مسجد بیت السلام (سکنتھورپ) کا افتتاح: ایک رپورٹ
اسلام آباد ٹلفورڈ سے تقریباً سوا دو سو میل شمال کی جانب برطانیہ کی کاؤنٹیNorth Lincolnshire میں اسّی ہزار سے زائد آبادی پر مشتمل ایک شہر سکنتھورپ واقع ہے جس کی شہرت اس میں موجود کارخانوں کی وجہ سے ہے۔ یہاں زیادہ تر اسٹیل کے کارخانے پائےجاتے ہیں لیکن اشیائے خورو نوش بھی یہاں تیار کی جاتی ہیں۔ یہ تمام خصوصیات دنیاوی لحاظ سے اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہوں گی لیکن عالم روحانی میں اس شہر کا امتیاز یہ ہے کہ یہاں چھ مرتبہ خلیفۃ المسیح کے مبارک قدم پڑے ہیں اور آج ۱۷؍جون ۲۰۲۳ء بروز ہفتہ ساتویں مرتبہ قدرت ثانیہ کے مظہر خامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس شہرکی پہلی purpose builtمسجد کا افتتاح کرنے کی غرض سے قدم رنجہ فرمایااور اس سرزمین کو برکت بخشی۔فالحمدللہ علیٰ ذالک۔
عرفان قریشی صاحب سیکرٹری جائیداد جماعت یوکے نے نمائندہ الفضل انٹرنیشنل کو بتایا کہ سکنتھورپ میں جماعت ۱۹۹۹ء میں قائم ہوئی۔ اس وقت یہاں صرف دو فیملیزآباد تھیں۔ابتدا میں ڈاکٹرسید مظفراحمد صاحب(ریجنل امیر نارتھ ایسٹ) کا گھر بطور نماز سینٹر استعمال ہوتا تھا۔
مسجد بیت السلام کی تاریخ بیان کرتے ہوئے موصوف نے بتایاکہ یہ جگہ جماعت نے دسمبر ۲۰۰۲ء میں خریدی تھی۔ جس میں دو بڑے ہالز شامل تھے۔ کونسل کی اجازت سے اسے بطور مسجد استعمال کیا جاتا رہا۔ اس جگہ کا نام حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ’بیت السلام‘ عطا فرمایا۔ ۲۰۱۵ء میں اس زمین کے بالکل ساتھ ایک گھر (bungalow) جماعت نے خریدنے کی توفیق پائی۔ پھر مئی ۲۰۲۰ء میں جماعت کی جگہ سے ملحق قطعہ زمین خریدا گیا۔ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے سکنتھورپ میں مسجد بنانے کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا۔ چنانچہ ۲۰۱۶ء میں جماعت کو مسجد بنانے کی planning permission حاصل ہوگئی تھی اور مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت برطانیہ نے ۲۴؍مارچ۲۰۱۸ء کو اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جس کے ساتھ ہی تعمیر کا کام شروع ہوا جو ۲۰۲۲ء میں مکمل ہوا۔ مسجد کل تین منزلوں پر مشتمل ہے۔ اس کا مسقف احاطہ ۵۲۰ ؍مربع میٹر ہے۔ گراؤنڈ فلور پر مردانہ ہال ہے جہاں پر ۱۵۰ ؍افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔
مکرم قمر الدین محمد صاحب صدر جماعت سکنتھورپ نے نمائندہ الفضل انٹرنیشنل کو مسجد کی تعمیر کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جب نماز سینٹر کی جگہ ہمیں چھوٹی پڑ گئی تو ہم نئی جگہ خریدنے کی تلاش میں تھے لیکن کوئی مناسب جگہ نہیں ملی۔ پھر حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ ہم جماعت کی خریدی ہوئی جگہ پرہی مسجد تعمیر کریں۔ چنانچہ پرانی عمارت کو گرا کر از سر نو مسجد تعمیر کی گئی۔
مساجد کی تعمیر کے لیے مالی قربانی ایک لازمی امر ہے۔ جماعت احمدیہ کے افراد ہر ملک میں اس حوالے سے پیش پیش ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ افراد جماعت صرف مساجد کی تعمیر کے لیے مال نہیں دیتے بلکہ اس جذبہ اور دلی محبت کے ساتھ قربانی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی عاجزانہ کاوشوں کو قبول فرمائے اور اس جہان میں خدا کی اعلیٰ شان لوگوں پر ظاہر ہو۔
صدر صاحب جماعت نےتعمیر کے اخراجات اور مقامی جماعت کی مالی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ شروع میں اندازہ لگایا گیاتھا کہ مسجد پر کل خرچ چار لاکھ پاؤنڈز آئے گا۔ چنانچہ مقامی احباب جماعت نے مسجد کی تعمیر کی مدّ میں چندہ دیا۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ خرچ ہمارے تخمینے سے کافی بڑھ گیا اور اب مسجد کی تعمیر پر کل خرچ ۹؍ لاکھ ۲۰؍ ہزار پاؤنڈز ہو چکا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے احباب جماعت نے قربانی کی اعلیٰ مثالیں پیش کیں اور اس مسجد کی تعمیر کے لیے مکمل رقم مقامی احبابِ جماعت نے ادا کی۔
صدر صاحب نے مالی قربانی کی ایک اعلیٰ مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ایک ممبر نے مسجد کی تعمیر کے لیے ایک لاکھ ۷۰ ہزار پاؤنڈز سے زائد چندہ دینے کی توفیق پائی۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بنفس نفیس اس مسجد کے افتتاح کے لیے تشریف لائے۔ چنانچہ مقامی جماعت نے دن رات ایک کر کے حضور انور کی آمد کے حوالے سے تیاریاں شروع کیں۔
صدر صاحب جماعت سکنتھورپ نے بتایا کہ جب انہیں اطلاع ملی کہ حضور انور مسجد کے افتتاح کے لیے تشریف لارہے ہیں تو شروع میں خوشی کے ساتھ ساتھ پریشانی بھی ہوئی کہ اتنے مختصر وقت میں ساری تیاریاں کیسے مکمل ہوں گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص فضل فرمایا اور سب کام بسہولت ہوتے رہے۔
جمعہ کی شام ۸ بجے کے قریب جب الفضل انٹرنیشنل کی ٹیم مسجد بیت السلام پہنچی تو اس وقت اگلے دن کی افتتاحی تقریب کے لیے تیاریاں عروج پر تھیں اور فضا میں خوشی اور مسرت کی مہک محسوس کی جا سکتی تھی۔ مسجد کے اندرونی حصے کی صفائی کی جارہی تھی جبکہ مسجد کے صحن میں نصب کی گئی مارکی میں ڈیوٹیوں کے حوالے سے مجلس خدام الاحمدیہ کی میٹنگ جاری تھی۔ اسی طرح لجنہ اماء اللہ کی ممبرات بھی اپنے حصے میں تیاریاں مکمل کر رہی تھیں۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سکنتھورپ جماعت کے علاوہ دور و نزدیک سے اسّی سے زائد احباب جماعت و خدام اس موقع پر خدمت کے جذبے سے یہاں ڈیوٹیاں دینے کے لیے تشریف لائے۔
مسجد کے افتتاح کے موقع پر وسیع تر انتظامات کے پیش نظر ہمسایوں سے بھی تعاون کی درخواست کی جاتی ہے۔ مقامی صدر صاحب نے اس حوالے سے نمائندہ الفضل کو بتایا کہ مسجد کے افتتاح کے دن ہمیں مسجد کی سڑک بالکل خالی چاہیے تھی۔ چنانچہ ہم نے قریب کے پانچ ہمسایوں سے درخواست کی کہ اگر ممکن ہو تو وہ مسجد کے افتتاح کے روز اس سڑک پر گاڑی پارک نہ کریں۔ چنانچہ سب نے بہت خوشی سے ہماری درخواست مان لی اور کہا کہ آپ بالکل فکر نہ کریں ہم اس روز کہیں اور گاڑی پارک کرلیں گے۔
۱۷؍ جون کوصبح سے ہی خدام مختلف ڈیوٹیوں پر مامور تھے اور مختلف شعبہ جات میں مستعدی کے ساتھ خدمات پیش کر رہے تھے۔ شاملین تقریب کے لیے مسجد سے قریباً تین منٹ کی مسافت پر پارکنگ کا انتظام کیا گیا تھا جہاں سے بذریعہ شٹل سروس مہمانوں کو مسجد لا نے کا انتظام تھا۔ مسجد کے احاطے میں داخل ہونے کے لیے رجسٹریشن کارڈ ضروری تھا اور سیکیورٹی پر مامور خدام اس امر کو یقینی بنارہے تھے کہ جس کسی کو بھی مسجد میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے اس کے پاس ضروری شناخت موجود ہو۔
بعض عہدیداران کے تاثرات
مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ یوکے نے حضور انور کے خطاب کے بعد اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سکنتھورپ جماعت کے لیے ایک اہم دن تھا۔ یہ جماعت بہت پرانی جماعت ہے۔ ۲۰۰۴ء میں حضور انور یہاں پہلی بار تشریف لائے تھے۔ اس وقت یہاں ایک چھوٹا سا کاٹیج ہوتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جماعت بڑھتی گئی اور اس جماعت کی یہ خاصیت ہے کہ اس میں ۲۸؍ ڈاکٹرز ہیں۔
امیر صاحب نے بتایا کہ مسجد کی تعمیر کے حوالہ سے ڈاکٹر سید مظفر احمد صاحب ریجنل امیر نارتھ ایسٹ کو خصوصی طور پر جدوجہد اور خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ آپ نے کہا کہ میں بہت خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے یوکے جماعت کو ایک اور مسجد بنانے کی توفیق دی۔ امید ہے کہ یہ سلسلہ بڑھتا چلا جائے۔ پاکستان میں مخالفین جتنی مساجد گراتے ہیں یا توڑتے ہیں اللہ تعالیٰ دنیا بھر میں اس سے کئی گنا زیادہ مساجد بنانے کی توفیق دے رہا ہے اور یہ جماعت کی سچائی کا ایک بہت بڑا نشان ہے۔
آپ نے خلافت احمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ یوکے جماعت کی خوش نصیبی ہے کہ خلافت احمدیہ یہاں موجود ہے۔ اس میں ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ ہم ساری دنیا میں سب سے زیادہ خوش قسمت جماعت ہیں۔میں یوکے جماعت کو یہ کہتا رہتا ہوں کہ وہ جتنی بھی دعائیں کریں کم ہیں۔ ساری دنیا اس انعام کو ڈھونڈ رہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ انعام ہماری جماعت کو دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر اد اکریں۔ ہر وقت اس بات کو یقینی بنائیں کہ حضور انور کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ حضور انور کو صحت والی لمبی زندگی عنایت فرمائے۔اللہ تعالیٰ کے فضل اس جماعت پر بڑھتے جائیں۔ اور اسی طرح ہم آگے سے آگے بڑھتے چلےجائیں۔
ڈاکٹر سید مظفر احمد صاحب ریجنل امیر نارتھ ا یسٹ، حضور انور کے خطاب کے بعد اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں: آج کاد ن ہمارے لیے انتہائی خوشی کا دن ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اپنے رحم سے مسجد بنانے کی توفیق دی اور اس سے بڑا فضل یہ کہ حضور انور نے اس کا افتتاح فرمایا ہے۔ ہر لحاظ سے یہ بابرکت دن ہے۔ دعا کی درخواست ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آج جن باتوں کی ہدایت فرمائی ہے، ان باتوں پر عمل کرنے کی ہمیں توفیق ملے اورہمارے ہمسائے صحیح معنوں میں یہ کہنے والے ہوں کہ جو خلیفہ نے کہا ہے یہ لوگ ایسے ہی ہیں۔
مقامی احباب کے جذبہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ الحمد للہ یہاں ایک ٹیم کی طرح سب نے کام کیا ہے۔ ہر کسی نے مالی قربانی کے ساتھ ساتھ عملی قربانی بھی کی ہے۔ جس کو جو بھی کام دیا گیا اس نے یہ نہیں کہا کہ یہ میں نہیں کرسکتا۔ یہ میرے شایانِ شان نہیں۔ یہاں پر ڈاکٹر اور انجینئرز مسجد پینٹ کرتے رہے، جھاڑو سے صفائی کرتے رہے۔ بڑی عاجزانہ خدمت کی۔
مکرم ڈاکٹرعطاء العلیم خالد صاحب (جنرل سرجن) لوکل سیکرٹری جائیداد نے نمائندہ الفضل انٹرنیشنل کو بتایا کہ ہمیں یہاں تین سال کی قلیل مدت میں مسجد مکمل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضور انور نے اس مسجد کا افتتاح کر کے وہ سعادت بخشی ہے جس کا ہم بہت دیر سے انتظار کر رہے تھے۔ ہمارے جذبات ناقابلِ بیان ہیں۔ ایک ضروری بات یہ ہے کہ یہاں ڈاکٹرز کی تعداد زیادہ ہے جو دن رات کام میں مصروف رہتے ہیں لیکن ہر کسی کی کوشش رہی کہ وہ اس مسجد کی آبادکاری اور تعمیر و تزئین میں کردار ادا کرے۔ یہاں کے نوے فیصد بچوں نے اس مسجد کی تعمیر کے ہر مرحلہ میں حصہ لیا۔اس مسجد کا رنگ و روغن ڈاکٹرز نے کیا۔ کھانے کا انتظام کرنے والے ڈاکٹرز ہیں۔ اس کے علاوہ لجنہ و انصار اور خدام و اطفال نے اس مسجد کی تیاری میں حصہ لیا ہے۔
مکرم نداء الحق صاحب ریجنل قائد یارکشائر ریجن، خدام اور اطفال کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضور انور کووڈ کی وبا کے بعد پہلی دفعہ یہاں تشریف لا رہے ہیں۔ اطفال اور خدام کافی پرجوش ہیں۔ دو تین ہفتوں سے اطفال خدام مل کر رات گئے تک کام کررہے ہیں۔ ان میں ڈاکٹرز، انجینئرز اور دوسرے لوگ شامل ہیں۔ اس دن کی مناسبت سے خدام وقار عمل، مارکیز لگانا اور کھانا پیش کرنے کے علاوہ کئی کام کر رہے ہیں۔
ہڈرز فیلڈ، شیفیلڈ،رادھرم، ڈون کاسٹر، سپین ویلی وغیرہ مجالس سے خدام ڈیڑھ گھنٹہ سفر کر کے خدمت اور پروگرام میں شمولیت کے لیے آئے ہیں۔ خاکسار ان کا بہت شکر گزار ہے کہ انہوں نے وقت نکالا۔ اس کے علاوہ ہمارے ہمسایہ ریجن نارتھ ایسٹ، بریڈفورڈ اور ہارٹلے پول سے بھی خدام تشریف لائے ہیں۔ ہم سب کی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اورحضرت خلیفة المسیح ہم سے راضی رہیں اور ہمیں ان کی اطاعت کرنے کی توفیق ملتی رہے۔آمین
مکرم ڈاکٹر مظفر چودھری صاحب (سیکرٹری تبلیغ سکنتھورپ) جو جماعت سکنتھورپ کے ابتدائی ممبرز میں سے ہیں نے نمائندہ الفضل انٹرنیشنل کو پڑوسیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جب ہم نے شروع میں مسجد بنانے کا ارادہ کیا تھا تو ہمارےپڑوسیوں کا خیال تھا کہ ہم ان کے لیے تنگی کا سبب بنیں گے۔ لیکن الحمد للہ ان کا یہ خیال غلط ثابت ہوا اور انہیں جب بھی ضرورت پڑی جماعت احمدیہ ان کی مدد کے لیے حاضر تھی۔ ہمارے ہمسائے اکثر بڑی عمر کے لوگ ہیں، انہیں جب بھی شاپنگ وغیرہ کی ضرورت پڑتی ہے تو ہمارے خدام ان کی مدد کرتے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں جب برف پڑتی ہے تو ہم ان کے گھروں کے سامنے سے برف صاف کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب ان لوگوں کا ہمارے بارہ میں خیال بالکل بدل گیا ہے۔ مسجد کے افتتاح کے موقع پر ہم نے ان سے پارکنگ کے لیے جگہ کی درخواست کی تو انہوں نے بخوشی ہماری درخواست مان لی۔ الحمد للہ
ڈاکٹر رانا مقبول احمد صاحب(جنرل پریکٹیشنر) مقامی سیکرٹری ضیافت نے نمائندہ الفضل انٹرنیشنل کو بتایا کہ وہ چودہ سال سے سکنتھورپ میں رہ رہے ہیں۔ جب سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد کے افتتاح کی منظوری عنایت فرمائی تبھی سے انتظامیہ تشکیل دے کر کام کا آغاز کر دیا گیا۔ ریجنل امیر صاحب نے خاکسار کو ضیافت کا انچارج مقرر کیا۔ آخری دو ہفتہ میں میری ٹیم نےبہت محنت سے کام کیا۔ نیشنل عاملہ کے ممبران بھی معائنہ کے لیے آئے۔ یہ جماعت ساٹھ سے ستر میل تک محیط ہے۔ اس لیے انصار، خدام دور سے آتے ہیں اور دن رات ایک کرکے خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ جب احباب کام کر رہے ہوتے تھے تو ان کو ہوش نہیں ہوتی تھی کہ ناشتہ بھی کیا ہے یا نہیں۔ شعبہ ضیافت کی ٹیم انہیں جا کر کھانے کا پوچھتی رہتی ہے۔ لجنہ کی ایک انچارج ہیں ان کے تعاون کے ساتھ لجنہ کو بھی کھانا پہنچایا جاتا ہے۔
گذشتہ دو دنوں سے دن رات لوگ کام کر رہے ہیں۔ ستر کے قریب مہمان جو باہر سے آئے ہیں اور واپس نہیں جا سکتے ان کو ہوٹلز میں ٹھہرایا گیا ہے۔ کوشش ہے کہ مہمانان کو ہر ممکن آسائش دی جائے کہ وہ نیک جذبات لے کر واپس جائیں۔ مسجد کی افتتاحی تقریب میں پانچ سو افراد کی آمد متوقع ہے۔ مرد و خواتین کی علیحدہ علیحدہ مارکیاں ہیں۔ اوور فلو کے لیے مسجد کی basement میں بھی انتظام کیا گیا ہے۔ یہ شہر لندن سے چار گھنٹے کی مسافت پر ہے اور یہاں قریب ایشین کھانے کی کیٹرنگ کا کوئی انتظام بھی نہیں۔ مسجد کا کچن بھی چھوٹا ہے۔ چنانچہ افتتاحی تقریب سے پہلے وقار عمل کرنے والوں کے لیےاحباب کرام نے اپنے آپ کو پیش کیا کہ وہ گھروں سے کھانا بنا کر لائیںگے۔ احباب کا یہ جذبہ قابلِ ستائش ہے۔ افتتاحی تقریب میں کھانے کا انتظام نیشنل ضیافت ٹیم کے تعاون کے ساتھ کیا گیا ہے۔آج خوشی کا دن ہے اور جیسے عید کا سماں ہے۔ بچے، بوڑھے، جوان، عورتیں صبح جلد آجاتے ہیں اور رات کو دیر سے جاتے ہیں۔ ہر کوئی حضور انور کی آمد کا منتظر ہے۔ اور یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ اس جماعت میں حضور انور کا ساتواں دورہ ہے
اس تاریخی موقع پر روزنامہ الفضل انٹرنیشنل، ایم ٹی اے انٹرنیشنل، ریویو آف ریلیجنز۔ مخزن تصاویراور وائس آف اسلام ریڈیو کے نمائندگان رپورٹنگ کے لیے موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین