حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی ایک تحریک سورۃ البقرہ کی پہلی سترہ آیات کا حفظ
سارے علوم کا ہاں منبع ہے ذات جس کی
اس سے میں علم لے کر دنیا کو آگے دوں گا
حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا زمانہ خلافت ۸؍نومبر ۱۹۶۵ءسے۹؍جون ۱۹۸۲ء تک ممتد ہے۔ آپؒ نے خلافت کے آغاز پر مستورات میں درس قرآن شروع کیا جو سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ کے چند رکوع تک جاری رہا۔
ایک الٰہی تحریک
سورۃ البقرۃ کی پہلی سترہ آیات میں جو مضمون بیان ہوا ہے اس کے بارے میں آپؒ نے فرمایا :’’ ایک رنگ میں قرآن کریم انہی تین نکتوں کے گرد گھومتا ہے یعنی یا متقیوں اور تقویٰ کے متعلق بتا رہا ہوتا ہے یا وہ کافروں کے متعلق کچھ بیان کر رہا ہوتا ہے یا منافقوں کے متعلق اور اللہ تعالیٰ کا جس رنگ میں جس طریق پر ان پر غضب نازل ہوتا ہے اس کے متعلق کچھ فرما رہا ہوتا ہے۔‘‘(درس مستورات ۱۴؍مئی ۱۹۶۶ء بحوالہ کتاب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث صفحہ۲۳۔۲۴)
فرمایا:’’میرے دل میں یہ خواہش شدت سے پیدا کی گئی کہ قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ کی ابتدائی سترہ آیتیں ہر احمدی کو یاد ہونی چاہئیں اور ان کے معانی آنے چاہئیں اور جس حد تک ممکن ہو ان کی تفسیر بھی آنی چاہیے اور پھر ہمیشہ دماغ میں وہ مستحضر بھی رہنی چاہیے۔ ‘‘ (حیات ناصر جلد اول صفحہ۴۵۷-۴۵۸ )
مومن، کافر، منافق
سورۃ البقرۃ کی پہلی چھ آیات میں مومنوں کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔ اگلی دو آیات میں کافروں کا ذکر ہے اور اس کے بعد نو آیات میں منافقوں کوبےنقاب کیا گیا ہے۔
کافر تو کھل کر مخالفت کرتے ہیں لیکن منافقین ان سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں جو اندر ہی اندر وسوسے ڈالتے رہتے ہیں۔
منافقین کا منہ بند کرنے کے لیے خدا خود آگے آتا ہے اور ان پر اتمام حجت کرتا ہے۔
منافقوں کا انجام
سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ یقیناً منافقین آگ کی انتہائی گہرائی میں ہوں گے اور تو ان کے لئے کوئی مدد گار نہ پائے گا۔ مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی اور اصلاح کی اور اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور دین کو اللہ کے لئے خالص کر لیا تو یہی وہ لوگ ہیں جو مومنوں کے ساتھ ہیں اور عنقریب اللہ مومنوں کو ایک بڑا اجر عطا کرے گا۔‘‘(النساء : ۱۴۶، ۱۴۷)