خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۱۴؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء بمقام بیت الرحمٰن، میری لینڈ، یو ایس اے
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کےعنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کا آپ پر یہ بڑا احسان ہے، جماعتِ احمدیہ پر بڑا احسان ہے، یہاں اس ملک میں آنے والے لوگوں پر بڑا احسان ہے کہ اس نے آپ کو اس ترقی یافتہ ملک میں آنے کی توفیق عطا فرمائی اور خاص طور پر گذشتہ چند سالوں میں پاکستان سے بہت سے احمدی یہاں آئے ہیں اور اب بھی آ رہے ہیں۔ جو پاکستان سے اس لیے ہجرت کر کے آئے کہ وہاں احمدیوں کے حالات سخت سے سخت تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور اس وجہ سے وہاں رہنا مشکل ہو گیا تھا اور اس لحاظ سے احمدیوں کو ان حکومتوں کا شکر گزار ہونا چاہیے جنہوں نے بہت سے مظلوم احمدیوں کو یہاں رہنے کی جگہ دی لیکن سب سے بڑا احسان جو اللہ تعالیٰ نے ہم احمدیوں پر کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ہمیں زمانے کے امام اور آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق کوماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔پس اس کے لیے ہم خداتعالیٰ کا جتنا بھی شکر کریں وہ کم ہے اوراللہ تعالیٰ کی شکر گزاری یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلیں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بھی حق ادا کرنے والے بنیں اور اس کی مخلوق کے بھی حق ادا کرنے والے بنیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کا حق ادا کرنے والے بنیں گے کیونکہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعودؑہی وہ راہنما ہیں جنہوں نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اسلام کی حقیقی تعلیم پر ہمیں چلایاہے۔‘‘
سوال نمبر۲:حضرت مسیح موعودؑ نے ایمان میں معرفت کے حصول کے حوالہ سے جماعت کوکیانصیحت فرمائی؟
جواب: فرمایا:’’جو شخص ایمان لاتا ہے اسے اپنے ایمان سے یقین اور عرفان تک ترقی کرنی چاہئے۔‘‘صرف ایمان نہیں لے آئے بلکہ اس پر یقین بھی پیدا ہونا چاہیے اور اس کا عرفان بھی حاصل ہونا چاہیے کہ کیوں ہم بیعت کر رہے ہیں۔’’نہ یہ کہ وہ پھر ظن میں گرفتار ہو۔‘‘پھر یہ نہیں ہے کہ دل میں بدظنیاں پیدا ہو جائیں کہ یہ کیوں ہوا اور یہ کیوں ہوا۔ سوال نہ اٹھنے شروع ہو جائیں۔ فرمایا کہ’’یاد رکھو ظن مفید نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے۔ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِی مِنَ الْحَقِّ شَیـًٔا(یونس:37)‘‘یقیناًً ظن حق سے کچھ بھی بے نیاز نہیں کر سکتا۔’’یقین ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو بامراد کر سکتی ہے۔ یقین کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ اگر انسان ہر بات پر بدظنی کرنے لگے تو شاید ایک دم بھی دنیا میں نہ گزار سکے۔‘‘ فرمایا کہ’’وہ پانی نہ پی سکے کہ شاید اس میں زہر ملا دیا ہو۔ بازار کی چیزیں نہ کھا سکے کہ ان میں ہلاک کرنے والی کوئی شئے ہو۔ پھر کس طرح وہ رہ سکتا ہے۔’’ زندگی گزارنی مشکل ہو جائے گی۔‘‘یہ ایک موٹی مثال ہے۔ اسی طرح پر انسان روحانی امور میں اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ’’اب تم خود سوچ لو اور اپنے دلوں میں فیصلہ کر لو کہ کیا تم نے میرے ہاتھ پر جو بیعت کی ہے اور مجھے مسیح موعود حَکم عدل مانا ہے تو اس ماننے کے بعد میرے کسی فیصلہ یا فعل پر اگر دل میں کوئی کدورت یا رنج آتا ہے تو اپنے ایمان کا فکر کرو۔وہ ایمان جو خدشات اور توہمات سے بھرا ہوا ہے ،کوئی نیک نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہو گا۔ لیکن اگر تم نے سچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح موعود واقعی حَکم ہے تو پھر اس کے حکم اور فعل کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دو۔ اور اس کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ ﷺ کی پاک باتوں کی عزت اور عظمت کرنے والے ٹھہرو۔رسول اللہ ﷺ کی شہادت کافی ہے وہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہوگا۔‘‘یعنی آنے والا مسیح موعود تمہارے میں سے تمہارا امام ہو گا۔ ’’وہ حَکم عدل ہو گا۔ اگر اس پر تسلی نہیں ہوئی تو پھر کب ہو گی۔ یہ طریق ہرگز اچھا اور مبارک نہیں ہو سکتا کہ ایمان بھی ہو اور دل کے بعض گوشوں میں بدظنیاں بھی ہوں۔‘‘ظاہری طور پر یہ اظہار ہو کہ ہم ایمان بھی لے آئے لیکن پھر بعض معاملات میں بدظنیاں بھی پیدا ہو رہی ہوں۔ فرمایا ’’…جن لوگوں نے میرا انکار کیا ہے اور جو مجھ پر اعتراض کرتے ہیں انہوں نے مجھے شناخت نہیں کیا اور جس نے مجھے تسلیم کیا ہے اور پھر اعتراض رکھتا ہے وہ اَور بھی بدقسمت ہے کہ دیکھ کر اندھا ہوا۔‘‘
سوال نمبر۳:حضرت مسیح موعودؑ نے قرآن کریم کوغور سے پڑھنے اوراس پرتدبرکرنے کی بابت جماعت کو کیاتاکید فرمائی؟
جواب: فرمایا:حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ’’میں بار بار اس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو کشفِ حقائق کے لئے قائم کیا ہے کیونکہ بدوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہو سکتا۔‘‘فرمایا’’اور میں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہو جیساکہ خدا نے مجھے اس کام کے لئے مامور کیا ہے۔ اس لیے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو مگر نرا قصہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر پڑھو۔‘‘۔۔۔(فرمایا) قرآنِ کریم کے علوم و معارف اور احکامات کو سمجھانے اور ان پر عمل کروانے کے لیے خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے اور جو میرے سلسلۂ بیعت میں داخل ہیں اس اہمیت کو سمجھیں اور قرآن کریم کے علوم و معارف پر غور کریں۔ اس کے معانی اور تفسیر کو سمجھنے کی کوشش کریں اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک حضرت مسیح موعود ؑکےروحانی خزانے کو بھی ہم سمجھنے اور پڑھنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ آپؑ کے دیےہوئے لٹریچر کو بھی ہم سمجھنے اور پڑھنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ آپؑ نے فرمایا کہ قرآن کریم کوئی قصہ کہانیاں نہیں ہیں بلکہ ضابطۂ حیات ہے۔ ایک لائحہ عمل ہے جس پر عمل کرنا ہر احمدی مسلمان کا فرض ہے۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دنیاکے موجودہ حالات کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:’’آج کل جو دنیا کے حالات ہیں ان سے ظاہر ہو رہا ہے کہ بہت خوفناک تباہی کے بادل ہمارے اوپر منڈلا رہے ہیں۔امریکہ کے صدر نے کل یہ بیان دیا تھا کہ اگر روس کے صدر نے ایٹمی ہتھیار کا استعمال کیا تو پھر اس کے جواب میں دوسری طرف سے بھی ردّعمل ہو گا اور پھر جو تباہی ہو گی وہ دنیا کے خاتمے پر منتج ہو گی۔ پس ان ملکوں میں رہنے والے یہ نہ سمجھیں، جو یہاں ہجرت کر کے آئے ہیں وہ یہ خیال نہ کریں کہ ہم یہاں محفوظ ہیں۔ کوئی بھی کسی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ ان بڑی طاقتوں کے لیڈروں کے جب دماغ الٹتے ہیں تو پھر یہ کچھ نہیں دیکھتے۔‘‘
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دنیاکے موجودہ حالات کے تناظرمیں احمدیوں کوکیانصیحت فرمائی؟
جواب: فرمایا: ان حالات میں احمدیوں کا ہی کام ہے کہ دعا سے کام لیں۔ اپنی عبادتوں کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کریں۔ جیساکہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ نیک لوگوں کی خاطر، اپنے خالص بندوں کی خاطر اللہ تعالیٰ دوسروں کو بھی بچا لیتا ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کے کلام سے قرآن کریم سے ہمیں پتہ چلتا ہے۔ پس اس زعم میں کسی کو نہیں رہنا چاہیے کہ یہاں آ کر ہم محفوظ ہو گئے ہیں، ہمارے بچوں کے مستقبل محفوظ ہو گئے ہیں۔ نہیں بلکہ بہت خطرناک دَور سے ہم گزر رہے ہیں۔ اگر ایسے حالات میں کوئی بچا سکتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ پس خود بھی اس کے آگے جھکیں، اپنی نسلوں کو بھی اس کے آگے جھکنے والا بنائیں تا کہ اپنے آپ کو بھی محفوظ کر سکیں اور اپنی نسلوں کو بھی محفوظ کر سکیں۔اس دنیا نے ہمیں نہیں بچانا نہ ہمارا اور ہماری نسلوں کا مستقبل محفوظ کرنا ہے بلکہ ہم اگر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے کلمہ کا حق ادا کرنے والے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ہماری عاجزانہ دعاؤں اور نیک اعمال کی وجہ سے دنیا کو بچا لے گا۔ پس آج کل کے حالات میں اس حوالے سے بھی بہت دعائیں کریں۔ اس سے پہلے کہ دنیا کے حالات انتہا سے زیادہ بگڑ جائیں… ابھی تو خطرے کے بادل ذرا سے اٹھے ہیں یا کم از کم ایسے ہیں کہ اگر چاہیں تو کنٹرول کیے جا سکتے ہیں لیکن کسی وقت بھی یہ پھیل سکتے ہیں۔پس آج احمدیوں کا ایمان اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور دعائیں دنیا کو تباہی سے بچا سکتی ہیں۔ دنیا کی ہمدردی دل میں پیدا کر کے دعا کریں۔ اپنے اپنے دائرے میں دنیا کو سمجھائیں کہ اگر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف توجہ نہیں دی تو یہ خوبصورت دنیا ویرانیوں میں بدل سکتی ہے۔ پس ہر احمدی اس سوچ کے ساتھ اپنے فرض ادا کرنے کی کوشش کرے۔
سوال نمبر۶: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اعلیٰ اخلاق اور دینی غیرت کے اظہار کے حوالہ سے افراد جماعت کو کیانصیحت فرمائی؟
جواب: فرمایا: آپؑ فرماتے ہیں:’’اخلاق کا درست کرنا بڑا مشکل کام ہے جب تک انسان اپنا مطالعہ نہ کرتا رہے یہ اصلاح نہیں ہوتی۔‘‘ اپنا جائزہ نہ لیتے رہو، اپنی باتیں جو تم سارا دن کرتے ہو جس طرح زندگی گزاری، دن گزار رہے ہو اس کا جائزہ نہ لو کہ کیا اچھائی کی کیا برائی کی ،کیا نیک باتیں کیں ،کیا غلط باتیں کیں۔ جب تک جائزہ نہ ہواس وقت تک اصلاح نہیں ہو سکتی۔ فرمایا ’’زبان کی بداخلاقیاں دشمنی ڈال دیتی ہیں اس لئے اپنی زبان کو ہمیشہ قابو میں رکھنا چاہئے۔‘‘فرمایا ’’دیکھو!کوئی شخص ایسے شخص کے ساتھ دشمنی نہیں کر سکتا جس کو اپنا خیر خواہ سمجھتا ہے پھر وہ شخص کیسا بیوقوف ہے جو اپنے نفس پر بھی رحم نہیں کرتا اور اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے جبکہ وہ اپنے قویٰ سے عمدہ کام نہیں لیتا اور اخلاقی قوتوں کی تر بیت نہیں کرتا۔‘‘ یعنی عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ جو طاقتیں اور صلاحیتیں انسان کے اندر ہیں، اللہ تعالیٰ نے دی ہوئی ہیں ان کی ایسی تربیت ہو، ان کو ایسے طریق پر استعمال کیا جائے کہ انسان کے ہر عمل سے اعلیٰ اخلاق کا اظہار ہو رہا ہو۔ ذرا ذرا سی بات پر اگر بداخلاقی کا مظاہرہ کرو گے تو اپنی جان کو خود مشکل میں ڈالو گے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں اسلام ذاتی معاملات میں صبر ،ضبط ،تحمل اور اعلیٰ اخلاق کے اظہار اور لڑائی جھگڑے سے بچنے کی تلقین کرتا ہے وہاں قانون کی حدود میں رہ کر دینی غیرت دکھانے کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑاس دینی غیرت کے اظہار کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:’’وہ شخص جو سلسلہ عالیہ یعنی دین اسلام سے اعلانیہ باہر ہو گیا ہے اور وہ گالیاں نکالتا ہے اور خطرناک دشمنی کرتا ہے اس کا معاملہ اَور ہے جیسے صحابہ ؓکو مشکلات پیش آئے اور اسلام کی توہین انہوں نے اپنے بعض رشتہ داروں سے سنی۔ تو پھر باوجود تعلقات شدیدہ کے‘‘(یعنی گہرے تعلقات ہونے کے باوجود، قریبی تعلقات ہونے کے باوجود) ’’ان کو اسلام مقدم کرنا پڑا۔‘‘فرمایا ’’…ایک شخص ہے جو اسلام کا سخت دشمن ہے رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا ہے وہ اس قابل ہے کہ اس سے بیزاری اور نفرت ظاہر کی جاوے لیکن اگر کوئی شخص اس قسم کا ہو کہ وہ اپنے اعمال میں سست ہے تو وہ اس قابل ہے کہ اس کے قصور سے درگذر کیا جاوے اور اس سے ان تعلقات پر زد نہ پڑے جو وہ رکھتا ہے۔‘‘ہاں اگر کوئی مخالفت نہیں کر رہا تو پھر اس سے تعلقات رکھو۔ اچھے تعلقات رکھو لیکن جو کھل کر مخالفت کر رہا ہے یا اسلام کو اور آنحضرت ﷺ کو گالیاں دے رہا ہے، باوجود سمجھانے کے باز نہیں آ رہا تو پھر وہاں دینی غیرت دکھانی چاہیے اور اسی طرح پر ہر احمدی کو حضرت مسیح موعود ؑ کے معاملے میں بھی غیرت دکھانی چاہیے۔ جو شخص حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف باوجود سمجھانے کے دریدہ دہنی سے باز نہیں آتا اسی طرح اس سے بھی ہم دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھا سکتے اور نہ کسی احمدی کی غیرت یہ برداشت کرتی ہے۔بہت سے آپ میں سے ہیں جو یہاں پاکستان سے آئے ہیں۔ انہیں ذاتی تجربہ ہے کہ کس قسم کی غلیظ زبان حضرت مسیح موعودؑکے خلاف وہاں نام نہاد ملاں استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہمیں کہا جائے کہ ان سے محبت کا اظہار کیا جائے یا ان کے شر ان پر الٹنے کی دعا نہ کی جائے تو ہماری غیرت یہ گوارا نہیں کرتی۔ وہی اصول جیساکہ حضرت مسیح موعود ؑ نے بتایا یہاں بھی چلے گا۔ ہاں ہم ایسے لوگوں کے خلاف قانون بھی ہاتھ میں نہیں لیتے کیونکہ یہ بھی اسلامی تعلیم کا حصہ ہے کہ کسی بھی صورت میں قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لینا۔