سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کے فضائل
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۶؍ فروری ۲۰۱۸ء)
ایک مومن کو، ایک ایسے شخص کو جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہوں، اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَاخَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّالِیَعۡبُدُوۡنِ (الذاریات:57) یعنی ہم نے جنّ و اِنس کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں عبادت کے طریق بھی بتائے جن میں عملی حصہ بھی ہے یعنی ظاہری حرکات و سکنات اور دعاؤں کے الفاظ بھی ہیں جسے ذکر بھی کہہ سکتے ہیں۔ نماز میں یہ دونوں باتیں موجود ہیں۔ یعنی ظاہری حرکات بھی ہیں اور ذکر بھی ہے۔ دعائیں بھی ہیں۔ لیکن نمازوں کے علاوہ بھی ذکر اور دعائیں اور خدا تعالیٰ کو یاد رکھنا ایک مومن کا کام ہے۔ قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ نے بہت سی دعائیں مختلف انبیاء کے حوالے سے بتائی ہیں جو ہم نماز میں بھی پڑھ سکتے ہیں اور چلتے پھرتے ذکر کے طور پر بھی پڑھتے ہیں اور پڑھ سکتے ہیں۔ لوگ اپنے خطوں میں لکھتے ہیں کہ ہمیں فلاں مشکل ہے، فلاں پریشانی ہے، کوئی دعا اور ذکر بتائیں جس کا ورد ہم کرتے رہا کریں اور ہماری مشکلات اور پریشانیاں دُور ہوں۔ عموماً لوگوں کو مَیں یہی لکھتا ہوں کہ نمازوں کی طرف توجہ دیں۔ سجدوں میں دعائیں کریں۔ نماز میں دعائیں کریں۔ اور اپنے خد اتعالیٰ سے مدد مانگیں۔ لیکن آج میں ایک ذکر کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت بھی ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اتری ہوئی دعائیں بھی ہیں اور جس کے مطالب پر غور کر کے پڑھنے سے جہاں انسان اللہ تعالیٰ کی توحید کا ادراک حاصل کرتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور پناہ میں بھی آتا ہے اور ہر قسم کے شرور سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ خود باقاعدگی سے روزانہ رات کو سونے سے پہلے ان آیات اور دعاؤں کو پڑھا کرتے تھے بلکہ صحابہ کو بھی پڑھنے کی تلقین فرماتے تھے اور بہت ساری جگہوں پر اِن دعاؤں کی ان آیات کی اہمیت بیان فرمائی۔ آپ نے اس کے فوائد بیان فرمائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ذاتی عمل کے بارے میں اس سلسلہ میں روایت آتی ہے۔
روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سوتے وقت آیۃ الکرسی، سورۃ اخلاص، سورۃ فلق اور سورۃالنّاس یعنی قرآن کریم کی جو آخری تین سورتیں ہیں، یہ اور آیۃ الکرسی تین دفعہ پڑھ کر ہاتھوں پر پھونکتے اور پھر اپنے ہاتھوں کو جسم پر اس طرح پھیرتے کہ سر سے شروع کر کے جہاں تک جسم پر ہاتھ جا سکتا جسم پر پھیرتے۔
پس جس کام کو آپؐ نے باقاعدہ جاری رکھا یا باقاعدگی سے کیا تو یہ آپ کی سنّت بنی اور اس کام کو ہر مسلمان کو کرنا چاہئے اور ہم احمدی جن کی اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر سنت پر عمل کرنے کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مزید رہنمائی فرمائی ہے ہمیں اس پر عمل کرنے کی خاص کوشش کرنی چاہئے اور خاص طور پر ان حالات میں جن میں سے ہم گزر رہے ہیں دعاؤں اور نمازوں اور اذکار کی طرف خاص طور پر نہ صرف اپنی ذاتی روحانی اور دنیاوی ضروریات کے لئے توجہ دینی چاہئے بلکہ جماعتی فتنوں اور فسادوں اور حاسدوں اور دشمنوں کے شر سے بچنے کے لئے بھی ایک انتہائی اہم فرض سمجھ کر توجہ دینی چاہئے۔
اس ذکر اور آیات کی اہمیت بعض اور احادیث سے بھی ملتی ہے جو مَیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ جہاں تک آیۃالکرسی کا تعلق ہے اس کے بارے میں دو جمعہ پہلے مَیں بیان کر چکا ہوں۔ آج قرآن کریم کی آخری تین سورتوں کے بارے میں احادیث کے حوالے سے بات کروں گا۔ کس طرح بار بار اور مختلف رنگ میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ان سورتوں کے پڑھنے کے بارے میں تلقین فرمائی ہے۔
ایک روایت میں آخری تینوں قُل پڑھ کر جسم پر پھونکنے کے بارے میں حضرت عائشہؓ اس طرح بیان فرماتی ہیں۔ فرمایا کہ ہر رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بستر پر لیٹتے تو اپنی ہتھیلیوں کو جوڑتے اور پھر ان پر پھونکتے اور ان میں یہ پڑھتےقُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ و۔ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ و۔ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ یعنی یہ تینوں سورتیں پڑھتے اور پھر جہاں تک ممکن ہوتا دونوں ہاتھوں کو جسم پر پھیرتے۔ آپ اپنے سر اور چہرے سے دونوں ہاتھ پھیرنا شروع کرتے اور پھر جو جسم کا حصہ آتا جہاں تک آپ کا ہاتھ جا سکتا تھا آپ تین بار ایسا کرتے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب فضل المعوذات)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا اہتمام اس باقاعدگی سے فرماتے تھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بیماری میں خود یہ دعائیں پڑھتیں اور آپ کے ہاتھوں پر پھونک کر آپ کے ہاتھ ہی آپ کے جسم پر پھیرتیں۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوتے تو معوّذات پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے۔ کہتی ہیں جب آپ کی بیماری سخت ہو گئی تو مَیں یہ سورتیں آپ پر پڑھتی اور آپ کے ہاتھ ان کی برکت کی امید سے آپ پر پھیرتی۔ (صحیح بخاری۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب فضل المعوذات)
پس یہ خیال حضرت عائشہؓ کو آنا یقیناً اس وجہ سے تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس میں بہت باقاعدہ تھے اور اس کی برکت کی اہمیت حضرت عائشہؓ پر خوب کھول کر واضح فرمائی تھی۔