عورت کی تخلیق کا مقصد اور مقام
ارشاد ربانی ہے: وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَآءً (النساء:۲) اور پھر ان دونوں میںسے بہت سے مرد اور عورتیں (پیدا کر کے دنیا میں)پھیلائے۔
اس آیت سے معلوم ہو تا ہے کہ انسانی نسل کو پروان چڑھانا اور اس کی نسل میں اضا فہ کرنا نکاح اور شادی کا مقصد ہے تاکہ یہ نسل پوری دنیا میں چھا جائے اور پوری دنیا میں اللہ کی کبریائی ہو۔
اللہ تعالیٰ دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے:’’اور اس کے نشانوں میں سے (ایک) یہ (نشان) بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس میں سے تمہارے لئے جوڑے بنائے ہیں تاکہ تم ان کی طرف (مائل ہو کر) تسکین حاصل کرو۔ اور تمہارے درمیان پیار اور رحم کا رشتہ پیدا کیا ہے اس میں فکر کرنے والی قوم کے لئے بڑے نشان ہیں۔‘‘(الروم:۲۲)
اللہ تعالیٰ نے انسانی نسل کے بڑھانے کے لیے نکاح اور شادی کو ایک ذریعہ بنایا ہے جس میں دو خاندانوں کا ملاپ ہوتا ہے، دو افراد کا ملاپ ہوتا ہے اور اسلام نے اس کو بڑا مستحسن عمل قرار دیا ہے۔ بعض صحابہؓ نے کہا کہ ہم شادیاں نہیں کریں گے، تجرد کی زندگی گزاریں گے۔تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جو میری سنت پہ عمل نہیں کرتا وہ مجھ میں سے نہیں ہو گا۔ میں تو شادی بھی کرتا ہوں، کاروبار بھی ہے، بچے بھی ہیں۔ کاروبار سے مراد ہے کہ زندگی کی مصروفیات بھی ہیں، ذمہ داریاں بھی ہیں۔(ماخوذازخطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ مئی ۲۰۱۱ء)
اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت دونوں کے درمیان مودت و رحمت پیدا کی۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ“ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔”اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک کسان کا تعلق اپنے کھیت سے اس لیے ہو تا ہے کہ وہ اس سے فصل ،غلہ، اناج وغیرہ حاصل کرتاہے، ٹھیک اسی طرح مرد کا تعلق بھی عورت سے انسانی نسل کی فصل حاصل کرنا ہونا چاہیے۔ جس طرح سے وہ اپنے کھیت سے محبت کرتا ہے اسی طرح عورت سے بھی محبت کرنی چاہیے۔
الغرض خدا تعالیٰ نے نسل انسانی کے اس تسلسل کا انتظام فرماکر بتا دیا ہے کہ جس نے اللہ کے احکام کی اتبا ع او ر اس کی اطاعت کا رویہ اختیار کیا اسے خدا کی رضا اور جنت کی ابدی زندگی حاصل ہو گی۔اس کے برخلاف جو نا فرمان ثابت ہو گا ، جس نے اللہ کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی نہیں گزا ری ہو گی خدااس سے ناراض ہو گا۔ جنت میں ایسی نعمت ہو گی جس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔اس کے مقابلے میں دنیا کی نعمتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ آخرت کی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی اس چھوٹی سی زندگی کی کوئی حیثیت ہے۔اس لیے اللہ کے بندوں کو جن کو خدا کی رضا اور اس کی خوشنودی مطلوب ہے صا ف صا ف بتادیاگیا ہے کہ دنیا سے ان کا تعلق کتنا اور کس طرح ہوناچا ہیے۔
اسلام میں عورت کا تصور
زمانہ جا ہلیت میں عورت کا بہت برا حال تھا۔ لوگ لڑکی کی پیدا ئش باعث شرم و عار سمجھتے تھے۔ بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جا تا تھا۔
لیکن اسلام نے عورت کی جان و مال اورعزت و آبرو کی حفاظت کر کے اسے مکمل زندگی گزارنے کا حق دیا۔ جس طرح اللہ نے مردوں کے لیے مساوات اور آزادی کی فضا پیدا کی اسی طرح عورتوں کے لیے بھی حقوق قائم کیے۔ لڑکیوں کے قتل کوحرام قرار دے کر اسے کبیرہ گنا ہوں میں شما ر کیا۔
چنانچہ ایک صحابی قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول! میں نے دور جاہلیت اپنی آٹھ بیٹیاں زندہ درگور کی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان میں سے ہر ایک کے عوض ایک غلام آزاد کرو۔‘‘اس نے کہا: میں تو اونٹوں والا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تو یہ چاہتا ہے تو پھر ہرایک کی طرف سے ایک اونٹ قربان کر۔‘‘(سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: ۳۲۹۸)
لڑکیوں کو زمانۂ جا ہلیت میں زندہ در گور کرنے کا تذکرہ ملتا ہےلیکن آپﷺنےلڑکیوں کی پرورش کو فخر و ثواب کا باعث بتا یا۔
ایک حدیث میں ارشاد ہوا: ’’تم میں سے کسی کے پاس تین لڑکیاں یا تین بہنیں ہوں اوروہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو جنت میں ضرورداخل ہوگا۔‘‘(جامع الترمذي: أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ بَابُ مَا جَاءَ فِي النَّفَقَةِ عَلَى الْبَنَاتِ وَالأَخَوَاتِ)
ایک اور حدیث میں ہے کہ جس کے پاس کوئی لڑکی ہو ، وہ اسے دفن نہ کرے ، نہ اس کی تذلیل و تو ہین کرے اور نہ بیٹے کو ا س پر ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت میں لے گا اور اسے جنت میں دا خل کرے گا۔(سنن أبي داؤد: كِتَابُ النَّومِ بَابٌ فِي فَضْلِ مَنْ عَالَ يَتِيمًا)
ایک مرتبہ ارشاد فرمایا : جو ان لڑکیوں کی پرورش سے دوچارہواس کے لیے یہ سب جہنم سے پردہ ہوںگی۔(جامع الترمذي: أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ بَابُ مَا جَاءَ فِي النَّفَقَةِ عَلَى الْبَنَاتِ وَالأَخَوَاتِ)
اس طرح کی متعدد روایا ت ہیں جن کے ذریعے سے نبی کریم ﷺ نے لڑکیوں کی پر ورش کی ترغیب دی اور ان کو لڑکوں کے برابر سمجھنے پرکہیں جنت کو واجب قرار دیا ، اس کی خوشخبری دی تو کہیں جہنم سے نجات کا ذریعہ بتایا۔
(باقی آئندہ)
(مرسلہ: آمنہ نورین۔ جرمنی)