متفرق مضامین

ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل (ذہن کے متعلق نمبر۳) (قسط 28)

(ڈاکٹر شاہد اقبال)

(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)

آرنیکا

Arnica mountina

٭…آرنیکا کے مریض کے مزاج میں خوف نہیں ہوتا لیکن رات کو سوتے ہوئے ڈراؤنے اور وحشت ناک خواب آتے ہیں ۔ مگر دن بھر جاگنے میں کوئی خوف نہیں ہوتا ۔رحم میں درد محسوس ہوتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھ جاتا ہے ۔ یہ درد رات کو خوف میں تبدیل ہو کر ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے اور ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔نیند کے غلبہ کی وجہ سے تکلیف شعوری طور پر محسوس نہیں ہوتی بلکہ ڈراؤنے خوابوں کا روپ دھار لیتی ہے ۔ اگر کوئی بیماری گہری ہو اور شدت اختیار کرے تو بعض دفعہ آرنیکا کا مریض بھی موت کے خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے لیکن اوپیم میں بھی ایسا خوف پایا جاتا ہے لیکن اوپیم کا مزاج آرنیکا سے الگ ہے ۔ بیماری زیادہ ہو یا کم ، اوپیم کے مریض کو اگر خوف ہے تو رات ہو یا دن وہ خوف یکساں رہے گا ۔ (صفحہ 87)

٭…جب بیماری زیادہ بڑھ جائے تو آرنیکا کا مریض بھی آرسینک کے مریض کی طرح موت کے خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔آرنیکا کےمریض کا سر گرم ہوتا ہے لیکن اسے گرم کرنے کا مطالبہ نہیں کرے گا ، صرف جسم کو گرم کرنا چاہتا ہے۔آرسینک کا مریض اس سے متضاد ہے۔وہ بیک وقت سر کو ٹھنڈا اور جسم کو گرم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ (صفحہ 90)

٭…آرنیکا کا مریض چڑ چڑا ، غمگین ،پریشان اور مایوس رہتا ہے۔لیکن یہ مزاج صرف بیماری کے دوران ہوتا ہے۔ورنہ اس کے مستقل مزاج میں مایوسی اور چڑچڑا پن نہیں ہوتا۔یہ دوا بیماریوں سے متاثر ہو کراپنا خاص مزاج بنا لیتی ہے ۔ جب بیماری کا احساس بڑھ جائے تو درد کا احساس کم اور غنودگی کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے۔ذہنی لحاظ سے آخر تک تندرست رہتاہے۔کوئی بات پوچھنے پر بالکل ٹھیک جواب دےگا۔(صفحہ 91)

٭…مریض نئی جگہ جانے کی خواہش کرتا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے سے آرام آجائے گا۔(صفحہ 92)

آرسینک البم

Arsenicum album

(Arsenious acid )

٭…آرسینک جو علامات پیدا کرتا ہے ان میں بے چینی سب سے نمایاں ہے۔ایسی بے چینی اگر جسمانی ہو تو رسٹاکس اور ذہنی ہو تو آرسینک دوا ہے۔ اس میں ایکونائٹ کی طرح موت کا خوف بھی پایا جاتا ہے۔مگر ویسی شدت نہیں ہوتی بلکہ بے قراری ، بے چینی اور وہم ہوتے ہیں ۔ اور مریض سمجھتا ہے کہ اسے کچھ ہونے والا ہے۔بعض عورتوں میں صدموں اور پرسوتی بخاروں (Septic Fevers)کی وجہ سے آرسینک کی علامات پیدا ہوجاتی ہیں اور وہ ہر وقت بے چینی میں مبتلا رہتی ہیں۔اس کا مریض بے حد نازک اور نفیس مزاج ہوتاہے۔ جو کپڑے کی ذرا سی سلوٹ بھی برداشت نہیں کر سکتا ۔کمرے کی سب چیزیں ترتیب اور سلیقے سے رکھتا ہے۔اگر کوئی ذرابھی چھیڑ دے تو غصہ سے بھڑک اٹھتا ہے۔ (صفحہ 93)

٭…بے حد دماغی بوجھ اور مسلسل ذہنی کام دونوں مل کر اندرونی اعصاب میں بے چینی پیدا کر دیتے ہیں۔(صفحہ 94)

٭…بسا اوقات عورتوں کے رحم کی بیماریاں ذہنی بیماریوں میں تبدیل ہو جا تی ہیں۔اگر کسی دوا سے ماہانہ نظام ٹھیک ہوجائےلیکن بے چینی ، توہمات ، موت کا خوف اور پاگل پن کی علامات ظاہر ہونے لگیں تو یہ اچھا سودا نہیں ۔ اگر آرسینک کی علامات ہوں تو آرسینک دینے سے یہ سب بیماریاں یک دفعہ دور ہوجائیں گی۔ (صفحہ 95)

٭…آرسینک کی بیماریاں دن یا رات کو بارہ بجے کے بعد شدید ہو جاتی ہیں ۔ رات کو مرض میں اضافہ ہو جاتا ہےاور مریض خوف محسوس کرتا ہےاوراکیلا رہنا پسند نہیں کرتا۔ تکلیف بہت بڑھ جائےتو کسی کی موجودگی بھی فائدہ نہیں دیتی۔ (صفحہ 97)

٭…آرسینک کی بے چینی بعض دفعہ پاگل پن میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ خود کشی کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے۔اور مریض اس وہم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ میری بخشش کے دن گزر چکے ہیں۔اگر مروجہ طب کے ذریعہ ایسی مریضہ کی ماہواری کا علاج کیا جائے جسے زیادہ خون آتا ہو تو اس کی بیماری بظاہر دب جاتی ہے مگر رحم کے اندر سڑانڈ کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں اور مستقل بدبودار ،لیس دار مادہ یا خون کے لوتھڑے نکلنے لگتے ہیں ۔ اسی طرح دیگر اخراجات کو بھی علاج کے ذریعے بند کیا جائے تو بہت خطرناک اثرات ظاہر ہوتے ہیں جو بعض اوقات ذہنی بیماریوں پر منتج ہوتے ہیں۔(صفحہ 97-98)

٭…سلفر اور پائروجینم 200 ملا کر دینا رحم کے اکثر تعفنات اور ان کے نتیجہ میں بخار یا ذہنی انتشار کو دور کرنے میں بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ (صفحہ 98)

آرسینیکمسلفیوریٹم فلیوم

Arsenicum sulfuratum flavum

٭…آرسینیکمسلفیوریٹم فلیوم کا مریض بہت جلد غصہ میں آجاتا ہے۔صبح کے وقت اٹھنے پر بے حد چڑ چڑا ہوتا ہے۔سر میں چکر آتے ہیں جن میں دائیں طرف گرنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ (صفحہ 105)

آرم میٹیلیکم

Aurum metallicum

٭…آرم میٹیلیکم کا سب سے زیادہ تعلق مریض کے ذہنی رجحانات سے ہے۔اس کی اکثر بیماریاں بھی ذہنی تکالیف کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں۔ذہن پر پڑنے والے بد اثرات جسمانی بیماریوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔اس دوا میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ایسا مریض اپنی ذات کا اعتماد کھونے لگتا ہے۔ہر وقت اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے۔خود کو بیکار اور ناکارہ وجود سمجھتا ہے۔اور اپنے آپ کو زمین پر بوجھ تصور کرتا ہے۔جب ایسے خیالات بڑھ جاتے ہیں تو آخر کار خود کشی کے رجحان پر منتج ہوتے ہیں ۔اور مریض واقعۃً خود کشی کی کوشش کرتا ہے۔ (صفحہ 111)

٭…آرم میٹیلیکم کا مریض بظاہر اپنی ذات میں گم ، مایوس اور پژ مردہ دکھائی دیتا ہے۔ لیکن جب اسے کسی بات پر غصہ دلا دیا جائے تو اس کی اپنی جان لینے کی خواہش دوسروں کی طرف منتقل ہوجاتی ہےاور وہ قتل تک کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ جب اپنی ذات اور ماحول سے بیگانگی اور دنیا کی بدسلوکی کا احساس دب کر اندرونی ذہنی ناسور بن جاتا ہے تو دبا ہوا نفرت کا جذبہ اچانک ابھر آتا ہے۔ عا م طور پراس بے چینی اور تکلیف کا رخ اس کی اپنی ذات کی طرف ہی رہتا ہے۔لیکن اگر اسے کوئی بہت تنگ کرے تو اس کا انتقامی جذبہ بھڑک اٹھتا ہےاور پھر ایسا مریض انتہائی تشدد پر اتر آتا ہے۔اس لیے آرم میٹیلیکم کے مریضوں سے چھیڑ خانی کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔اسی طرح بلاوجہ انہیں بحثوں میں نہیں الجھانا چاہیے۔(صفحہ 111)

٭…آرم میٹ میں پاگل پن کا رخ جذبات سے ذہن کی طرف ہے۔اگر مریض کی انا کچلی جائے ، زندگی کی ناکامیاں اس پر چھا جائیں اور وہ اپنے آپ کو جذباتی طور پرناکام و نامراد محسوس کرےتو یہ جذباتی اذیت اور عذاب کی کیفیت رفتہ رفتہ مستقل پاگل پن میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ ورنہ شروع شروع میں وہ ان تمام کیفیات کے باوجود سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری نہیں ہوتا اور حقائق کا موازنہ کر سکتا ہے۔(صفحہ 111-112)

آرم میور

Aurum muriaticum

٭…آرم میٹیلیکم کی طرح اس میں بھی خود کشی کا رجحان پایا جاتا ہے۔لیکن مریض اپنی ذات کی تنہائی میں قید ہونے کی بجائے بد مزاج،چڑچڑا اور جھگڑالو ہوجاتا ہے۔ (صفحہ 117)

٭…اگر ذہنی ہیجان کی وجہ سے نیند اڑ جائے تو اور دواؤں کے علاوہ آرم میور بھی کام آ سکتی ہے۔بشرطیکہ جسم میں جگہ جگہ دھڑکنیں پائی جائیں ۔ایسے مریضوں کو تشدد آمیزیا غم ناک خواب نظر آتے ہیں ۔ مریض عموماً اپنی بیماری کی کیفیت کے مطابق خواب دیکھتا ہے۔اگر تشدد والے خواب نظر آئیں تو اس کا مطلب ہےکہ بیماری خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔اگر غم کی خوابیں نظر آتی ہیں تو مرض ابھی ابتدائی حالت میں ہے۔اور نسبتاً جلد افاقہ ہونے کا امکان ہے۔اکثر ہومیو پیتھ آرم میور کو پلسٹیلا اور کالی سلف کے مشابہ دوا سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت ان میں بہت فرق ہے۔ (صفحہ 118)

بپٹیشیا

Baptisia

٭…ٹائیفائیڈ کے بد اثرات دماغ پر ظاہر ہوں تو پاگل کر دیتے ہیں اور ایسا پاگل پن عموماً عمر بھر کا روگ بن جاتا ہے۔ایسے مریض میں سٹرامونیم اور ہائیوسمس کی علامتیں پائی جاتی ہیں۔یہ دونوں دوائیں ٹائیفائیڈ میں بھی مفید ہیں۔ان سے مکمل شفا تو نہیں ہوتی لیکن علامات قدرے نرم ہو جاتی ہیں۔ (صفحہ 122-123)

٭…بپٹیشیا کی ایک یہ علامت ہے کہ مریض غنودگی اور نیم بے ہوشی کی کیفیت میں رہتا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ اس کے اعضاء الگ الگ ہو گئے ہیں ۔اس کی شخصیت اعضا میں بکھر جاتی ہے۔اس کی غنودگی الگ الگ اعضا پر قبضہ کیے رکھتی ہے۔جب اسے مجبور کر کے اٹھایا جائے تو پھر وہ غنودگی کے عالم میں ہی اٹھتا ہے۔اور بکھرے ہوئے اعضا کو جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ بعض دفعہ ان سے مخاطب بھی ہوتا ہے۔بعض دفعہ سمجھتا ہے کہ اس کی ایک ٹانگ اس کی دوسری ٹانگ سے باتیں کر رہی ہے۔اسے جھنجھوڑ کر کوئی سوال کیا جائے تو سوال کا جواب دیتے دیتےپھر سو جاتا ہے۔ بپٹیشیا ایسے ذہنی الجھاؤکا بہترین علاج ہے۔بشرطیکہ اس کی کچھ دوسری علامتیں بھی پائی جاتی ہوں۔ (صفحہ 123)

برائیٹا کارب

Baryta carb

٭…برائیٹا کارب کا بونا پن محض جسمانی نہیں بلکہ بسااوقات ذہنی بھی ہوتا ہے۔اور یہ دونوں کمزوریاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔لیکن میں نے اپنے تجربہ میں ہمیشہ یہ دیکھا ہے کہ اگر صرف جسمانی لحاظ سے ہی بونا پن پایا جائے تو اس میں بھی برائیٹا کارب بہت اچھا کام کرتی ہے۔اس لیے اسے خوامخواہ ذہنی علامات کےساتھ باندھ لینا درست نہیں۔میں نے اچھے سمجھدار بونوں اور بہت ذہین مگر چھوٹے قد والوں کو برائیٹا کارب استعمال کروائی۔ اللہ کے فضل سے دونوں صورتوں میں بہت اچھا اثر دکھاتی ہے ۔ اس کے ساتھ اگر چھوٹی طاقت میں سلیشیا بھی دی جائے یعنی 6Xمیں اور ساتھ کلکیریا فلور 6X ملا لی جائے تو یہ قد بڑھانے کے لیے اکثر بہترین نسخہ ثابت ہوتا ہے ۔وہ بونے جن کا ذہن بھی نشوونما سے محروم ہوتوان میں بھی یہ بہر حال کام کرتی ہے۔ (صفحہ 125)

٭…برائیٹا کارب کی علامتیں رکھنے والے بچے عموماً بہت جھینپنے والے ہوتے ہیں۔سکول میں پیچھے پیچھے رہتے ہیں اور کوئی اجنبی آجائے تو فوراً چھپ جاتے ہیں۔(صفحہ 126)

٭…برائیٹا کارب کا مریض بسا اوقات انجانے خطروں سے خوفزدہ رہتا ہے۔اسی طرح یہ بعض وہموں کو دور کرنے میں بھی خصوصی اثر رکھتی ہے ۔(صفحہ 128)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button