ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
ایک بزرگ نو مبائع کی داستان
۱۷؍مئی ۲۰۱۶ء کو حضور انور نے دوران ملاقات Stockholmکی جماعت کی احمدی فیملیز سے ملاقات فرمائی۔ ملاقات کا یہ پروگرام بھی ہوٹل کے ایک میٹنگ روم میں منعقد ہوا۔ حضور انور سے ملاقات کی سعادت پانے والے ابتدائی احباب میں ایک معمر سویڈش نو مبائع محمد یوسف صاحب (عمر ۹۲؍سال )بھی تھے۔ حضور انور سے ان کی ملاقات کے چند لمحات کے بعد میں نے ان سے بات کی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ پانچ سال قبل انہوں نے کس طرح احمدیت قبول کی تھی۔ ایسا ہوا کہ ایک دن وہ سویڈن میں سیر کر رہے تھے کہ اچانک تیز بارش شروع ہو گئی اور وہ اس تیز بارش میں پھنس گئے۔انہوں نے کسی محفوظ مقام کی تلاش کی اور قریب ہی ایک لوکل احمدیہ سنٹر دیکھا اور اس میں چلے گئے تاکہ وہ بارش سے بچ سکیں۔ ایک احمدی جو وہاں موجود تھےانہوں نے انہیں کچھ لٹریچر دیا اور اگرچہ وہ حیران تھے تاہم وہ اسے پڑھنے لگے۔
محمد یوسف صاحب نے بتایا کہ میں نےلٹریچر پڑھا جو مجھے دیا گیا تھا اور دو فقرے ایسے تھے جنہوں نے میرے دل کو چھوا اور مجھے متاثر کیا ۔ایک ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘ اور دوسرا ’’جہاد قلم سے ہے نہ کہ تلوار سے‘‘۔ ان دو فقروں نے مجھے بے حد متاثر کیا اورمیں نےمزید پڑھا اور بالآخر مجھے احساس ہوا کہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ آج پانچ سال بعد مجھے کوئی شک نہیں ہے کہ میں نے صحیح فیصلہ کیا تھا۔احمدیت دنیا میں ہونے والی غلط کاریوں کے مقابلہ میں ایک محفوظ جنت ہے۔ مثال کے طور پر یہ انتہا پسندی اور مذہبی بنیاد پرستی کے مقابل پر ایک محفوظ جنت ہے ۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کی فیملی اور دوست احباب ان کے اسلام قبول کرنے پر افسردہ تھے اور ابھی تک بعض کے لیے یہ قبول کرنا مشکل ہےکہ وہ مسلمان ہو چکے ہیں۔ بہرحال انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ احمدیت، محبت اور شفقت کا ایک مذہب ہے۔ اس لیے یہ صورت حال پہلے سے بہت بہتر ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اب ان کی اہلیہ جو مسلمان نہیں ہیں، خاص طور پر ماہ رمضان میں ان کے لیے افطاری تیار کرتی ہیں۔
احمدیوں کے جذبات
میری ملاقات ایک اور احمدی دوست ذیشان خرم صاحب (عمر ۳۵؍سال) سے ہوئی، ان کا تعلق ربوہ سے تھا اور وہ ۲۰۱۰ءسے سویڈن شفٹ ہو گئےتھے۔ میری ان سے ملاقات اس وقت ہوئی جب ان کی حضرت خلیفۃ المسیح سے پہلی ملاقات ہوئی تھی، اگرچہ انہوں نے خلافت سے قبل حضور انور کو چند مرتبہ دیکھا تھا۔
ربوہ کے اسی دَور کے متعلق ذیشان صاحب نے مجھے بتایا کہ مجھے ابھی بھی ۱۹۹۷ءمیں حضور انور کو پہلی مرتبہ دیکھنا یاد ہے جب آپ کا تقرر بطور ناظرِ اعلیٰ ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ میں اس وقت بھی سوچ رہا تھا کہ آپ ایک منفرد روحانی پاکیزگی کے مالک ہیں۔ اپنی teenageکی عمر میں آپ کی زیارت نے میرے دل پر ایک خاص اثر کیا تھا۔
ذیشان صاحب نے مزید بتایا کہ میرے والد صاحب کی وفات کے وقت میری عمر سات سال تھی۔ ہماری فیملی غریب تھی اس لیے ہم نے جماعتی سکالرشپ کے لیے اپلائی کیا تھا تاکہ میری سکول کی فیس ادا ہو سکے۔ ابتدا میں میری درخواست مسترد ہو گئی تھی لیکن جب میں نے براہ راست حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو تحریر کیا تو آپ نے فورا ًمیری درخواست منظور فرما لی۔ ہمارے موجودہ خلیفہ، جو اس وقت ناظر اعلیٰ تھے، آپ نے وہ فیس مجھے عطا فرمائی تھی۔ اس لیے میں گواہ ہوں اور علیٰ وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح وہ وجود ہیں جو یتامیٰ سے محبت کرتے اور ان کا خیال رکھنے والے ہیں۔ آپ وہ وجود ہیں جو ان کا ہاتھ پکڑتے ہیں، انہیں محبت اور طمانیت کا احساس دلاتے ہیں، ان کے لیے ایک محفوظ قلعہ اور ان کے محافظ ہیں۔
موصوف نے بہتے ہوئے آنسوؤں کےساتھ بتایا کہ میں قسم کھاتا ہوں کہ میں اپنی جان، مال اور ہر چیز حضرت خلیفۃ المسیح کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار ہوں کیونکہ یہ حضرت خلیفۃ المسیح ہی ہیں جنہوں نے اس وقت میری مدد فرمائی جب میرے پاس کچھ نہیں تھا۔
میری ملاقات ایک نوجوان میاں بیوی سے ہوئی، اشعر وسیم (عمر ۲۹؍سال )اور ان کی اہلیہ فائقہ ندرت (عمر ۲۹؍سال)۔دونوں کا تعلق لاہور سے تھا۔ دونوں نہایت خوش مزاج تھے اور حضور انور سے ملاقات کی وجہ سے بے حد خوش تھے۔ اپنے تجربات کے بارے میں فائقہ صاحبہ نے بتایا کہ میری مسکراہٹ رک نہیں رہی۔ حضور انور کے ساتھ وہ لمحات جیسے ایک لحظہ میں گزر گئے اور مجھے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا کہ میری ابھی ابھی حضور سے ملاقات ہوئی ہے۔ اس وقت مجھے بلند فشار خون ہے لیکن میرا خیال ہے کہ یہ ایک اچھی علامت ہے کہ حضور انور سے ملنے کے بعد میری روحانیت میں اضافہ ہوا ہے۔
وہ ہنسنے لگیں اور بتایا کہ ان کے شوہر حضور انور کے سامنے بہت گھبرا گئے تھے اور انہیں الفاظ کی ادائیگی میں بھی دشواری کا سامنا تھا۔میں نے انہیں بتایا کہ وہ پریشان نہ ہوں اور یہ بھی کہ اگرچہ مجھے حضور انور سے مستقل ملنے کی سعادت حاصل ہے پھر بھی مجھ سے بھی ایسی غلطیاں مستقل ہوتی رہتی ہیں۔
میری ملاقات تین نو مبائعین سے بھی ہوئی ۔ان میں سے دو ایمن صاحب(عمر۲۲؍سال )اور الماس صاحب( عمر ۲۷؍سال) تھے، جو شام اور عراق سے بطور مہاجر سویڈن آئے تھے جبکہ تیسرے دوست Jesus Martinezصاحب تھے جو جنوبی امریکہ سے تعلق رکھتے تھے۔ان میں سے ہر ایک نے قبولِ احمدیت کے بعد سے اپنی زندگیوں میں ہونے والی مثبت تبدیلیوں کے بارے میں بتایا اور اس روز صبح کے وقت حضور انور سے ہونے والی ملاقات کے بعد اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ شام سے تعلق رکھنے والے دوست ایمن صاحب نے بتایا کہ آج حضور انور سے ملاقات کے بعد میں جذبات سے بے حد مغلوب ہوں۔ آپ اس قدر پر حکمت اور شفیق وجود ہیں۔ جو بھی آپ بیان فرماتے ہیں اس میں گہرائی اور گہرے معنی ہوتے ہیں۔ ہم نے شام میں جنگ کے متعلق بھی گفتگو کی اور حضور انور نے فرمایا کہ ظلم کو تو کبھی بھی قبول نہیں کیا جا سکتا اس لیے جو لوگ یا گروپ بھی نا انصافی سے کام لے رہے ہیں وہ غلط کر رہے ہیں اور اسلامی تعلیمات کے خلاف کر رہے ہیں۔
الماس صاحب جن کا تعلق عراق سے تھا اور انہوں نے دو سال قبل احمدیت قبول کی تھی، نے بتایا کہ میں اس قدر خوش ہوں کہ میں اپنے جذبات کو الفاظ میں ادا کرنے سے قاصر ہوں۔ میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو ہیں کیونکہ میں ایک ایسے خلیفہ سے ملا ہوں جو خوبصورت ہیں، جو سراپا محبت ہیں اور آپ ہم سب کی راہنمائی فرماتے ہیں۔ آپ سے ملاقات میری زندگی کے بہترین لمحات میں سے تھی۔
Jesus Martinez صاحب نے بتایا کہ مجھے احمدیت قبول کیے تین ماہ ہوئے ہیں اس لیے میں اپنے تئیں بہت سعادت مند خیال کرتا ہوں کہ میں خلیفہ سے مل چکا ہوں۔ ایسے پُرخلوص اور نیک شخص کو دیکھنا نہایت ایمان افروز تھا۔ شاید یہ بات تعجب انگیز ہو لیکن میں اپنے اندر ابھی سےایک تبدیلی اور اپنے آپ کو خدا سے زیادہ قریب محسوس کر رہا ہوں۔
چند بابرکت لمحات
صبح ملاقاتوں کا سلسلہ ختم ہونے پر حضور انور نے مجھے ہوٹل میں کچھ وقت کے لیے اپنے دفتر میں بلایا۔ میں نے حضور انور سے عرض کی کہ چند روز قبل میری ملاقات ایک جرمن خادم سے ہوئی تھی جنہوں نے چند سال قبل دیکھا تھا کہ حضور انور اپنے خطابات کے دوران اکثر اپنےنوٹس کی مدد سے پڑھتے ہیں۔ اس خادم نے کہا کہ اس کا خیال تھا کہ نوٹس سے پڑھنے کی بجائے شاید زبانی تقریر سے زیادہ اثر ہو جیسا کہ اس نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔تاہم گذشتہ چند سالوں میں سیکیورٹی ڈیوٹی کے دوران کئی استقبالیہ کے مواقع پر جہاں کہیں بھی وہ گئے ہیں انہوں نے حضور انور کے الفاظ کا غیر معمولی اثر دیکھا ہے۔ اس خادم نے مجھے بتایا کہ اب وہ اپنے سابقہ خیالات پر نادم ہے۔ یہ سننے پر حضور انور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام کو یاد رکھیں کہ ’’تیری رعب کے ساتھ مدد کی گئی ہے‘‘۔ اگر ہمارا یہ ایمان ہے کہ یہ الہام آج بھی پورا ہو رہا ہے اور خلافت کو اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل ہے تو پھر اس سے فرق نہیں پڑتا کہ خلیفہ وقت اپنا خطاب کیسے کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے الفاظ میں برکت رکھ دیتا ہے۔
بعد ازاں حضور انور نے نہایت شفقت سے مجھے بتایا کہ آپ کے نوٹس سے دیکھ کر پڑھنے کی کیا وجہ ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ میرے خطبات اور تقاریر میں نوٹس استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اگر میں ایسا نہ کروں تو میری تقریر زیادہ لمبی ہو جائے گی۔ جب میں جامعہ احمدیہ میں خطاب کرتا ہوں تو بالعموم وہ زبانی ہوتے ہیں اور میرا ارادہ صرف دس سے پندرہ منٹ تک بات کرنے کا ہوتا ہے لیکن ہمیشہ ہی میری تقاریر چالیس سے پینتالیس منٹ تک لمبی ہو جاتی ہیں۔
بعد ازاں حضور انور نے اپنے اس خطاب کا ذکر فرمایا جو اس دن Stockholmمیں آپ نے فرمانا تھا۔ ابتدا میں سویڈن جماعت نے تجویز دی تھی کہ حضور انور اپنے دورہ کے دوران سویڈن کے شہر Kalmarکا ایک روزہ دورہ فرمائیںاور خیال تھا کہ حضور انور اس شہر میں ایک خطاب فرمائیں گے۔تاہم بعض مسائل کی وجہ سے یہ پلان تبدیل ہو گیا۔
اس حوالے سے حضورانور نے فرمایا کہ میں نے اس خطاب میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں جو میںKalmar میں کرنے والا تھا اور وہ میں آج شام کو کروں گا۔ جونوٹس میں نے ابتدائی طور پر Stockholm کے لیے تیار کیے تھے وہ ان شاءاللہ کسی دوسرے موقع پر استعمال ہو جائیں گے ۔
میں نے حضور انور سے عرض کی کہ آپ نے مجھے اس دورہ کے بعد کیلیفورنیا امریکہ میں خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں شامل ہونے کی ہدایت فرمائی ہے۔ حضور انور نے نہایت شفقت اور محبت سے خاکسار سے استفسار فرمایا کہ آپ کی تقریر کا موضوع کیا ہے۔ جس پر میں نے عرض کی کہ ’’برکاتِ خلافت‘‘۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ’ جب تم تقریر شروع کرو تو خدام کو یاد کروانا کہ خلافت احمدیہ قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیش گوئیوں کے مطابق قائم ہوئی ہے۔ اگر ہمارا اس پر ایمان ہے اور یہ کہ اللہ ایک زندہ خدا ہےتو پھر ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید ہمیشہ کی طرح خلیفہ وقت کے ساتھ ہے۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ پھر انہیں بتانا کہ تم نے خلیفہ وقت کے ساتھ سفر کیا ہے اور خلافت کی برکات کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے اور اپنے تجربات میں سے چند واقعات سنانا۔ پھر ان دورہ جات کے دوران تم جو غیر احمدی اور غیر مسلم لوگوں سے ملے ہو اس کے بارے بتانا کہ کس طرح خلیفۃ المسیح کو ملنے اور سننے کے بعد ان کا اسلام کے بارے میں موقف یکسر بدل گیا۔
حضور انور نے فرمایا کہ اس دورہ سے متعلق انہیں اس خاتون اور ان کے شوہر کے متعلق بتانا کہ ان کا خیال تھا کہ شاید وہ ایک دہشت گرد حملے کا نشانہ بن جائیں گے مگر انہوں نے Copenhagen کے استقبالیہ میں شرکت کی اور اس میں شمولیت کے بعد ان دونوں کو صرف امن کا احساس ہوا۔
میں حضور انور کی راہنمائی پر بے حد مشکور تھا۔ مجھے اس قدر تفصیلی راہنمائی کی امید نہ تھی کیونکہ حضور انور اس دورہ کے دوران بہت زیادہ مصروف تھے۔ حضور انور کی راہنمائی اور دعاؤں سے جب میں امریکہ گیا تو جو تقاریر میں نے کیں وہ میری توقعات سے بہت اچھی رہیں۔ الحمدللہ۔ حضور انور کے ساتھ یہ لمحات بہت قیمتی تھے۔
(مترجم:’ابوسلطان‘، معاونت: مظفرہ ثروت)