انسان کی ۲ دنیاوی اور روحانی حالتیں قبض و بسط۔ حکمت، فوائد و نقصانات
یہ دنیا عارضی اور فانی ہے کسی کو یہاں قرار نہیں۔ہر آن تغیر و تبدل رونما ہوتا رہتا ہے ہر لمحہ تبدیلی ہوتی ہے۔راحتیں کلفتوں میں تبدیل ہوتی ہیں،مشکلات آسانیوں کی نوید بنتی ہیں۔ایک طرف اندھیرا ہے تو وہ اجالے لے کر آتا ہے اور دوسری طرف سورج کا اجالا رات کی تاریکی میں ڈھل جاتا ہے۔خیر اور شر کی تقدیر اپنا اپنا کام کر رہی ہے۔کبھی عیش کی راحت بھری چھاؤں ہے تو کبھی غم کی تپتی ہوئی دھوپ۔انسان کی زندگی انہی حالات کے درمیان جھول رہی ہے۔آسانیاں اور کامیابیاں اس کے حصہ میں آتی ہیں تو وہ اکڑنا شروع ہو جاتا ہے اور اتراتے ہوئے اس کو اپنا حق قرار دیتا ہے اور جب پریشانیوں کے سیاہ بادل اس کو گھیر لیتے ہیں تو گھبرا کر منّتیں کرتا ہے اور بہت جلدی مایوس ہونے لگتا ہے۔انسان کی اس حالت کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں کھینچا ہے:لَایَسۡـَٔمُ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ دُعَآءِ الۡخَیۡرِ ۫ وَاِنۡ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَیَـُٔوۡسٌ قَنُوۡطٌ۔وَلَئِنۡ اَذَقۡنٰہُ رَحۡمَۃً مِّنَّا مِنۡۢ بَعۡدِ ضَرَّآءَ مَسَّتۡہُ لَیَقُوۡلَنَّ ہٰذَا لِیۡ ۙ وَمَاۤ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً ۙ وَّلَئِنۡ رُّجِعۡتُ اِلٰی رَبِّیۡۤ اِنَّ لِیۡ عِنۡدَہٗ لَلۡحُسۡنٰی ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِمَا عَمِلُوۡا ۫ وَلَنُذِیۡقَنَّہُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ غَلِیۡظٍ۔وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَى بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَاءٍ عَرِیضٍ۔(سورة حم السجدة:۴۵ تا ۵۰)
ترجمہ:انسان خیر طلب کرنے سے تھکتا نہیں اور اگر اُسے شر چھو جائے تو سخت مایوس (اور) ناامید ہو جاتا ہے۔اور اگر ہم اس کو بعد اس کے کہ اُسے کوئی تکلیف پہنچی ہو اپنی کوئی رحمت چکھائیں تو وہ ضرور کہتا ہے یہ میری خاطر ہے اور میں گمان نہیں کرتا کہ ساعت برپا ہوگی۔اور اگر میں اپنے ربّ کی طرف لوٹایا بھی گیا تو یقیناً میرے لئے اُس کے پاس بہت اعلیٰ درجہ کی بھلائی ہوگی۔
فرد کی زندگی میں بھی اتار چڑھاؤ ہے اور قوموں کی زندگی میں بھی نشیب وفراز ہے،کبھی قومیں بڑھتی اورچڑھتی ہیں اورکبھی رکتی اورسمٹتی ہیں، کبھی فتح کا پرچم لہراتی ہیں اورکبھی شکست و ذلت سے دوچار ہوتی ہیں، اللہ کویہی منظور ہے، یہی ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔دنیاوی معاملات کے ساتھ ساتھ انسان کا مذہبی پہلو بھی اسی مد و جزر کے تحت چل رہا ہے۔کبھی اونچی لہر کے ساتھ اونچا ہو جاتا ہے تو کبھی لہر کے نیچے ہونے سے وہ بھی نیچا چلا جاتا ہے اس کے اعمال گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں اور یہی سلسلہ اس کی ترقیات کا موجب اور ذریعہ بن جاتا ہے۔صوفیا نے اس حالت کا نام قبض و بسط رکھا ہے۔یہی دو حالتیں انسان کو اپنے ہر پہلو میں نظر آتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی دو صفات الْقَابِضُاور الْبَاسِطُہر لمحہ انسانی زندگی پر اپنا اثر ڈالتی ہوئی نظر آتی ہیں۔اور ان صفات کے زیر سایہ وہ اپنا زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔قبض و بسط کی حالتوں کو مزید گہرائی سے دیکھتے ہیں کہ یہ دو حالتیں کیا ہیں اور اس کا ایک انسان اور مومن کی زندگی پر کیا اثر ہوتا ہے۔ان حالتوں کے فوائد کیا ہیں اور کیا نقصانات ہیں اور ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔
الْقَابِضُ کے معنی ہیں تنگی کرنے والا، محدود کرنے والا، وہ جو ہر چیز، سب وسائل پر قابض ہے۔ جب چاہے روحوں کو قبض کر دے، جب چاہے رزق کو تنگ کر دے، جب چاہے اس دنیا کے وسائل کو سمیٹ لے۔اسی طرح الْبَاسِطُ کے معنے کشادگی کرنے والے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جس بندے کا رزق چاہے کشادہ کر دے۔ اور جس بندے کے دل پر چاہے اپنی رحمت کو وسیع کر دے۔ اور جس بندے کو چاہے وسعت علمی عطا کرے۔
صفت الْقَابِضُ کے ذریعے اﷲ انسان پر اپنی گرفت سخت اور صفت الْبَاسِطُ کے ذریعے اپنے بندوں پر گرفت ڈھیلی کردیتا ہے۔
وَاللّٰهُ یقْبِضُ وَیبْسُطُ وَاِلَیهِ تُرْجَعُوْنَ۔(سورۃ البقرة:۲۴۶)ترجمہ: اور اﷲ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف لوٹنا ہے۔
علم الاعداد کی رو سے اسم الٰہی الْقَابِضُ کے اعداد ۹۰۳ اورالْبَاسِطُکے ۷۲ ہیں۔
اردو میں یہ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ تنگ دستی اور کشائش اللہ تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہے اس لئے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے ڈرنا اور گھبرانا نہیں چاہیے ۔
قبض اور بسط کا مفہوم بہت عام ہے۔ ہر وہ چیز جو روکی جائے اور ہر وہ چیز جس میں کشادگی کی جائے اللہ تعالیٰ ہی کے قبضے میں خواہ وہ مال ہو، عمر ہو، برکت فی الاعمال ہو، عمل کی توفیق ہو،قلب کا بخل یا سخاوت ہو ۔ نفس قلب کا قبض یا بسط ہو جو صوفیاءحضرات کی اصطلاح ہے یا شرح صدر اور ضیق صدر ہو۔
غرض ہرچیز کا قبض و بسط اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے محض مال کی مناسبت سے تنگدستی اور فراخ دستی کا مفہوم ہی مراد نہیں ہے قرآنی مفہوم بہت وسیع ہے۔
ایک حدیث مبارکہ میں مومن کی حالت قبض و بسط کو بڑا کھول کر بیان فرمایا گیا ہے۔ ربعی حنظلہ بن ربیع اسیدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے یہ رسول اللہ ﷺ کے کاتبوں میں سے تھے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا: اے حنظلہ !تم کیسے ہو؟ میں نے کہا حنظلہ تو منافق ہوگیا انہوں نے کہا سُبْحَانَ اللّٰهِ تم کیا کہہ رہے ہو میں نے کہا ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں ہوتے ہیں اور آپ ہمیں جنت و دوزخ کی یاد دلاتے رہتے ہیں گویا کہ ہم انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور جب ہم رسول اللہ کے پاس سے نکل جاتے ہیں تو ہم بیویوں اور اولاد اور زمینوں وغیرہ کے معاملات میں مشغول ہوجاتے ہیں اور ہم بہت ساری چیزوں کو بھول جاتے ہیں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم! ہمارے ساتھ بھی اسی طرح معاملہ پیش آتا ہےحضرت حنظلہ نے کہا میں اور ابوبکر چلے یہاں تک کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! حنظلہ تو منافق ہوگیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا وجہ ہے؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! ہم آپ کی خدمت میں ہوتے ہیں تو آپ ہمیں جنت و دوزخ کی یاد دلاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ آنکھوں دیکھے ہو جاتے ہیں جب ہم آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ہم اپنی بیویوں اور اولاد اور زمین کے معاملات وغیرہ میں مشغول ہوجانے کی وجہ سے بہت ساری چیزوں کو بھول جاتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم اسی کیفیت پر ہمیشہ رہو جس حالت میں میرے پاس ہوتے ہو یعنی ذکر میں مشغول ہوتے ہو، تو فرشتے تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں اور راستوں میں بھی۔ لیکن اے حنظلہ! وقت وقت کی بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین بار فرمایا۔
(صحیح مسلم کتاب التوبہ باب فَضْلِ دَوَامِ الذِّكْرِ وَالْفِكْرِ فِی أمُورِ الآخِرَةِ….)
اللہ والوں کے مقامات و درجات، زہد و تقویٰ اور عبادت گزاری سے بلند ہوتے ہیں اور مولیٰ کی قربت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس حال میں ان پر ایک کیفیت طاری ہوتی ہے جس کو قبض و بسط کہتے ہیں۔ جب قبض کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو درجات بلند ہوتے ہیں۔ اللہ کی دوستی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ جس کو اللہ کی قربت ملتی ہے اس کی طبیعت میں انشراح پیدا ہوتا ہے۔ اللہ کی رضا ملتی ہے۔ اس حال میں اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو بچانے کے لیے کہ کہیں میرے بندے ان درجات و قربتوں کو دیکھ کر عُجب میں مبتلا نہ ہوجائیں ان پر قبض کی کیفیت طاری کرتا ہے۔ آنکھوں کے سامنے پردہ آ جاتا ہے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ اس طرح اللہ اُنہیں پریشانی میں ڈال دیتا ہے کہ بندہ عُجب و تکبر سے بچ جائے لیکن بندہ یہ سمجھتا ہے کہ میں اللہ کی بارگاہ میں گر گیا ہوں، اللہ سے دور ہو گیا ہوں۔ پس وہ روتا ہے، تڑپتا ہے تو اس کے درجے اس رونے اور تڑپنے میں یاد الٰهی سے مزید بلند ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اولیاء پر اپنے حال کے مطابق قبض اور بسط کی اپنی اپنی کیفیات ہوتی ہیں جس آدمی نے چکھی ہی نہیں اس کو کیا معلوم کہ یہ کس کیفیت میں ہے۔ وہ سمجھتا ہے میں دھتکارا گیا۔ اس لیے وہ کبھی رُلاتا ہے۔ اللہ کے بندے دنیا کے نقصان پر نہیں روتے۔ ہم تو اس لیے روتے ہیں کہ اولاد نہیں، نقصان ہوگیا، بیمار ہوگئے، ہمارا رونا ان دھندوں کے لیے ہے جبکہ اولیاء اللہ ان چیزوں پر نہیں روتے، جب یہ سارے دھاگے کٹے تب جاکر اس سے یاری ملی۔ دنیا کے دھندوں کے لیے وہ نہیں روتے اور نہ اس پر ان کے دل خوش ہوتے ہیں۔ وہ اس وقت روتے ہیں جب ان کے دل میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ وہ ناراض ہوگیا، وہ اپنی ناراضگی پہ رلاتا ہے، اپنی ناراضگی کا احساس دلا کر، دوری کا احساس دلا کر رلاتا ہے۔
حالت قبض میں جب انہیں احساس ہوتا ہے کہ محبوب ناراض ہے تو پھر وہ پریشان حال پھرتے ہیں۔ حالت قبض میں کیف و سرور جاتا رہتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ میرے بندے پر عجب نہ آئے، اونچے درجے پر دھیان نہ پڑے۔ یہی سمجھے کہ بس رب روٹھ گیا اور وہ روتا رہے اور مالک درجے بڑھاتا رہے۔ بظاہر یہ بے کیف سی زندگی لگتی ہے۔ ہندی زبان میں کسی عاشق نے کہا تھا۔
دلیا بنا بھتواہ…اداس موری سجنی
دال کو دلیا کہتے ہیں اور اُبلے ہوئے چاول کو بھتواہ کہتے ہیں۔اگر کوئی اُبلے ہوئے چاول دال کے بغیر کھائے تو بےلذت ہوتے ہیں۔ میرے محبوب میری زندگی ایسے بےلذت ہو گئی۔
اگر نفس کا علاج نہ ہو تو اگر بندہ ولی بھی ہو تو عجب، خودبینی اور کبر کی وجہ سے نمرود، ہامان اور فرعون بن جاتا ہے۔ نفس کی سرشت میں شیطنت ہے لہٰذا اس کا علاج مجاہدہ کے ذریعے اور نفس کی تذلیل کے ذریعے ہی کیا جانا چاہیے۔ اگر ان چند باتوں پر عمل کر لیا تو سمجھ لیں کہ آپ نے سلوک و تصوف کی راہ پر چلنے کا آغاز کر دیا۔
اصطلاحی طور پر لغت میںقبض اورتصوف میں یہ مطالب درج ہیں: واردات جن کے سبب سے سالک کو توحش اور ہجراں اور انقباضِ طبیعت اور عدمِ رغبت عبادت کی اور معشوقِ حقیقی کا عارض ہو، انقباضِ تنگی، ضیق، گرفتگی۔
اور بسط تصوف میں وہ حالت ہوتی ہے جب کشائش یا انبساط جو سیر الی اللہ میں سالک کے دل میں حالات کے وارد ہونے کا سبب ہوتا ہے جیسے غلبہؑ محبت، معشوق کی یاد میں ذوق و شوق و سرور، معارف الٰہیہ کا ادراک۔
ویکیپیڈیا میں تصوف کی اصطلاح قبض کی تعریف یوں کی گئی ہے۔
قبض تصوف کی ایک اصطلاح کو کہتے ہیں۔
یعنی سالک کے دل پر ان واردات غیبی کا نزول بند ہو جانا جن سے اسے سرور اور ذوق شوق اورلذت عبادت حاصل ہوتی تھی۔ اس حالت قبض میں سالک کے دل پر وحشت ہوتی ہے اور کسی عبادت میں دل نہیں لگتا۔ یہ حالت بسط کے بعد وارد ہوتی ہے قبض کی دوقسمیں ہیں ایک محمود۔ وہ یہ ہے کہ حالت بسط کے روکنے کے لیے پیدا ہوتا ہے کہ سالک اپنے ذوق وشوق اور سرور میں حد سے نہ گزر جائے اور اسرارالٰہی کو عوام پر نہ کھولے اورضبط سے کام لے اس سے سالک کی ترقی ہوتی ہے اور اس میں سمائی کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے قبض مذموم وہ یہ ہے۔ حالت بسط میں سالک سے کوئی اور سوء ادبی ہو جائے اور نشہ محبت میں سستی کرنے لگے تو اس کے بعد منجانب اللہ قبض ہو جاتا ہےاور واردات غیبی رک جاتے ہیں یہ سالک کی تنبیہ اور تادیب کے لیے ہوتا ہے۔
پہلی قسم قبض محمود کی تو سالک کے لیے لازمی ہے کہ وہ بسط کے بعد وارد ہوتی رہتی ہے۔اس لیے صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ بسط و قبض یعنی قبض محمود سالک کے واسطے لازمی ہیں۔ جو یکے بعد دیگرے سالک پر واردہوتے ہیں۔(اصطلاحات صوفیہ، صفحہ ۱۱۱، خواجہ شاہ محمد عبد الصمد، دلی پرنٹنگ ورکس دلی)
اسی طرح بسط کی تعریف یوں کی گئی ہے۔
بسط تصوف کی ایک اصطلاح کو کہتے ہیں
سالک کی کشادگی دل و سرور کو بسط کہتے ہیں اور اس کی ضد کو قبض(تصوف) کہتے ہیں۔
سالک پر سیر الی اللہ کی حالت میں بعض واردات ایسے وارد ہوتے ہیں جن سے عشق اور محبت کا غلبہ اور دل میں سرور و شوق پیدا ہوتا ہے عبادت میں لذت آتی ہے جس سے سالک کی ترقی باطن ہوتی ہے بسط ہے اور قبض اس کے برعکس۔ صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ دونوں حالتیں قبض و بسط سالک پر وارد ہونے لازمی ہیں۔ (اصطلاحات صوفیہ، صفحہ ۱۸، خواجہ شاہ محمد عبد الصمد، دلی پرنٹنگ ورکس دلی)
قبض و بسط کے متعلق چند ایک اہم باتیں سوال و جواب کی صورت میں پیش ہیں۔
سوال: قبض اور بسط کیا ہوتے ہیں ؟
جواب:واردات کا انقطاع جو کسی مصلحت سے ہوتا ہے قبض کہلاتا ہے اور ان واردات کا حاصل ہونا بسط۔جب محبوب کی تجلی جلالی سالک کے قلب پر پڑتی ہے تو اس سے سالک دہشت میں آجاتا ہے اور عالم خوف میں دل گرفتہ ہوجاتا ہے جس سے اس کے دل کا سرور اور اطمینان تہس نہس ہوجاتا ہے اور سالک اپنے آپ کو مردود خیال کرکے زندگی سے بیزار ہوجاتا ہے کیونکہ جس کے لیے اس نے سب کو چھوڑا تو اب بظاہر اس کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس محبوب نے مجھے چھوڑدیا۔اس سے غموں کا پہاڑ اس کے دل پر آجاتا ہے جس سے بعض اوقات خود کشی تک کی نوبت آسکتی ہے۔اس وقت شیخ کامل کی بڑی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی تسلی اور توجہ سے مدد کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ اس حالت سے نکل نہ جائے۔
سوال: کیا قبض میں بھی کوئی مصلحت ہوسکتی ہے؟
جواب:اس میں بہت ساری مصلحتیں ہوسکتی ہیں جن کی تفصیل یہاں ممکن نہیں البتہ مختصراً یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم یہاں پر آزمائش کے لیے آئے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح آزما سکتا ہے۔ دوسرا اچھے اعمال کرتے کرتے سالک عجب میں مبتلا ہوسکتا ہے جس کی وجہ اپنے پر نظر ہوتی ہے۔ قبض میں اس کی نظر محبوب کے جلا ل اور استغنا کی طرف کر دی جاتی ہے جس سے عجب اور تکبر کی جڑ کٹ جاتی ہے۔حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (رحمة اللہ علیہ) قبض کو لطف بصورت قہر کہتے تھے۔
سوال: کیا ہمیشہ قبض ان ہی وجوہات سے ہوتا ہے ؟
جواب:نہیں کبھی کبھی اس قسم کے حالات سوء اعمال، رزق حرام یا کسی اخلاقی غلطی کی وجہ سے بھی ہوتے ہیں۔اس وقت استغفار ہی اس کا علاج ہے۔
سوال: اس کا پتاکیسے چلے گا کہ یہ قبض ہے یا سزا ؟
جواب:شیخ کامل اسی لیے تو ہوتا ہے۔اس کے ساتھ رابطہ رکھا جائے۔قبض سمجھ کر صبر کرنا اور سزا کے امکان سے استغفار کرنا مناسب علاج معلوم ہوتا ہے۔
تصوف کی مشہور کتاب الرسالہ القشیریہ میں قبض و بسط کے باب میں لکھا ہے:انسان میں یہ دو ایسی طاقتیں پائی جاتی ہیں جو اس وقت معلوم ہوتی ہیں جب وہ خوف اور امید کے بندھن سے ترقی کر جاتا ہے(اور دونوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے) چنانچہ ایک عارف باللہ کے لیے قبض ایسے ہوتی ہے کہ جیسے تصوف میں قدم رکھنے کے لیے حالتِ خوف اور یونہی بسط ایک عارف کے لیے ایسے ہی شمار ہوتی ہے جیسے صوفی بننے والے کے لیے رجا(امید) شمار ہوتی ہے۔(الرسالہ القشیریہ صفحہ نمبر ۱۱۹۔ مترجم شاہ محمد چشتی،ادارہ پیغام القرآن،اردو بازار لاہور)
قبض کا معمولی سبب یہ ہوتا ہے کہ اس صوفی کے دل پر ایسی حالت طاری ہوتی ہے جس میں اسے عتاب یا سزا کا اشارہ ہوتا ہے چنانچہ لازمی طور پر قبض کی کیفیت وارد ہوتی ہے اور کبھی ایسی چیز بھی وارد ہوتی ہے جس میں اسے قرب الٰہی کا اشارہ ملتا ہے یا لطف و مہربانی کے آثار نظر آتے ہیں تو دل کو بسط (خوشی)حاصل ہوتی ہے۔قصہ مختصر یہ کہ ہر شخص کی قبض اس کی بسط کے مطابق ہوتی ہے اور یونہی اس کی بسط،قبض کے مطابق ہوا کرتی ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کو اپنی قبضکی وجہ معلوم نہیں ہو سکتی،وہ دل میں قبض تو معلوم کرتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ یہ کس وجہ سے ہوئی ہے۔ چنانچہ ایسے صاحب کے لیے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہوتا تاکہ یہ لمحات گزر جائیں کیونکہ اگر وہ اسے دور کرنے کا تکلف کرنا شروع کر دے یا اس حالت کے وارد ہونے سے پہلے اپنی مرضی سے اس کا تدارک کرے تو قبض مزید بڑھ جائے گی اور پھر میرے خیال کے مطابق یہ اس کی طرف سے بے ادبی بھی شمار ہو گی اور جب صوفی سر تسلیم خم کر دیتا ہے تو جلدی حالتِ قبضختم ہو جاتی ہے کیونکہ فرمان الٰہی ہے واللّٰه یقبض و یبسط (الله تعالیٰ تنگی اور کشائش کیا کرتا ہے)۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حالتِ بسط اچانک اور دفعۃً وارد ہو جاتی ہے اور صوفی کو اس کا پتا بھی نہیں چلتا کہ کیونکر ہوئی۔ چنانچہ وہ جھوم جاتا ہے اس موقع پراس صوفی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ سکون سے رہے اور ادب و احترام برقرار رکھے کیونکہ ایسے وقت میں بیرونی خطرات بھی بہت ہوتے ہیں چنانچہ اسے لازم ہے کہ پوشیدہ حملہ اور مکر سے خبردار رہے۔ایسے ہی موقع پر ایک صوفی نے کہا تھا۔
میرے لیے بسطکی راہ ہموار تو ہو گئی تھی مگر (بدقسمتی سے)میں لغزش کھا گیا اور پھر اپنے اس مقام سے اوجھل ہو گیا۔(الرسالہ القشیریہ صفحہ نمبر ۱۲۰ مترجم شاہ محمد چشتی،ادارہ پیغام القرآن،اردوبازارلاہور)
اسی طرح تصوف کی کتاب سیر السلوک الی ملک الملوک میں لکھا ہے:چونکہ یہ مقام روح ہے اور روح عشق الٰہی و (ماسویٰ الله)سے غفلت کا محل(جگہ)ہے لہٰذا سالک کافی عرصہ تک اس مقام پر قیام پذیر رہتا ہے کیونکہ عاشق اپنے نفس سے غافل ہو کر اپنے محبوب کے ساتھ مشغول رہتا ہے،کبھی اس کے نام کا ورد کرتے ہوئے اور کبھی ترنم کے ساتھ ایسے اشعار گنگناتے ہوئے جن میں محبوب کے حسن وجمال کی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہو اور یہ سب کچھ حالت بسط میں ہوتا ہے۔
اور جان لے کہ جب بسط (کشادگی)کے بعد قبض (تنگی) طاری ہو جائے اور سالک عشق کے خواب غفلت سے بیدار ہو جائے تو اس کا سینہ تنگ ہو جاتا ہے اور عنقریب دل سینہ سے باہر نکلتا ہوا محسوس ہوتا ہے پس وہ اپنے آپ کو کمتر سمجھتا اور خوف کھاتا ہے۔
سالک پر قبض(تنگی)اور بسط(کشادگی)کی حالتیں ہمیشہ طاری رہتی ہیں اور یہ دونوں حالتیں سالک کا پیچھا کرتی رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ چوتھے مقام میں ترقی پا جاتا ہے پھر اس کا عشق کامل ہو جاتا ہے اور قبض و بسط کی کیفیت ہیبت اور انس (محبت)سے بدل جاتی ہے،یہ دونوں حالتیں (ہیبت و انس) سالک کامل کا تعاقب کرتی رہتی ہیں۔(سیر السلوک الی ملک الملوک صفحہ نمبر ۳۸۷ از شیخ قاسم متی حنفی،اردو ترجمہ محمد امیر شاہ قادری،یکم نومبر ۱۹۹۲ء ۔شاہ محمد غوث اکیڈمی)
کتاب معارف شمس تبریز میں لکھا ہے۔
گہہ از من گل بروید و گہے خار
گہے خارم خلد گہہ گل بہ چینم
ترجمہ وتشریح: کبھی آپ کا کرم اعمالِ صالحہ کے پھول مجھ میں اگاتا ہے اورکبھی میری شامتِ عمل سے آپ کی نگاہ کرم ہٹ جاتی ہے اور نفس و شیطان مجھ پر غالب ہوتے ہیں اور سیئات کے خار اُگنے لگتے ہیں، پس ہم کو کبھی خار چبھتے ہیں اور کبھی ہم پھول چنتے ہیں، یعنی سالک پر مد و جزر،قبض و بسط کے مختلف حالات طاری ہوتے رہتے ہیں۔
تو بودی اوّل و آخر تو باشی
تو بہ کن آخرم از اوّلینم
ترجمہ وتشریح:آپ ہی اوّل ہیں آپ ہی آخر ہیں پس اے قدیم ذات!تو میری آخری حالت کو میری پہلی حالت سے بہتر فرما یعنی حسنِ خاتمہ عطا فرما۔
چو تو پنہاں شدی از اہلِ کفرم
چوں تو ظاہر شدی از اہلِ دینم
ترجمہ وتشریح: جب آپ ہم سے پنہاں ہوجاتے ہیں یعنی حالتِ قبض طاری فرماتے ہیں تو ہم قلب میں انتہائی گھٹن محسوس کرتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قلب میں ایمان بھی ہے یا نہیں۔ یعنی بسط کی اعلیٰ حالتِ ایمانی کے مقابلے میں یہ ادنیٰ حالت اور عدم حضوری و اضمحلال نسبت مع الحق سے شبہ ہونے لگتا ہے جیساکہ روایت میں ہے۔ حضرت حنظلہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی حالت میں تغیر محسوس کیا اور فرمایا نَافَقَ حَنْظَلَةُ حنظلہ تو منافق ہوگیا اور اپنا حال بارگاہِ رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم میں عرض کیا کہ جو حالتِ ایمانی آپ کی مجلس میں رہتی ہے وہ آپ سے دوری میں اور دوسری مشغولیوں میں نہیں رہتی تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سَاعَةً کَذَا وَسَاعَةً کَذَا یعنی یہ نفاق نہیں ہے بلکہ یہ حالت اسی طرح بدلتی رہتی ہے کبھی ایسی اور کبھی ایسی یکساں حالت نہیں رہتی۔دوسرے مصرعہ کا ترجمہ یہ ہے جب آپ پھر حالتِ بسط عطا فرماتے ہیں تو ہم اہلِ دین معلوم ہوتے ہیں۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اﷲعلیہ فرماتے ہیں کہ
گہہ رشک فرشتہ برد باپاکی ما
گہہ خندہ زند دیو ز ناپاکی ما
ایماں چوں سلامت بہ لب گور بریم
احسنت بریں چستی و چالاکی ما
ترجمہ:کبھی تو ہماری اچھی دینی حالت پر فرشتہ بھی رشک کرتا ہے اور کبھی ہماری دینی بدحالی پر شیطان بھی خندہ زن ہوتا ہے۔ پس جب ایمان کو سلامتی سے قبر تک لے جاؤں گا تو میں اپنی چستی و چالاکی پر اس وقت اَحْسَنْتَ کہوں گا یعنی اس وقت تعریف کروں گا۔ (معارف شمس تبریز صفحہ نمبر۲۲۴ تا۲۲۵)
اسی طرح قبض و بسط میں کیا حکمت پوشیدہ ہے معارف شمس تبریز میں لکھا ہے۔
قبض و بسط کی حکمت
سالک پر اگر ہمیشہ بسط کی حالت رہے تو عجب و کبر پیدا ہو جاوے لہٰذا کبھی کبھی قبض طاری فرماتے ہیں۔ چوں کہ حالتِ قبض میں عبادات کے اندر کیفیت و لذت نہیں رہتی اس لیے سالک کا سب پندار اور تکبر خاک میں مل جاتا ہے اور عاجزی و تواضع اور فنائیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی لیے بزرگوں نے لکھا ہے کہ قبض من جملہ احوالِ رفیعہ سے ہے، سالک کو ایسی حالت سے دل گیر اور نا امید نہ ہونا چاہیے۔
حضرت خواجہ صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں
قبض میں بھی بسط کا تو لطف لے
بے تسلی بھی تسلی چاہیے
ہے جلالی تو جمالی گو نہیں
چاہے جیسی ہو تجلّی چاہیے
دل کیوں نہیں لگتا طاعتوں میں
اس فکر کے پاس بھی نہ جانا
دل لگنا کہاں ہے فرض تجھ پر
تیرا تو فرض ہے دل لگانا
لگا رہ اسی میں جو ہے اختیاری
نہ پڑ امرِ غیر اختیاری کے پیچھے
عبادت کیے جا مزہ گو نہ آئے
نہ آدھی کو بھی چھوڑ ساری کے پیچھے
(معارف شمس تبریز صفحہ نمبر ۲۲۶ مؤلف مولانا شاہ حکیم محمد اختر کتب خانہ مظہری گلش اقبال بلاک ۲ کراچی پاکستان)
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی الله عنه اپنی ایک تقریر میں قبض و بسط کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:انسانی اعمال ہمیشہ ہی گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں اور قبض و بسط انسان کا ایک خاصہ ہے۔یہی سلسلہ انسان کے لیے کبھی روحانی ترقیات کا موجب بن جاتا ہے اور کبھی روحانی تباہی کا موجب بن جاتا ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دفعہ ایک صحابی حاضر ہوئے۔وہ رو پڑے اور کہا یا رسول اﷲ! میں تو منافق ہوں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم تو مومن ہو۔تم اپنے آپ کو منافق کیوں سمجھتے ہو ؟ اس صحابی نے کہا یا رسول ﷲ! میں جب تک آپ کی مجلس میں بیٹھا رہتا ہوں یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دوزخ اور جنت میرے سامنے آ گئے ہیں اور خشیت کا زور ہوتا ہے لیکن جب میں اپنے گھر جاتا ہوں تو وہ حالت قائم نہیں رہتی۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میں مومن نہیں بلکہ منافق ہوں کیونکہ جب میں آپ کی مجلس میں بیٹھتا ہوں تو میری ویسی حالت ہو جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ اور جنت دوزخ مجھے اپنے سامنے نظر آتے ہیں لیکن مجلس سے علیحدہ ہونے پر یہ حالت نہیں رہتی۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی تو خالص ایمان ہے۔پھر آپ نے فرمایا اگر انسان ایک حالت پر رہے تو وہ مر نہ جائے۔غرض قبض و بسط دونوں حالتیں انسان پر آتی رہتی ہیں۔اگر انسان کی ہر وقت ایک ہی قسم کی حالت رہے تو اس کی روح مر جائے۔اگر وہ جسمانی طور پر نہیں تو دماغی طور پر یقیناً مر جائے گا اور وہ پاگل ہو جائے گا۔مجنونوں اور عقلمندوں میں یہی فرق ہوتا ہے کہ مجنون پر ایک ہی حالت ہمیشہ طاری رہتی ہے اور عقلمند پر اُتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔مجنون ایک ہی قسم کے خیالات میں مبتلا رہتا ہے لیکن عقلمند شخص کے خیالات ایک ہی قسم کے نہیں رہتے۔غرض قبض و بسط کی حالتیں ہر انسان کے ساتھ لازم کر دی گئی ہیں۔کبھی اس کے اندر خوشی کی حالت پیدا ہوتی ہے اور وہ دین کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ حساب کرنے بیٹھ جاتا ہے کہ میں کتنی قربانی کر سکتا ہوں۔یہ حساب کرنے والی حالت قبض کی حالت ہوتی ہے اور جب کوئی شخص سب کچھ دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور اس میں خوشی محسوس کرتا ہے وہ بسط کی حالت ہوتی ہے۔مگر نہ وہ بسط کی حالت قطعی طور پر اعلیٰ درجے کا ایمان کہلاتی ہے اور نہ قبض کی حالت قطعی طور پر کمیٔ ایمان کہلا سکتی ہے۔ہو سکتا ہے کہ بسط کی وہ حالت مصنوعی زیادتیٔ ایمان کا نتیجہ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قبض کی حالت کمیٔ ایمان کا نتیجہ نہ ہو بلکہ طبعی آثار کا نتیجہ ہو جو خدا تعالیٰ نے روحانی ترقی کے راستہ میں پیدا کیے ہیں۔(خطبات محمود جلد ۳۰ صفحہ۳۳۔۳۴-)
پھرآپؓ فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ اس کا ہر کام لہر میں چلتا ہے۔ھوالقابض والباسط ایک لہر چلتی ہے۔کبھی وہ لہر اونچی جاتی ہے اور کبھی نیچے چلے جاتی ہے۔اس کے تمام افعال اسی طرح ہیں اور یہی چیز انسان کے اندر پائی جاتی ہے۔انسان خود بھی کبھی افسردہ ہوتا ہے اور کبھی خوش ہوتا ہے،کبھی وہ حساب کرنے بیٹھ جاتا ہے کہ آیا میں چندہ دوں یا نہ دوں؟ کبھی وہ نماز کے لیے مسجد میں جاتا ہے تو اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ کبھی سلام ہی نہ پھیرے۔کوئی آدمی اس کے پاس اگر کسی کام کے لیے آتا ہے تو وہ غصہ سے جل جاتا ہے۔مگر دوسرے وقت میں وہ اٹھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے اس لیے اسے کر ہی لیں۔وہ وقت جب وہ خیال کرتا ہے کہ میں نماز پڑھتا ہی چلا جاؤں اور سلام نہ پھیروں وہ بسط کی حالت ہوتی ہے اور جب وہ خیال کرتا ہے کہ چونکہ یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے اس لیے اسے پورا کر لوں قبض کی حالت ہوتی ہے۔ایک وقت ایسا ہوتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ آیا اس نے رکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدہ میں سبحان ربی الاعلیٰ تین تین دفعہ دہرایا ہے یا نہیں کیونکہ یہ فقرے کم از کم تین دفعہ دہرانے چاہئیں۔یہ قبض کی حالت ہوتی ہے۔لیکن کبھی وہ کہتا ہے کہ تین دفعہ گن کر کیا پڑھنا ہے تین کی بجائے تیس دفعہ یا تین سو دفعہ دہرا لیا جائے تو کیا حرج ہے یہ بسط کی حالت ہوتی ہے۔(خطبات محمود جلد ۳۰ صفحہ ۳۵)
پھر آپ رضی الله عنه قبض و بسط کے درجات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:دراصل قبض اور بسط کے بھی مختلف درجات ہوتے ہیں۔کامل مومن کی جو حالتِ قبض ہوتی ہےوہ اس کے نچلے درجے والے کے لیے بسط کی حالت ہوتی ہے۔اسی طرح انبیاء پر بھی قبض و بسط کا دَور آتا رہتا ہے مگر نبیوں کی قبض صدیقوں کی بسط ہوتی ہے۔اسی لیے صوفیاء نے کہا ہے کہ حسنات الابرار سیئات المقربین یعنی نیک لوگوں کی نیکیاں بھی مقربین کی بدیاں ہوتی ہیں۔(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ ۲۰۲ تا ۲۰۳)
ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام میں ذکر ہے کہ بابو نبی بخش صاحب احمدی کلرک لاہور نے عرض کی کہ بعض وقت تو دل میں خود بخود ایک ایسی تحریک پیدا ہوتی ہے کہ طبیعت عبادت کی طرف راغب ہوتی ہے اور قلب میں ایک عجیب فرحت اور سرور محسوس ہوتا ہے اور بعض وقت یہ حالت ہوتی ہے کہ نفس پر جبر اور بوجھ ڈالنے سے حلاوت پیدا نہیں ہوتی اور عبادت ایک بار گراں معلوم ہوتی ہے۔
حضرت اقدسؑ نے فرمایا: اسے قبض اور بسط کہتے ہیں قبض اس حالت کا نام ہے جب کہ ایک غفلت کا پردہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے اور خدا کی طرف محبت کم ہوتی ہے اور طرح طرح کے فکر اور رنج اور غم اور اسباب دنیوی میں مشغول ہو جاتا ہے اور بسط اس کا نام ہے کہ انسان دنیا سے دل برداشتہ ہو کر خدا کی طرف رجوع کرے اور موت کو ہر وقت یاد رکھے۔جب تک اس کو اپنی موت بخوبی یاد نہیں ہوتی وہ اس حالت تک پہنچ نہیں سکتا۔موت تو ہر وقت قریب آتی جاتی ہے کوئی آدمی ایسا نہیں جس کے قریبی رشتہ دار فوت نہیں ہو چکے اور آج کل تو وبا سے گھر کے گھر صاف ہوتے جاتے ہیں اور موت کے لیے طبیعت پر زور دے کر سوچنے کی حاجت ہی نہیں رہی۔
یہ حالتیں قبض اور بسط کی اس شخص کو پیدا ہوتی ہیں جس کو موت یاد نہیں کیونکہ تجربہ سے دیکھا گیا ہے کہ بعض دفعہ انسان قبض کی حالت میں ہوتا ہے اور ایک ناگہانی حادثہ پیش آ جانے سے وہ حالتِ قبض معاً دور ہو جاتی ہے جیسے کوئی زلزلہ آ جاوے یا موت کا حادثہ ہو جاوے تو ساتھ ہی اس کا انشراح ہو جاتا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قبض اصل میں عارضی شَے ہے جو کہ موت کے بہت یاد کرنے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ پیوست ہو جانے سے دور ہو جاتی ہے اور پھر بسط کی حالت دائمی ہو جاتی ہے عارفوں کو قبض کی حالت بہت کم ہوتی ہے۔نادان انسان سمجھتا ہے کہ دنیا بہت دیر رہنے کی جگہ ہے میں پھر نیکی کر لوں گا۔اس واسطے غلطی کرتا ہے اور عارف سمجھتا ہے کہ آج کا دن جو ہے یہ غنیمت ہے خدا معلوم کل زندگی ہے کہ نہیں۔(ملفوظات جلد چہارم صفحہ۲۴۶ ۔۲۴۷ ایڈیشن ۲۰۲۲ء )
پس انسان کو ہر وقت اپنی حالت پر نظر رکھنی چاہیے اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے اپنے ایمان کی مضبوطی کے لیے خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے رہنا چاہیے اور استغفار کو اپنا حرز جان بنانا چاہیے۔آج وقت کا امام اور مہدی موعود کا پیارا خلیفہ اپنی جماعت کو بار بار دعاؤں کی طرف توجہ دلا رہا ہے کہ دعاؤں سے اپنی حالتیں بدلیں پیارے آقا کی دعاؤں کی تحریک میں سے چند دعائیں احباب کے سامنے پیش ہیں۔جن میں ثبات قدم اور مضبوطیٔ ایمان کا خاص طور پر ذکر ہے۔
امیر المومنین حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍ مئی ۲۰۱۴ء میں بعض دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:
ایمان کی مضبوطی اور نظام خلافت سے جڑے رہنے کے لئے دعا:
رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ھَدَیۡتَنَا وَھَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَةً اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَھَّابُ
ترجمہ: اے اللہ!ہمارے دلوں کو ٹیڑھا ہونے نہ دینا بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہے اور ہمیں اپنی جناب سے رحمت عطا کر یقیناً تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے۔
رَبَّنَا اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکَافِرِیۡنَ
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد کر۔
رَبَّنَا اغۡفِرۡلَنَا ذُنُوۡبَنَاوَاِسۡرَافَنَا فِیۡ اَمۡرِنَا وَثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکَافِرِیۡنَ
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمارے قصور یعنی کوتاہیاں اور ہمارے اعمال میں ہماری زیادتیاں ہمیں معاف کر اور ہمارے قدموں کو مضبوط کر اور کافر لوگوں کے خلاف ہماری مدد کر۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍ مئی ۲۰۱۴ء)
اسی طرح مورخہ ۲۲؍ مئی ۲۰۲۰ء کوبھی سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفةالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد مبارک اسلام آباد (یوکے) میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے جن دعاؤں کے کرنے کی تحریک احباب جماعت کو فرمائی تھی وہ درج ذیل ہیں:
یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ
(سنن الترمذی، كتاب القدر عن رسول الله)
ترجمہ:اے دلوں کے پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔
اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْہُدٰى وَالتُّقٰى وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰى
(صحیح مسلم، كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار)
ترجمہ: اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، عفت اور غنا مانگتا ہوں
اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوْذُ بِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَفُجَاءَۃِ نِقْمَتِکَ وَجَمِیْعِ سُخْطِکَ
(صحیح مسلم، كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار)
ترجمہ:اے اللہ! میں تیری نعمت کے زائل ہو جانے، تیری عافیت کے ہٹ جانے، تیری اچانک سزا اور ان سب باتوں سے پناہ مانگتا ہوں جن سے تو ناراض ہو۔
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ (الاعراف: ۲۴)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پہ ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم گھاٹا پانے والوں میں ہوں گے۔
رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ (آل عمران: ۹)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دینا بعد اس کے جو تو نے ہمیں ہدایت دی۔ اور ہمیں اپنے حضور سے رحمت عطا کرنا۔ یقیناً تو بہت عطا کرنے والا ہے۔
رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة: ۲۰۲)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی کامیابی عطا کر اور آخرت میں بھی کامیابی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی ایک دعا ہے: ’’اے رب العالمین! میں تیرے احسانوں کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔ تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے۔ تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تُو راضی ہو جاوے۔ میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما! رحم فرما! رحم فرما! اور دنیا و آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کیونکہ ہر ایک فضل وکرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍ مئی ۲۰۲۲ء )
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ حقیقت بھی ہم پر آشکار فرمائی کہ اصل دعا تو رضائے الٰہی کے حصول کی دعا ہے اور زندگی کا اصل مقصود بھی یہی ہے ۔ اسی لئے اس مقصد کے حصول کے لئے دعا کرنی چاہیے۔ زندگی کے باقی معاملات خدا خود ہی حل فرما دیتاہے۔
فرمایا:’’سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو کیونکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہو جاتا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتاہے ۔ ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کر دیتے ہیں دورکردے اور اپنی رضا مندی کی راہ دکھلائے۔‘‘(ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۳۰)