اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم پکڑ میں جلدی نہیں کرتے
اللہ تعالیٰ کی ایک صفت حلیم ہے جس کے معنی (اگر وہ خداتعالیٰ کے لئے استعمال کی جائے تو) یہ ہیں کہ رحم کرنے والی ہستی، معاف کرنے والا، درگزر کرنے والا یعنی نافرمانی کی صورت میں نافرمانوں پر فوری طور پر غضب نازل نہیں کرتا۔ نافرمانی اسے بے چین نہیں کرتی۔ پھر پردہ پوشی کرنے والا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی اس صفت میں کئی صفات کے معنی آ گئے ہیں۔ رحیم بھی ہے۔ غفور بھی ہے۔ ستّار بھی ہے لیکن جب انسان اصرار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کو توڑنا شروع کر دیتا ہے تو پھر اگر وہ چاہے تو اس کی وہ صفات کام کرنا شروع کر دیتی ہیں جن میں پکڑ اور سزا بھی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف جگہوں پراس بات کا ذکر فرمایا ہے کہ ہم پکڑ میں جلدی نہیں کرتے۔ کیونکہ اگر خداتعالیٰ پکڑ میں جلدی کرنے لگ جائے تو انسان جو گناہوں کا پُتلاہے، ہر گناہ اور جرم پر اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آ کر سزا پانے والا بن جائے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ میں بڑے گناہ کرنے والوں کو بھی ڈھیل دیتا ہوں حتیٰ کہ کفار، اور انبیاء کو جو لوگ دکھ اور تکلیف دینے والے ہیں ان کو بھی چُھوٹ دیتا ہوں۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے:وَلَوۡ یُؤَاخِذُ اللّٰہُ النَّاسَ بِظُلۡمِہِمۡ مَّا تَرَکَ عَلَیۡہَا مِنۡ دَآبَّۃٍ وَّلٰکِنۡ یُّؤَخِّرُہُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ لَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسۡتَقۡدِمُوۡنَ(النحل:62) اور اگر اللہ انسانوں کا ان کے ظلم کی بنا پر مؤاخذہ کرتا تو اس زمین پر کوئی جاندار باقی نہ چھوڑتا لیکن وہ انہیں ایک طے شدہ میعاد تک مہلت دیتا ہے۔ پس جب ان کی میعاد آ پہنچے تو نہ وہ اس سے ایک لمحہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ تو یہ ہے جواب ان لوگوں کو جو خدا کو نہ ماننے والے ہیں، جو انبیاء سے استہزاء کا سلوک کرنے والے ہیں، جن کو دنیا کی چکاچوند نے بالکل اندھا کر دیا ہوا ہے کہ اللہ غلط کام کرنے والوں کو اور اپنے پیاروں کے ساتھ استہزاء کرنے والوں کوضرور پکڑتاہے۔ اس لئے یہ نہ سمجھو کہ تمہیں اگر کبھی اللہ تعالیٰ نے نہیں پکڑا یا ابھی تک اللہ تعالیٰ کی پکڑ نہیں آئی تونعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کے نبی غلط ہیں یا خداتعالیٰ کا کوئی وجود نہیں ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴؍ مارچ ۲۰۰۸ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۴؍ اپریل ۲۰۰۸ء)
تمام حقائق بہت عمدگی سے دوسروں تک پہنچا رہے ہیں۔ ماشاءللہ