آسمان ان کے مخالف گواہی دے رہا ہے
مجھے بڑا تعجب ہے کہ باوجودیکہ نشان پر نشان ظاہر ہوتے جاتے ہیں مگر پھر بھی مولویوں کو سچائی کے قبول کرنے کی طرف توجہ نہیں۔ وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ہر میدان میں خدا تعالیٰ ان کو شکست دیتا ہے اور وہ بہت ہی چاہتے ہیں کہ کسی قسم کی تائید الٰہی ان کی نسبت بھی ثابت ہو مگر بجائے تائید کے دن بدن ان کا خذلان اور ان کا نامراد ہونا ثابت ہوتا جاتا ہے۔ مثلاً جن دنوں میں جنتریوں کے ذریعہ سے یہ مشہور ہوا تھا کہ حال کے رمضان میں سورج اور چاند دونوں کو گرہن لگے گا اور لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ یہ امام موعود کے ظہور کا نشان ہے تو اس وقت مولویوں کے دلوں میں یہ دھڑکہ شروع ہو گیا تھا کہ مہدی اور مسیح ہونے کا مدّعی تو یہی ایک شخص میدان میں کھڑا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ لوگ اس کی طرف جھک جائیں۔ تب اس نشان کے چھپانے کے لئے اوّل تو بعض نے یہ کہنا شروع کیا کہ اس رمضان میں ہرگز کسوف خسوف نہیں ہو گا بلکہ اس وقت ہو گا کہ جب ان کے امام مہدی ظہور فرما ہوں گے اور جب رمضان میں خسوف کسوف ہو چکا تو پھر یہ بہانہ پیش کیا کہ یہ کسوف خسوف حدیث کے لفظوں سے مطابق نہیں کیونکہ حدیث میں یہ ہے کہ چاند کو گرہن اوّل رات میں لگے گا اور سورج کو گرہن درمیان کی تاریخ میں لگے گا۔ حالانکہ اس کسوف خسوف میں چاند کو گرہن تیرھویں رات میں لگا اور سورج کو گرہن اٹھائیس تاریخ کو لگا۔ اور جب ان کو سمجھایا گیا کہ حدیث میں مہینے کی پہلی تاریخ مرادنہیں اور پہلی تاریخ کے چاند کو قمر نہیں کہہ سکتے اس کا نام تو ہلال ہے اور حدیث میں قمر کا لفظ ہے نہ ہلال کا لفظ۔ سو حدیث کے معنے یہ ہیں کہ چاند کو اس پہلی رات میں گرہن لگے گا جو اُس کے گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات ہے یعنی مہینے کی تیرھویں رات۔ اور سورج کو درمیان کے دن میں گرہن لگے گا یعنی اٹھائیس تاریخ جو اس کے گرہن کے دنوں میں سے درمیانی دن ہے۔
تب یہ نادان مولوی اس صحیح معنے کو سن کر بہت شرمندہ ہوئے اور پھر بڑی جانکاہی سے یہ دوسرا عذر بنایا کہ حدیث کے رجال میں سے ایک راوی اچھا آدمی نہیں ہے۔ تب ان کو کہا گیا کہ جب کہ حدیث کی پیشگوئی پوری ہو گئی تو وہ جرح جس کی بنا شک پر ہے۔ اس یقینی واقعہ کے مقابل پر جو حدیث کی صحت پر ایک قوی دلیل ہے کچھ چیز ہی نہیں۔ یعنی پیشگوئی کا پورا ہونا یہ گواہی دے رہا ہے کہ یہ صادق کا کلام ہے۔
(ضرورۃ الامام، روحانی خزائن جلد ۱۳صفحہ ۵۰۷تا ۵۰۸)