اپنے کمزور بھائیوں کی مدد کرنا بھی نیکی ہے
یہ دستور ہونا چاہئے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور اُن کو طاقت دی جاوے۔ یہ کس قدر نامناسب بات ہے کہ دو بھائی ہیں ایک تیرنا جانتا ہے اور دوسرا نہیں تو کیا پہلے کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ دوسرے کو ڈوبنے سے بچاوے یا اس کو ڈوبنے دے۔ اس کا فرض ہے کہ اس کو غرق ہونے سے بچائے۔ اسی لئے قرآن شریف میں آیا ہےتَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَالتَّقۡوٰی(المائدہ:۳) کمزور بھائیوں کا بار اٹھاوٴ۔ عملی، ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جاوٴ۔ بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو۔ کوئی جماعت، جماعت نہیں ہوسکتی جب تک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے اور اس کی یہی صورت ہے کہ اُن کی پردہ پوشی کی جاوے۔ صحابہ کو یہی تعلیم ہوئی کہ نئے مسلموں کی کمزوریاں دیکھ کر نہ چڑو ،کیونکہ تم بھی ایسے ہی کمزور تھے۔ اسی طرح یہ ضرور ی ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت ملائمت کے ساتھ برتاوٴ کرے۔
دیکھو! وہ جماعت، جماعت نہیں ہوسکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جب چار مل کر بیٹھیں تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں اور ان کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھیں۔ ایسا ہرگز نہیں چاہئے بلکہ اجماع میں چاہئے کہ قوت آجاوے اور وحدت پیدا ہو جاوے جس سے محبت آتی ہے اور برکات پیدا ہوتے ہیں…کیوں نہیں کیا جاتا کہ اخلاقی قوتوں کو وسیع کیا جاوے اور یہ تب ہوتا ہے کہ جب ہمدردی، محبت اور عفو اور کرم کو عام کیا جاوے اور تمام عادتوں پر رحم، ہمدردی اورپردہ پوشی کو مقدم کرلیا جاوے۔ ذرا ذرا سی بات پر ایسی سخت گرفتیں نہیں ہونی چاہئیں جو دل شکنی اور رنج کا موجب ہوتی ہیں… جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرے۔ پردہ پوشی کی جاوے۔ جب یہ حالت پیدا ہو تب ایک وجود ہو کر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں… خداتعالیٰ نے صحابہ کو بھی یہی طریق و نعمت اخوت یاددلائی ہے۔ اگر وہ سونے کے پہاڑ بھی خرچ کرتے تو وہ اخوت ان کو نہ ملتی جو رسول اللہ ﷺکے ذریعہ ان کو ملی۔ اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اسی قسم کی اخوت وہ یہاں قائم کرے گا۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۲۶۳-۲۶۵، ایڈیشن۱۹۸۸ء)
جو کام دو ہاتھ کے ملنے سے ہونا چاہیے وہ محض ایک ہی ہاتھ سے انجام نہیں ہوسکتا اور جس راہ کو دو پاوٴں مل کر طے کرتے ہیں وہ فقط ایک ہی پاوٴں سے طے نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح تمام کامیابی ہماری معاشرت اور آخرت کے تعاون پر ہی موقوف ہورہی ہے۔ کیا کوئی اکیلا انسان کسی کام دین یا دنیا کو انجام دے سکتا ہے؟ ہر گز نہیں! کوئی کام دینی ہو یا دنیوی بغیر معاونت باہمی کے چل ہی نہیں سکتا۔ ہر یک گروہ کہ جس کا مدعا اور مقصد ایک ہی مثل اعضائے یک دیگر ہے اور ممکن نہیں جو کوئی فعل جو متعلق غرض مشترک اس گروہ کے ہے بغیر معاونت باہمی ان کی کے بخوبی و خوش اسلوبی ہوسکے… انبیاء علیہم السلام جو توکل اور تفویض اور تحمل اور مجاہدات افعال خیر میں سب سے بڑھ کر ہیں ان کو بھی بہ رعایت اسباب ظاہری مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ (آل عمران:۵۳ اور الصف:۱۵) کہنا پڑا۔ خدا نے بھی اپنے قانون تشریعی میں بہ تصدیق اپنے قانون قدرت کے تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَالتَّقۡوٰیکا حکم فرمایا۔
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۵۱ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد ۴ صفحہ ۳)