نیکی اور تقویٰ میں ہمیشہ تمہارا تعاون رہے
یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے کہ اس میں پہلے یہ بیان کرکے کہ دشمن کی زیادتی اور دشمنی بھی تمہیں کسی قسم کی زیادتی پر آمادہ نہ کرے، پھر فرمایا کہ نیکی اور تقویٰ میں ہمیشہ تمہارا تعاون رہے۔ اصل تقویٰ تو ایک مومن کے اندر ہے اور ہونا چاہئے۔ پس نیکی کے کاموں میں تقویٰ سے کام لیتے ہوئے تعاون ہمیشہ جاری رہنا چاہئے اور تقویٰ ہی ہے جو پھرمزید نیکیوں کے بیج بوتا چلا جاتا ہے۔ اگر کوئی چیز ایک مومن کو بار بار دوہرانے کی ضرورت ہے اور دوہرانی چاہئے تو وہ نیکیوں کی طرف توجہ اور نیکیوں کا فروغ ہے۔ اور اگر کسی چیز سے بچنا ہے تو وہ گناہ اور زیادتی ہے۔ ایک مومن کی شان نہیں کہ اِثْم اس سے سرزد ہو۔ ایسا گناہ سرزد ہو جو جان بوجھ کر کیا جائے۔ جو زیادتی کرنے والوں سے زیادتی کرواتا چلا جائے۔ زیادتی کرنے والوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ مَیں کیا کررہا ہوں۔ وہ ظلموں کی انتہا کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اِثْم اور عُدْوَان یا بار بار کئے جانے والے گناہ اور زیادتی سے نہیں رکو گے تو یاد رکھو اللہ تعالیٰ سزا دینے میں بڑا سخت ہے۔ ایسی خوبصورت تعلیم ہوتے ہوئے پھر یہ الزام اسلام پر لگایا جاتا ہے کہ ظلم و زیادتی سے اسلام پھیلا ہے اور اسلام زیادتی کرتا ہے اور ظلم کرتا ہے اور آئے دن کہیں نہ کہیں ان ملکوں میں اسلام کے خلاف کچھ نہ کچھ شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔ لیکن آج کل اگر ہم دیکھیں تو مغرب میں کیا ہورہا ہے۔ عراق وغیرہ پر یا بعض اور ملکوں میں جو ظلم کئے جارہے ہیں، عراق کے ظلموں کا حال تو ہم نے سن لیا جو پبلک انکوائری ہورہی ہے اس میں بہت ساروں نے تسلیم کیا کہ یہ ظلم تھا اور ہے لیکن ظلم کے باوجود بعض ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ بالکل ٹھیک ہوا ہے اور ہونا چاہئے تھا۔ لیکن اسلام کہتا ہے کہ نہیں، تقویٰ کا یہ کام نہیں۔ جہاں تمہاری غلطی ہے اس غلطی کو مانو اور جہاں صلح صفائی کی ضرورت ہے یا نیک کاموں میں بڑھنے کی ضرورت ہے وہاں تقویٰ سے کام لیتے ہوئے نیکیوں کو پھیلاوٴ۔ زیادتیوں سے اپنے آپ کو روکو اور اگر یہ نہیں ہوگا تو پھر یہ چیز اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایک مومن کو سزا کا مستحق بناتی ہے۔جب غیروں کو اس قدر تاکید ہے تو اپنوں سے حسن سلوک کس قدر ہونا چاہئے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۵؍ فروری ۲۰۱۰ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۶؍ فروری ۲۰۱۰ء )