جنگ بدر کے لیے تیاری اور روانگی کا تذکرہ: خلاصہ خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ فرمودہ ۱۶؍ جون ۲۰۲۳ء
٭… کفارِ مکہ کا لشکر بڑے جوش و خروش کے ساتھ روانہ ہوا۔ لشکر کي تعداد ايک ہزار تھي
٭… ابو سفيان کے پيغام پر بنو عدي اور بنو زہرہ واپس چلے گئے اور جنگ ميں شامل نہ ہوئے
٭… رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم ۱۲؍ رمضان ۲ ہجري کو مدينے سے روانہ ہوئے۔ آپؐ کے ساتھ تين سو سے کچھ اوپر اصحاب تھے، اکثر روايات ميں مسلمانوں کي تعداد تين سو تيرہ بيان ہوئي ہے
٭… حضرت عمر رضي اللہ عنہ کے دورِ خلافت ميں ام ورقہ کو ان کے غلام اور لونڈي نے قتل کيا اور يوں حضور صلي اللہ عليہ وسلم کي پيش گوئي کے مطابق انہيں شہادت عطا ہوئي
٭… مکرم شيخ غلام رحماني صاحب آف يوکے کا جنازہ حاضر نیز مکرم Tahir AG Hama صاحب آف مہدي آباد ڈوري برکينا فاسو، مکرم خواجہ داؤد احمد صاحب کینیڈا اور مکرم رانا محمد ظفر اللہ خان صاحب مربي سلسلہ کا ذکر خیراور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۶؍جون۲۰۲۳ء بمطابق۱۶؍احسان۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۶؍جون ۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں براہ راست ٹیلی کاسٹ کيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت فیروز عالم صاحب(مربی سلسلہ)کے حصے ميں آئي۔
تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
کفارِ مکّہ کی جنگ کی تیاری کے کچھ حالات بیان ہوئے تھے۔ اس بارے میں مزید تفصیل اس طرح ہے۔امیہ بن خلف اور ابولہب نے جنگ میں شرکت سے کچھ گریز کرنا چاہا۔ چنانچہ ابوجہل امیہ بن خلف کے پاس آیا اور کہا کہ
تم قریش کے سرداروں میں سے ہو اگر تم جنگ میں شریک نہ ہوئے تو لوگ بھی پیچھے ہٹ جائیں گے اس لیے تم ہمارے ساتھ ضرور چلو، بےشک ایک دو روز کی مسافت کے بعد واپس آجانا۔
دراصل امیہ جنگ پر جانے سے اس لیے گریز پا تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیہ کی ہلاکت کی پیش گوئی کر رکھی تھی۔ اس کا تفصیلی ذکر صحیح بخاری میں ملتا ہے۔
ابولہب نے اپنی جگہ ایک دوسرے آدمی کو روانہ کیا تھا۔ اس کے نہ جانے کی وجہ عاتکہ بنت عبد المطلب کا خواب تھا۔ ابو لہب کہا کرتا کہ عاتکہ کا خواب ایسے ہے جیسے کسی شخص کے ہاتھ میں کوئی شئے دے دی جائے۔
کفارِ مکہ کا لشکر بڑے جوش و خروش کے ساتھ روانہ ہوا۔ لشکر کی تعداد ایک ہزار تھی۔ ان کے پاس ایک سو یا بعض کے نزدیک دو سو گھوڑے، سات سو اونٹ، چھ سو زرہیں اور دیگر سامانِ جنگ مثلاً نیزے، تلواریں اور تیر کمانیں بڑی تعداد میں تھے۔
اہلِ قریش مکّے سے نکل کر جحفہ میں اترے جو مدینے کی جانب بیاسی میل کے فاصلے پر ہے۔ یہاں ایک شخص جحیم بن صلت نے لوگوں سے اپنا ایک خواب بیان کیا جس میں اس نے یہ منظر دیکھا تھا کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار آیا اور اس کے ساتھ ایک اونٹ بھی تھا اور اس نے کہا کہ عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو الحکم بن ہشام یعنی ابو جہل، امیہ بن خلف اور فلاں فلاں سردارانِ قریش قتل ہوگئے۔ پھر اس نے اپنے اونٹ کی گردن میں نیزہ مار کر ہمارے خیموں کی طرف اسے چھوڑ دیا۔ چنانچہ اس اونٹ کا خون ہمارے لشکر کے ہر خیمے کو لگا۔ یہ خواب جب ابوجہل نے سنا تو وہ تمسخر اور غصے سے کہنے لگا کہ بنو عبدالمطلب میں یہ ایک اَور نبی پیدا ہوگیا ہے۔ کل اگر ہم نے جنگ کی تو خوب پتا چل جائے گا کہ کون قتل ہوتا ہے۔
ابو سفیان نے بھی ابوجہل کو یہ پیغام بھجوایا تھا کہ جنگ سے بچنے کی کوشش کرو۔
ابو سفیان کا یہ پیغام سن کر ابوجہل نے کہا کہ بخدا! ہم بدر تک ضرور جائیں گے اور وہاں اپنے اونٹ ذبح کریں گے، شرابیں پیئیں گے، ہماری کنیزیں ہمارے سامنے گیت گائیں گی۔ اس طرح سارے عرب میں ہمارے سفر اور لشکر کی خبر پہنچ جائے گی اور وہ ہمیشہ ہم سے خوف زدہ رہیں گے۔
ابو سفیان کے اس پیغام پر بنو عدی اور بنو زہرہ واپس چلے گئے اور جنگ میں شامل نہ ہوئے۔ ابو طالب کے بیٹے طالب بھی کفار کے ساتھ تھے، راستے میں کفار نے انہیں کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ تم ہمارے ساتھ آ تو گئے ہو لیکن تمہاری اصل ہمدردیاں محمد کے ساتھ ہیں۔ اس پر طالب اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ واپس چلے آئے۔ طبری کے ایک حوالے میں یہ ذکر بھی ہے کہ طالب جبراً کفارِ مکّہ کے ساتھ نکلے تھے لیکن ان کا ذکر مقتولین یا قیدیوں میں نہیں ملتا، اسی طرح وہ گھر بھی واپس نہ پہنچے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲؍ رمضان ۲ ہجری کو مدینے سے روانہ ہوئے۔ آپ کے ساتھ تین سو سے کچھ اوپر اصحاب تھے، اکثر روایات میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ بیان ہوئی ہے۔ ان میں ۷۴ مہاجرین اور باقی انصار تھے۔ یہ پہلا غزوہ تھا جس میں انصار بھی شامل ہوئے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں رکنے کا حکم دیا کیونکہ ان کی زوجہ حضرت رقیہ بنت رسول اللہ بیمار تھیں۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے لیے روانہ ہونے لگے تو ایک خاتون ام ورقہ بنت نوفل نے عرض کیا کہ مجھے بھی جہاد پر جانے کی اجازت دیں۔ میں آپ کے ساتھ بیماروں کی تیمارداری کروں گی۔ شاید اللہ تعالیٰ مجھے بھی شہادت عطا فرمائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے گھر پر رہو اللہ تعالیٰ تمہیں شہادت عطا کرے گا۔
چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ام ورقہ کو ان کے غلام اور لونڈی نے قتل کیا اور یوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق انہیں شہادت عطا ہوئی۔
اس جنگ میں مسلمانوں کے پاس پانچ یا بعض روایات کے مطابق دو گھوڑے تھے۔ ساٹھ زرہیں تھیں، ستّر یا اسّی اونٹ تھے۔ صحابہ کرام ؓکے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی کہ اے اللہ! یہ ننگے پاؤں ہیں انہیں سواریاں عطا فرما۔ یہ ننگے بدن ہیں انہیں لباس عطا فرما۔ یہ بھوکے ہیں انہیں سیر کردے۔ یہ تنگ دست ہیں انہیں اپنے فضل سے غنی کردے۔ چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی اور جنگ کے اختتام پر کوئی بھی ایسا نہ تھا کہ جسے سواری میسر نہ ہو۔ سامانِ رسد اتنا تھا کہ کھانے پینے کی کوئی تنگی نہ رہی، بے لباسوں کو لباس عطا ہوئے۔ جنگی قیدیوں کی رہائی کا اتنا معاوضہ ملا کہ ہر خاندان دولت مند ہوگیا۔
حضرت عثمانؓ کے علاوہ بھی بعض مخلصین ایسے تھے جنہیں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ پر جانے کی اجازت نہ دی۔ ان میں حضرت ابو امامہ بن ثعلبہ کی والدہ بیمار تھیں، حضرت سعد بن عبادہ جو دوسروں کو جنگ کی تیاری کروا رہے تھے، انہیں سانپ نے ڈس لیا اور وہ جنگ پر نہ جاسکے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں کم عمر مجاہدین کو واپسی کا حکم فرمایا۔ ان میں عمیر بن ابی وقاص بھی شامل تھے۔ وہ واپسی کا حکم سن کر رونے لگے، اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت عنایت فرمائی۔ چنانچہ وہ جنگ میں شامل ہوئے اور جامِ شہادت نوش فرمایا۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں
آج وہ زمانہ آیا ہے کہ لوگ اسلام اور ایمان کے لیے قربانی سے بچنے کے لیے عذر اور بہانے تلاش کرتے ہیں اور وقت آنے پر کہتے ہیں کہ ہمیں یہ دقّت ہے اور وہ روک ہے۔
لیکن رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ کے ماتحت مسلمانوں میں قربانی کا وہ جذبہ پیدا ہوچکا تھا کہ مرد اور بالغ عورتیں تو الگ رہیں بچے بھی اس جذبے سے سرشار نظر آتے تھے۔
اس سفر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے عبداللہ بن ام مکتوم کو مدینے کا امیر مقرر فرمایا۔ لیکن راستے میں اس خیال سے کہ عبداللہ ایک نابینا آدمی ہیں اور مدینے کا انتظام مضبوط رہنا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو لبابہ بن منذر کو مدینے کا امیر مقرر کرکے واپس بھجوا دیا۔ اسی طرح قبا کے لیے عاصم بن عدی کو امیر مقرر فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی لشکر کا جھنڈا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا۔ یہ جھنڈا سفید رنگ کا تھا۔ اس کے علاوہ دو سیاہ پرچم بھی تھے جن میں سے ایک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔ یہ جھنڈا حضرت عائشہ ؓکی اوڑھنی سے بنایا گیا تھا۔ جبکہ دوسرا سیاہ جھنڈا ایک انصاری صحابی کے پاس تھا۔ ایک روایت کے مطابق اسلامی لشکر کے پاس تین جھنڈے تھے۔ مہاجرین کا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر کے پاس، قبیلہ خزرج کا جھنڈا حضرت حباب بن منذر کے پاس جبکہ قبیلہ اوس کا جھنڈا حضرت سعد بن معاذ کے پاس تھا۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے باقی تفصیل آئندہ بیان ہونے کا ارشاد فرمانے کے بعد درج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ پڑھانے کا اعلان فرمایا۔
۱۔ مکرم شیخ غلام رحمانی صاحب آف یوکے۔ آپ گذشتہ دنوں ۹۲ سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کا جنازہ حاضر تھا۔ آپ ۱۹۵۸ء میں یوکے آئے تھے۔ نیشنل جنرل سیکرٹری، نیشنل سیکرٹری وصایا اور دس سال سے زائد عرصہ تک صدر جماعت ساؤتھ آل کے طور پر خدمت کا موقع ملا۔ لوکل مشن ہاؤس کے قیام اور استحکام کے لیے مرحوم کو بڑی کوشش کی توفیق ملی۔حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ خوبی میں نے ان کی بہت دیکھی کہ عاجزی اور خلافت سے وفا کے تعلق میں بہت بڑھے ہوئے تھے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں۔
۲۔ مکرم Tahir AG Hamaصاحب آف مہدی آباد ڈوری برکینا فاسو۔ یہ گذشتہ دنوں ۴۴ سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم عمدہ فرینچ جانتے تھے۔ تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ سلائی کا کام کیا کرتے اور عید الفطر پر شہدائے برکینا فاسو کی فیملیز کے لیے بڑے کم وقت میں مرحوم اور ان کی اہلیہ نے ستّر سے زائد جوڑے سی کر دیے تھے۔
۳۔مکرم خواجہ داؤد احمد صاحب ۲۵؍ مئی کو ۸۰سال کی عمر میں فوت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کے ایک بیٹے خواجہ فہد احمد صاحب مربی سلسلہ ہیں جو میدانِ عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنے والد کے جنازے میں شامل نہیں ہوسکے۔ مرحوم پیشے کے اعتبار سے سول انجینئر تھے۔ اسلام آباد پاکستان اور پھر کینیڈا میں بھی مختلف خدمات کی توفیق ملی۔
۴۔مکرم سید تنویر شاہ صاحب آف سسکاٹون کینیڈا۔ مرحوم گذشتہ دنوں وقفِ عارضی پر پیراگوئے گئے ہوئے تھے اور وہیں ان کی وفات ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کے ایک ہی بیٹے سید رضا شاہ صاحب ہیں جو مربی سلسلہ ہیں۔ مرحوم مالی قربانی میں بہت بڑھے ہوئے تھے۔ تبلیغ کا بھی بہت شوق تھا۔ پیراگوئے میں بھی ان کی تبلیغ سے دو بیعتیں ہوئیں۔ قناعت بھی بہت تھی۔ اللہ تعالیٰ کا بہت شکر کرنے والے تھے۔ مشکلات میں صبر اور شکر سے کام لینے والے تھے۔ خلافت سے بڑا گہرا تعلق تھا۔ صراطِ مستقیم پر چلنے والے تھے۔ سسرالی رشتے داروں سے بھی حسنِ سلوک کیا کرتے۔ ہمیشہ مسکراتے رہتے، نہ غصہ کرتے اور نہ ہی خدمتِ دین کے کاموں سے تھکتے۔
۵۔ مکرم رانا محمد ظفر اللہ خان صاحب مربی سلسلہ۔ اپریل کے آخر میں ان کی وفات ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم نے ۱۹۸۷ء میں جامعہ پاس کیا اور مسلسل ۳۶ سال مختلف خدمات کی توفیق پائی۔ نہایت خاکسار، ملنسار، غریبوں کے ہمدرد، سادہ مزاج اور درویش شخصیت کے مالک تھے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمرحومین کی مغفرت اور بلندیٴ درجات کے لیے دعا کی۔