوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں جو لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں؟ اسے بھی میں نے یہی کہا تھا کہ اعتماد پیدا کرو اور اس یقین پر قائم رہو کہ آج دنیا کی بقا ہمارے ہاتھوں میں ہے کیونکہ ہم اس مسیح موعودؑ اور آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق کے ماننے والے ہیں جو دنیا کو زندگی دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے، جو آنحضرتﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کے پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اور اب اس کے ساتھ جڑنے سے ہی دنیا و آخرت سنور سکتے ہیں۔ دنیا والوں کو بتائیں کہ تم اس دنیا کی چمک دمک اور ترقیات پر خوش نہ ہو جاؤ۔ مرنے کے بعد کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہے اور وہاں اگر انسان خالی ہاتھ جائے پھر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سامنا کرنا ہو گا اور پھر وہ کیا سلوک کرتا ہے وہ بہتر جانتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہمیں ہمیشہ اس بات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ جب ہم دنیا کو اس تفصیل سے ہوشیار کریں گے تو ہمارا اپنا ہر قول و فعل اس تعلیم کے مطابق ہو، ہماری عبادتوں کے معیار بلند ہوں اور ہمارے حقوق العباد کے معیار بلند ہوں۔ بہرحال حضرت مسیح موعودؐ نے پھر اسی بارے میں مسلمانوں اور اسلام کا نقشہ کھینچتے ہوئے مزید فرمایا کہ’’اس وقت اسلام جس چیز کا نام ہے اس میں فرق آگیا ہے۔ تمام اخلاق ذمیمہ بھر گئے ہیں۔‘‘ یعنی اعلیٰ اخلاق کی تو کوئی حالت نہیں رہی۔’’اور وہ اخلاص جس کا ذکر مُخْلِصِینَ لَهُ الدِّینَ میں ہوا ہے آسمان پر اٹھ گیا ہے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ صدق، وفاداری، اخلاص، محبت اور خدا پر توکل کالعدم ہو گئے ہیں۔ اب خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ پھر نئے سرے سے ان قوتوں کو زندہ کرے۔‘‘
سوال نمبر۶:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےنیکیاں اختیارکرنےاوربرائیوں کودورکرنے کے حوالہ سےکن امورکے جائزےلینےکی طرف توجہ دلائی؟
جواب: فرمایا:حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:اب یہ زمانہ ہے کہ اس میں ریا کاری، عجب اور تکبر کی ایک قسم ہے خود بینی اپنے آپ کو ہی سب کچھ سمجھنا۔ تکبر، نخوت، رعونت وغیرہ صفات رذیلہ توترقی کر گئے ہیں اور مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ وغیرہ صفاتِ حسنہ جو تھے وہ آسمان پر اٹھ گئے ہیں۔توکل، تدبیر وغیرہ سب کالعدم ہیں۔ اب خدا کا ارادہ ہے کہ ان کی تخم ریزی ہو۔پس آپؑ نے فرمایا یہ سب برائیاں تو اب بڑھ گئی ہیں اور نیکیاں ختم ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جو اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے وہ بندوں کو ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اس نے اب یہ ارادہ کر لیا ہے کہ نیکیاں ترقی کریں اور برائیاں ختم ہوں۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو جائزہ لینا چاہیے کہ کیا حضرت مسیح موعودؑ کے اس مشن کو پورا کرنے کے لیے ہم اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟ کیا برائیوں کے خاتمے کے لیے بھرپور کوشش کرر ہے ہیں؟ کیا نیکیوں کے اپنانے کے لیے بھرپور کوشش ہو رہی ہے؟ کیا عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کی ہم بھرپور کوشش کر رہے ہیں؟ نیکیاں کرنے کی توفیق بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ملتی ہے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کے لیے بھرپور کوشش نہیں کر رہے جو عبادت سے حاصل ہوتی ہے ایسی عبادت جو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو نہ کہ صرف اپنی خواہشات کی تسکین اور تکمیل کے لیے تو پھر ہماری کوششیں بےکار ہیں یا ان باتوں کے حصول کی خواہش بےکار ہے۔پس بہت گہرائی سے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ بہت زیادہ استغفار کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اعمال مسلسل اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق بجا لانے کی ضرورت ہے۔
سوال نمبر۷: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مسیح موعودؑ نےفرمایا ہے’’میں اس لئے بار بار اس امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے اور یہی بات ہے جس سے وہ دُور پڑا ہوا ہے۔‘‘ فرمایا ’’میں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو۔ بیوی بچوں سے الگ ہو کر کسی جنگل یا پہاڑ پر جا بیٹھو۔ اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا‘‘دنیاکے کاروبار بھی کرو، بیوی بچوں کے حق بھی ادا کرو یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ فرمایا ’’اور رہبانیت اسلام کا منشاء نہیں۔ اسلام تو انسان کو چست اور ہوشیار اور مستعد بنانا چاہتا ہے اس لئے میں تو یہ کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جدوجہد سے کرو۔حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو اور وہ اس کا تردّد نہ کرے تو اس سے مؤاخذہ ہو گا۔ پس اگر کوئی اس سے مراد یہ لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہو جائے وہ غلطی کرتا ہے۔ نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کاروبار جو تم کرتے ہو اس میں دیکھ لو کہ خداتعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور اس کے ارادہ سے باہر نکل کر اپنی اغراض و جذبات کو مقدم نہ کرو۔‘‘