تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (قسط ۳۴) مرکز احمدیت: قادیان
حضرت شیخ محمود احمد صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ کی ولادت ۲۸؍ اکتوبر ۱۸۹۷ء کو ہوئی اور آپ ایک مصروف اور خدمات سے بھرپور زندگی گزار کر ۲۰؍ فروری ۱۹۴۴ء کو خالق حقیقی سے جاملے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں آسودہ خاک ہوئے۔ سلسلہ کے اس شعلہ بیان مقرر، بلندپایہ مؤلف اور قابل و پُرجوش اخبار نویس کو بلندخیالی اور اولوالعزمی اپنے والد ماجد حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب عرفانی الکبیر سے ملی تھی۔ آپؓ نے سالہا سال تک مصر میں تبلیغی جہاد کیا۔ ’’اسلامی دنیا‘‘ اور ’’الحکم‘‘کے ادارت کے ساتھ ساتھ آپ نے درج ذیل مشہورتالیفات مرتب کیں: تاریخ مالابار۔ فتح مصر۔ فاروق شاہ مصر۔ سیرت حضرت ام المومنین ؓ(حصہ اول)عالمگیر الیکٹرک پریس، سید میٹھا بازار لاہور سے۱۹۴۲ء میں طبع ہونے والی اس کتاب کے قریبا ًپونے پانچ سو صفحات ہیں۔
کتاب کو تاریخ کے مختلف ادوار کے لحاظ سے مرتب کرتے ہوئے بانیانِ قادیان کی تاریخ بتائی کہ دور اوّل میں جناب میرزا ہادی بیگ صاحب مورث اعلیٰ و بانی قادیان اور پھر عضد الدولہ جناب میرزا فیض محمد صاحب ہفت ہزاری کے زمانوں میں یہ بستی کس شان کی تھی۔
جناب میرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی زندگی اور علو ہمتی پر روشنی ڈالتے ہوئے، سکھ راج پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالی گئی ہے۔ اہل قادیان کی قادیان میں واپسی اور جناب میرزا غلام قادر صاحب کے متعلق معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں۔
کتاب کے صفحہ ۳۴ پر مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے اعلیٰ کیریکٹر اور دیگر بلند اوصاف کے ضمن میں مسجد اقصیٰ قادیان کی تعمیر کا ذکر ہے۔ صفحہ ۱۱۹ پر قادیان میں حضر ت مرزا غلام احمد صاحبؑ کی رہائش کا احوال اور تفصیل دی گئی ہے اور آپ کے پاس آنے والوں لوگوں کا بتایا گیاہے۔ دیگر تاریخی واقعات کا اندراج کرتے ہوئے کتاب کے صفحہ ۱۴۹ پر مسجد مبارک کا نقشہ دیا گیا ہے۔
سیرت و سوانح کے چیدہ چیدہ واقعات کو خوبصورت ذیلی عنوان بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
کتا ب کے صفحہ ۱۹۵ پر ’’جماعت کا شہید اوّل‘‘ ذیلی عنوان بنا کر حضرت صاحبزادہ مولوی سید عبداللطیف صاحبؓ کی قادیان آمد، بیعت اور پھر کابل میں شہادت کا ذکر ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مصنف کتاب کو کچھ سہو ہوا ہےکیونکہ معروف طور پر افغانستان سے ہی تعلق رکھنے والے حضرت مولوی عبدالرحمٰن صاحب ؓکو سلسلہ احمدیہ کا پہلے شہیدہونے کا فخر حاصل ہے۔ آپؓ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کے شاگرد اور ہم وطن تھے۔ ۲۰؍جون ۱۹۰۱ء میں آپؓ کو امیر عبدالرحمٰن والیٔ کابل کے حکم پر گلا گھونٹ کر شہید کردیا گیا اور آپؓ کی شہادت کی خبر نومبر ۱۹۰۱ء میں حضرت مولوی عبدالستار خان صاحبؓ المعروف بزرگ صاحب نے قادیان آکر حضرت مسیح موعودؑ کو دی۔جبکہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب تو ۱۹۰۲ء میں قادیان تشریف لائے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان دونوں شہداء کو ہی اپنے الہام’’شاتان تذبحان‘‘ کے ضمن میں بتایا ہے۔
آگے بڑھتے ہوئے کتاب کے صفحہ ۲۵۷ پر ’’خلافت اولیٰ‘‘ کے واقعات اور تاریخ شروع ہوتی ہے۔ جس میں اس مبارک دورمیں ہونے والی احمدیہ پریس کی ترقی، ترجمةالقرآن، لندن مشن کا قیام، اور انصاراللہ وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔
کتاب کے صفحہ ۴۱۵ پر قادیان کی مادی ترقی کا ذکر ہے۔ جس میں قادیان میں موجود دواخانوں، کارخانوں کی معلومات کے بعدشہر کے ڈاک خانہ، تار گھر، ٹیلی فون، ریلوے سٹیشن، ٹاؤن کمیٹی، پولیس سٹیشن اور سرکاری تعلیمی اداروں کے متعلق لکھا گیا ہے۔ جدید قادیان کی ترقی میں قائم ہونے والے جدید محلہ جات اور احمدیوں کی عظیم الشان رہائشی عمارات کا بتایا گیا ہے۔
نظام جماعت کا بنیادی تعارف کروانے کے بعد صفحہ ۴۳۸ پر سلسلہ کے مصنفین اور صحافیوں کا ذکر شروع ہوتا ہے۔نیز مبلغین اور جماعتی شعراء کے متعلق بھی سطور لکھی گئی ہیں۔
سلسلہ احمدیہ کی ترقی کے لیے قائم کی گئی کچھ خاص تحریکوں کے ضمن میں درج ذیل کا ذکر ہے: لجنہ اماء اللہ، صیغہ دستکاری، برلن مسجد، مستورات کا سالانہ جلسہ، یتیم بچوں کی دعوتیں،وغیرہ
صفحہ ۴۴۶ پر تحریک جدید کا تفصیلی تعارف ہے۔ اور خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ کے تعارف اوربعض شیریں ثمرات کا ذکر ہے۔
اہم اور قیمتی معلومات سے بھرپور اس کتاب کے آخر پر مصنف نے بعض احباب کا معاونت کرنے پر شکریہ اور امتنان کے جذبات کا اظہار کرنے سے قبل بعض اپنوں اور غیروں کے ضروری پیغامات اور تاثرات کو بھی جگہ دی ہے۔
الغرض یہ کتاب نہ صرف قادیان دارالامان کے تعارف پر مبنی ہے بلکہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے تعارف پر بھی مشتمل ہے جو جماعت کے پیغام کی تبلیغ اور تعارف کروانے والوں کے لیے اساسی معلومات کی حامل ہے۔