میری والدہ (محترمہ محمودہ باسط صاحبہ)
پیاری امی جان کی پیدائش انڈیا میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام چراغ دین صاحب مرحوم اور والدہ کاکریم بی بی صاحبہ مرحومہ تھا۔ پچیس سال سے زائد عرصہ اپنی پوری فیملی میں سے اکیلی حیات تھیں۔ شادی سے پہلے آپ لاہور کے قریب سانگلہ ہل میں رہیں۔ انڈیا سے ہجرت کے وقت آپ کی عمر پانچ سال تھی۔ ابوجان مولانا عبدالباسط شاہدصاحب سے شادی کے بعد آپ ربوہ آگئیں۔ ابوجان کی پاکستان میں مبلغ سلسلہ کی حیثیت سے جہاں جہاں تقرری ہوئی آپ ساتھ رہیں مثلاً کراچی،ملتان،بورے والا،جہلم، لاہور اور حیدر آباد۔
جب ابو جان ایک مبلغ کی حیثیت سے فرائض انجام دینے کے لیے ۱۹۶۶ءمیں تنزانیہ افریقہ گئے تو ہم جہلم سے ربوہ چلے گئے جہاں میری دادی اماں مرحومہ دارالرحمت وسطی میں رہتی تھیں۔ جب میرے داداجان درویش مرحوم کا قادیان سے پاکستان چکر لگا تو انہوں نے ہمارے لیے خود مکان تعمیر کیا کہ باسط کے بچے آرام سے رہیں اس طرح اپنے بڑے اباجان کو مزدوروں کے ساتھ مزدور بنے ہوئے دیکھا۔ ساتھ ساتھ دعائیں کرتے اور اونچی آواز میں اللہ اکبر، کبھی سبحان اللہ اور الحمدللہ کہتے۔ آج ہم اللہ کے فضلوں کے وارث ہیں خدا کرے کہ آئندہ ہماری نسلیں بھی ان کی دعاؤں کی وارث بنیں۔ آمین
اب جب کہ امی جان ہم میں نہیں رہیں ان کی زندگی پر کچھ لکھنے کا سوچا تو یہ اشعار بار بار زبان پر آئے:
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری!
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے!
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے!
یہ وہ اشعار ہیں جو میری پیاری امی جان مجھے بچپن میں لوری دیتے وقت سنا تی تھیں۔ پہلے دعائیں پڑھتیں پھر نظمیں پڑھتیں جب بھی لب پہ آتی پڑھتیں تو ساتھ بتاتی تھیں کہ یہ ہمارے سکول کی اسمبلی میں پڑھاجاتا تھا۔
سمجھ نہیں آرہا کہ امی جان مرحومہ کی صفات کا ذکر کہاں سے شروع کروں۔ بس ایسے لگ رہا ہے کہ یہ دونوں اشعار ان کی زندگی پر بہت ٹھیک چسپاں ہورہے ہیں اور ان کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ بنی الحمدللہ۔ امی جان بڑی نیک، دعا گو، نمازوں کی پابند،خدمت خلق کرنے والی،پیار دینے والی، ملنے ملانے والی،مہمانوں کی خاطر تواضع کرنے والی تھیں۔ اس خاطر تواضع اور مہمان نوازی کے ماپنے کے لیے کوئی پیمانہ نہ مل سکا۔ گھر آنے والے مہمان کو کبھی کھانے یا پینے کے بغیر نہ جانے دیتیں۔اس میں جلسہ سالانہ کے مہمان بھی شامل ہیں۔ جو دور و نزدیک سے جلسہ پر ربوہ آتے ان کی ہر طرح کی ضرورت کا خیال رکھتیں۔ رضائی، بستر سب جلسہ سے پہلے تیار کرتیں۔ کئی مہمان تو امی جان کی صفائی پسند ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاں ٹھہرنا پسند کرتے۔ امی جان نے اپنی تنگ دستی کا ذکر نہ کبھی گھر میں کیا اور نہ ہی باہر۔ بہت صابر و شاکر خاتون تھیں۔ پرانے کپڑوں سے نئے کپڑے بنا لیتیں اور ہم بھی عید پر نیا لباس پہن کر بے حد خوش ہوتے۔
سلائی،کڑھائی اور ہر طرح کے پکوان کی ماہر تھیں۔ بعض دفعہ تو رشتے دار یا ملنے والے فرمائش کر کے اپنی پسند کا کھانا پکواتے جس میں شامی کباب،سرسوں کا ساگ،قیمہ بند کریلے،پکوڑے اور کدو چنے کی دال شامل ہیں۔مردانہ اور زنانہ ہر ڈیزائن کا کپڑا سی لیتیں۔کافی لوگوں کو یہ کام سکھائے بھی۔ گھر کے کچھ کام جو مزدوروں کے کرنے والے ہوتے جیسے چھت کی لپائی یا چھوٹا موٹا پلستر کا کام خود کر لیتیں اور ہم بہن بھائی ان کاموں میں امی جان کی مدد کرتے۔ چھت کی لپائی کی چیزیں تیار رکھتیں اور یہ کام رات کو چادر اوڑھ کر کرتیں۔
ابھی تک مجھے بچپن کی ایک ایسی بات یاد ہے جس نے میرے ذہن پر بہت گہرے نقش چھوڑے وہ یہ کہ جب کبھی گرمی زیادہ ہوتی تو امی جان ہمیں کسی کے ہاں سے برف لانے کا کہتیں شاید اس لئے کہ پاس سے کام ہو جائے اور بازار نہ جانا پڑے۔ میں نے ایک مرتبہ امی جان سے کہا کہ فلاں کے ابو بھی باہر ہیں اور ان کے گھر فریج ہے ہمارے ابا بھی باہر گئے ہوئے ہیں تو ہمارے پاس فریج کیوں نہیں؟ پیاری امی جان کا جواب یہ تھا کہ آپ کے ابو جان مبلغ ہیں اور تم کیا سمجھتی ہو کہ میں حضور کے پاس جاکر ایسی بات پوچھوں جس سے حضور ناراض ہوں۔ یہ کام تو میں ہر گز نہیں کروں گی اور تم بھی دوبارہ ایسی بات مت سوچنا جس سے خلیفۂ وقت ناراض ہو جائیں۔ کیا شاندار جواب ملا کہ وہ دن جائےاور آج کا آئے کہ خلیفۂ وقت سے پیار کرنا اور اس خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا سکھا دیا۔ اسی کی بدولت آج میں بھی اور میری اولاد در اولاد اس مضبوط رسی کو تھامے ہوئے ہے۔ الحمدللہ
خاندان حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خواتین مبارکہ سے پیار کا تعلق تھا۔ ۱۹۷۸ء میں میری منگنی میرے ماموں زاد سے ہوئی۔میری چھوٹی ممانی جان جو میری ساس بھی تھیں کے ہمراہ میری دو کزن انگلینڈ سے ربوہ آئیں۔ جلسہ کے بعد منگنی کا پروگرام تھا ابوجان ان دنوں میں ابھی افریقہ میں تھے۔ اس تقریب میں بھی امی جان نے خاندان کی چند خواتین مبارکہ کو مدعو کیا اور حضرت چھوٹی آپا اُم ِمتین صاحبہ مرحومہ نے مجھے منگنی کی انگوٹھی پہنائی۔میرے لیےیہ بہت بڑی سعادت ہے اور آج بھی میں اس بات پر فخر محسوس کرتی ہوں۔ آپا ناصرہ بیگم صاحبہ مرحومہ ہمارے پیارے موجودہ حضور کی والدہ سے بھی پیار اور عقیدت کا رشتہ تھا۔ فروری ۱۹۸۰ءمیں میری ربوہ سے رخصتی ہوئی تب امی جان اپنے حلقہ دارالرحمت وسطی کی صدر تھیں۔ ان دنوں ان کی میٹنگز آپا ناصرہ بیگم صاحبہ کے ساتھ ہوتی تھیں اس طرح امی جان کا ایک اور پیارا تعلق بھی ان کے ساتھ رہا الحمدللہ۔
میری شادی فروری ۱۹۸۰ءمیں ہوئی اس وقت کا بھی ایک یادگار واقعہ ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ جو مبلغین ملک سے باہر ہیں جب ان کی بیٹیوں کی شادی ہو تو مجھے بتائیں میں ان بچیوں کو خود رخصت کروں گا تا کہ وہ اپنے والد کی غیر موجودگی کو محسوس نہ کریں۔ جب میری شادی کا وقت آیا توحضور دورہ کےلیےربوہ سے باہر کراچی تشریف لے گئے تھے۔ امی جان کافی پریشان ہوئیں کہ اب کیا ہوگا۔ ظاہر ہے پہلی بچی کی شادی ہے، میاں ملک سے باہر ہیں …انگلینڈ آنے کےلیےمجھے بھی کراچی سے روانہ ہونا تھا۔ امی جان مجھےسوار کروانے آئی تھیں۔ انہوں نے حضور کی خدمت میں ملاقات کےلیے درخواست دی۔ ہماری خوش قسمتی کہ ملاقات کا وقت مل گیا اور ہم مقررہ وقت پر حضور کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ جہاں باقی خواتین ملاقات کےلیے انتظار کر رہی تھیں ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کہ حضور کی طرف سے پیغام ملا کہ میں نے سفر کےلیے نکلنا ہے اس لیے ملاقاتیں نہیں ہوں گی صرف وہ بچی جس کی رخصتی ہو رہی ہے وہ یہاں انتظار کریں۔ چند منٹ کے بعد حضور رحمہ اللہ اور حضرت منصورہ بیگم صاحبہ سیڑھیوں سے نیچے آتے نظر آئے۔ حضور نے میرے بارے پوچھا تو میں ان کے قریب چلی گئی۔ انہوں نے اپنا شفقت بھرا ہاتھ میرے سر پر رکھا دعائیں دیں اور حضرت بیگم صاحبہ سے فرمایا کہ بچی کو سلامی دے دیں۔ انہوں نے مجھے دو سو روپے سلامی دی۔ اللہ اللہ! اپنی خوش قسمتی پر آج بھی رشک آتا ہے اور اپنے پیارے آقا اور بیگم صاحبہ کےلیے دعائیں نکلتی ہیں۔ حضرت منصورہ بیگم صاحبہ نے مجھے سو سو کے دو نوٹ دئے تھے۔ ایک میں نے اور دوسرا میرے میاں نے ہمیشہ اپنے بٹوے میں رکھا اور ان کی دعاؤں سے فیض یاب ہوتے رہے۔ خدا نے بھی بہت برکتوں سے نوازا۔الحمدللہ
امی جان ہماری دینی اور دنیاوی پڑھائی کا بہت خیال رکھتیں۔ ربوہ میں رہنے سے ہمیں دینی ماحول میسر تھا جو ہم سب کےلیے ایک نعمت عظمٰی تھا۔ گھر میں بچے امی جان سےصبح اور شام قرآن پڑھنے آتے، محلے کی مسجدوں سے اذان کی آوازیں آتیں تو بڑے اور بچے مسجدوں کا رخ کرتے۔ہمارے ناصرات کے مقابلہ جات ہوتے۔جب میں چھوٹی تھی تو اسلامی تاریخ کو سمجھنا تھوڑا مشکل تھا تو امی جان ہمیں پاس بٹھا کر اونچی آواز سے پڑھتی تھیں جس سے مجھے سبق بآسانی یاد ہو جاتا۔ میرے ماشاءاللہ چار بچے ہیں دوبیٹے اور دو بیٹیاں چاروں کے ساتھ میرا ایک مرتبہ پاکستان جانا ہوا۔ چونکہ بچے سکولوں میں تھے، ایک دو دفعہ الگ سے بھی گئی۔ امی جان نے بچوں کے ساتھ بہت پیار کیا اور ان کو پیار پیار سے چھوٹے چھوٹے کام کرنے کا سمجھایا مثلا ًکپڑوں کی تہ کیسے لگانی ہے، برتن کیسے دھونے ہیں اور کیسے رکھنے ہیں وغیرہ۔
میرے کزن جو بڑی پھوپھو جان امۃ اللطیف خورشید مرحومہ کے بڑے بیٹے ہیں، نے میری والدہ صاحبہ کی وفات پر جب میرے ساتھ افسوس کا اظہار کیا تو مجھے یہ بھی بتایا کہ جب ممانی جان شادی ہو کر آئیں تو میں چھوٹا بچہ تھا۔ ممانی جان کی جو بات مجھے سب سے زیادہ یاد ہے وہ یہ کہ وہ وضو بہت اچھا کرتی تھیں اور ہمیں ان کے بنائے ہوئے کھانے بہت پسند تھے۔
وقت گزرتا گیا اورہم بڑے ہوگئے۔ دو بہنوں کی شادی ہوگئی اس وقت امی جان کو مرکز کی طرف سےابو جان کے پاس زیمبیا بھجوا دیا گیا۔اس طرح امی جان کو وہاں بھی دین کی خدمت کا موقع ملتا رہا۔ابو جان سے یہ بات بھی سنی کہ جب وہ زیمبیا رہتے تھے ان کی قیام گاہ سے کافی دور ایک جگہ تھی جہاں سے ایک خاتون قرآن پڑھنا چاہتی تھیں۔ دور سے ان کا اس کام کےلیے آنا مشکل تھا۔ امی جان نے ان کو اپنے پاس رکھا اور چند ماہ میں ان کو قاعدہ اور قرآن کریم کا دورختم کروایا۔
جب ابو جان اور امی جان ۱۹۹۶ء میں انگلینڈ آئے تو ابو جان نے مرکز میں وقف عارضی کرنے کی درخواست دی جو منظور ہوگئی اور ابوجان کو لیسٹر مڈ لینڈز کی جماعت میں ایک ماہ کےلیے بھجوایا گیا۔ اس وقت وہاں ایک چھوٹی جماعت تھی۔ امی جان کے ساتھ جانے کا یہ فائدہ ہوا کہ انہوں نے بھی مبلغ کی بیوی ہونے کا حق ادا کیا۔ لجنہ کو قرآن پڑھانے اور میٹنگز میں نیز دیگر کاموں میں مدد کی۔ اس کا جماعت کو کافی فائدہ ہوا۔ ساری جماعت امی جان اور ابوجان سے بہت خوش تھے۔ لجنہ نے مرکز سے ابو جان کے وقت کو مزید بڑھانے کی درخواست کی اور اس طرح امی جان اور ابوجان لیسٹر میں تین سال کا عرصہ رہے۔ اس عرصہ میں کچھ اور فیملیاں لیسٹر آگئیں اب جماعت کافی بڑی اور منظم ہو گئی۔ لیسٹر سے رخصتی کے وقت سب افراد جماعت کی آنکھیں پر نم تھیں۔
امی جان کی بہادری کی ایک مثال بھی بیان کرتی ہوں۔ ۱۹۸۹ء میں امی جان کراچی بچوں کے پاس گئی تھیں جہاں سفر کے دوران ایک بہت خوفناک حا دثہ پیش آیا جس میں امی جان کا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں فریکچر ہوگیا اس کے باوجود امی جان بچوں اور بڑوں کو اپنے ساتھ لگا کر یا اس ٹانگ پر بٹھا کر تسلی دیتی رہیں۔ اس وقت سب نے امی جان کے صبر اور حوصلے کی داد دی۔ ابو جان نے جب یہ واقعہ مجھے سنایا تو ساتھ یہ بھی بتایا کہ اس بہادری پر میں نے ان کو انعام بھی دیا۔
میرے لیے میری ماں وہ ہستی ہے جس کی پیشانی پر نور،آنکھوں میں ٹھنڈک،الفاظ میں محبت،آغوش میں دنیا بھر کا سکون، ہاتھوں میں شفقت اور پیروں تلے جنت تھی۔ جماعتی خدمات میں حصہ لینے والی،نہایت سلیقہ شعار،نفاست پسند،معاملہ فہم، صلہ رحمی کرنے والی،اپنوں اور غیروں سے اپنائیت اور خلوص کا تعلق رکھنے والی خاتون تھیں۔
میں ان کی بڑی بیٹی ہونے کو بھی اپنے لیے ایک سعادت سمجھتی ہوں کہ میرے پہلی بار ماں کہنے سے وہ کتنی خوش اور نہال ہوئی ہوںگی اور ان کی زندگی کے آخری روز آخری مرتبہ جو تھوڑا بہت کھایا وہ بھی میرے ہاتھوں سے کھایا۔ میں نے ویسے ہی بات کرنے کے لیے پوچھا کہ میں اتنی دیر سے آپ کے پاس ہوں مجھے بتا ئیں میں کون ہوں؟ انہوں نے میری طرف دیکھا اور نہایت نحیف آواز میں کہا ’مبشرہ‘ اُس وقت امی جان کے ہم سے جدا ہوتے ہوئے یہ آخری الفاظ تھے جن کی آواز ہر وقت میرے کانوں میں گونجتی ہے۔ اس وقت میرے ساتھ ابو جان، میری بڑی بیٹی صبیحہ اور بڑی نواسی وہاں موجود تھے۔
بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرےاور مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے۔آمین
امی جان نے پسماندگان میں ابوجان کے علاوہ چار بیٹیاں دو بیٹے، بیس پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں اور چوبیس پڑنواسے نواسیاں اور پڑ پوتے پڑ پوتیاں چھوڑے ہیں۔