تعمیرِ مساجد کی بنیادی غرض معاشرے میں امن کا قیام ہے: مسجد بیت السلام کی افتتاحی تقریب سے حضورِ انور کا بصیرت افروز خطاب
امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۷؍جون۲۰۲۳ء کو سکنتھورپ میں تعمیر ہونے والی مسجد بیت السلام کی افتتاحی ریسپشن میں بنفسِ نفیس شمولیت فرمائی اور بصیرت افروز خطاب فرمایا۔ اس بابرکت موقع پر حضورپُرنور کا قافلہ Cliff Closes Road پر سہ پہر تین بج کر ۵۳ منٹ پر نمودار ہوا اور مسجد کے دروازے پر رُکا۔ حضورِ انور تین بج کر ۵۴ منٹ پر موٹر سے باہر تشریف لائے جہاں محترم ڈاکٹر سید مظفر احمد صاحب ریجنل امیر نارتھ ایسٹ اور محترم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ یوکے نے اپنے پیارے امام کا استقبال کیا۔ عزیزان نبیل احمد آڈے ڈامولا اوکوبینا (Nabeel Ahmad Adedamola Okubena)اور مامون خالد نے حضورپُرنور کی خدمتِ اقدس میں پھولوں کا گلدستہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ حضورِ انور ایّدہ اللہ نے ازراہِ شفقت دونوں خوش نصیب بچوں کے ماتھوں پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی انگوٹھیوں کو مس فرمایا۔ بعد ازاں حضورِانور اپنے عشاق کے جلو میں مسجد کے دروازے سے اندر داخل ہوئے۔ حضورِ انور خصوصی طور پر بچھائی جانے والی سرخ راہداری سے چلتے ہوئے مسجد بیت السلام کی یادگاری تختی کی نقاب کشائی کے لیے تشریف لے جا رہے تھے تو خدام اور ناصرات کے الگ الگ گروپ ترانوں کے ساتھ اپنے پیارے امام کا استقبال کر رہے تھے۔ حضورِ انور نے تین بج کر ۵۵ منٹ پر افتتاحی تختی پر موجود چادر کو اپنے داہنے ہاتھ سے اٹھایا۔ تختی پر تحریر تھا:
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Ever Merciful
مسجد بیتُ السَّلام
Baitus-Salaam Mosque
Inaugurated by
Hazrat Mirza Masroor Ahmad
Khalifatul Masih V (aba)
On 17th June 2023
بعد ازاں حضورِ انور نے دعا کروائی جس میں مسجد کے احاطہ میں موجود تمام احباب و خواتین اور بچے شامل ہوئے۔ حضور انورنے مسجد کا معائنہ فرمایااور مسجد کے سامنے والے دروازے سے داخل ہو کر سیڑھیاں نیچے اتر کر دائیں جانب مڑے اور لائبریری اور اس سے ملحقہ ہال سے ہوتے ہوئے اوپر تشریف لے گئے اور مسجد کے شرقی جانب قدرے بلند بنائے گئے صحن جہاں پر خواتین کی مارکی نصب کی گئی تھی، کی جانب گئے اور وہاں زیتون کا پودا لگایا۔ بعد ازاں لجنہ کی مارکی میں تشریف لے گئے اور کچھ دیر وہاں موجود رہے۔ حضورِ انور ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ کا تحفہ عطا فرما کر وہاں سے باہر تشریف لائے اور چلتے ہوئے چار بجے کے کچھ دیر بعد محراب کے قریب موجود داخلی دروازے سے مسجد کے ہال میں داخل ہوئے۔ حضورِانور کی آمد پر احباب فرطِ جذبات سے کھڑے ہو گئے۔ ایک دوست نے عرض کیا کہ ابھی اذان نہیں ہوئی۔ اس پر حضورِانور نے اذان دینےکا ارشاد فرمایا۔ عزیزم لبید احمد نے اذان دینے کی سعادت حاصل کی۔ حضورِ انور نے احبابِ جماعت کو ارشاد فرمایا کہ بیٹھ جائیں۔ اذان کے دوران حضور پُرنور ازراہِ شفقت احبابِ جماعت کی طرف رخ کیے کھڑے رہے۔ کیا ہی خوبصورت سماں تھا جب جماعت سکنتھورپ کے ممبران خوبصورت اذان سن رہے تھے اور ان سب کے سامنے پیارے حضور، پیارے امام بنفسِ نفیس موجود تھے۔ سب کو جی بھر کے دیدار کی سعادت نصیب ہوئی۔
یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے
چل کے خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس
اذان ختم ہوئی تو حضورِ انور نے مختصر توقف کے بعد نماز شروع کروائی۔ سفر پر ہونے کی وجہ سے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ نے نمازِ ظہر و عصر قصر کرکے پڑھائیں۔ ہر دو نمازوں کے بعد حضورِ انور نے مقامی احباب کے اپنی اپنی نماز مکمل ہونے کا انتظار فرمایا۔
نمازوں کے بعد محترم صدر صاحب جماعت نے مہمانوں کو مارکی میں جانے کی درخواست کی ۔ مسجد میں حضورِانور کے ہمراہ تین تصاویر ہوئیں۔ سب سے پہلی مجلس عاملہ سکنتھورپ، دوسری احبابِ جماعت احمدیہ سکنتھورپ جبکہ تیسری اس موقع پر موجود ریجنل امراء و مبلغین کرام کی۔
حضورِ انور چار بج کر چوبیس منٹ پر مسجد سے باہر تشریف لائے اور مسجد کے غربی جانب ایک حصے کا معائنہ فرماتے ہوئے مربی ہاؤس ملحقہ مسجد بیت السلام میں تشریف لے گئے۔
شام چار بجے سے کچھ پہلے سے مہمان تقریب میں شمولیت کے لیے آنا شروع ہو چکے تھے۔ پونے پانچ بجے سے کچھ پہلے حضور پُرنور مربی ہاؤس سے باہر تشریف لائے اور تقریب کے لیے نصب کی جانے والی مارکی کے شرقی جانب لگائی جانے والی نسبتاً چھوٹی مارکی میں تشریف لائے جہاں تقریب میں شامل ہونے والے معززین کو حضورپُرنور سے ملاقات کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس موقع پرMartin Vickers MP, Holly Mumby-Croft MP, Councillor Janet Longcake, Air commodore Andrew Dickens, Superintendent Sharon سمیت بعض معززین موجود تھے۔
معززین نے حضورِ انور کی خدمت میں سکنتھورپ کا تعارف پیش کیا۔ معززین پانچ بجے سے کچھ پہلے تقریب میں شمولیت کے لیے مین مارکی میں تشریف لے گئے جبکہ حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پانچ بج کر ایک منٹ پر تقریب میں شمولیت کے لیے مارکی میں تشریف لے گئے۔
پروگرام کے ماڈریٹر کے فرائض قمر الدین محمد صاحب صدر جماعت سکنتھورپ نے ادا کیے۔ تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآنِ کریم سے ہوا۔ حسن سلبی صاحب مربی سلسلہ نے سورۃ البقرہ کی آیات ۱۲۸ تا ۱۳۰ کی تلاوت و انگریزی ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ریجنل امیر نارتھ ایسٹ ڈاکٹر سید مظفر احمد صاحب نے حاضرین کو خوش آمدید کہتے ہوئے حضور انور کی اس تقریب میں موجودگی کو بابرکت قرار دیا اور اس مسجد کے افتتاح کے لیے تشریف لانے پر شکریہ ادا کیا۔ موصوف نے جماعت احمدیہ کا تعارف کروانے کے بعد مسجد کی مختصر تاریخ اور حالات بیان کیے اور اس مسجد کی منظوری کے لیے مقامی کونسل کا شکریہ ادا کیا۔
بعد ازاں ممبر آف پارلیمنٹ سکنتھورپ مکرمہ ہولی ممبی کرافٹ صاحبہ (Holly Mumby-Croft MP)نے حضور انور کا خیر مقدم کرتے ہوئے آج کے دن کو یادگار قرار دیااور اس تقریب میں مدعو کیے جانے پر شکریہ ادا کرتے ہوئےکہا کہ ہم حضور انور کے خطاب کے منتظر ہیں۔
ممبر آف پارلیمنٹ کلیتھوپ مکرم مارٹن وِکرز صاحب(Martin Vickers MP) نے کہا کہ مختلف کمیونیٹیز کو ایک جگہ جمع کرنے اور ایک دوسرے کے عقائد کو جاننے کا یہ ایک بہترین موقع ہے ۔ مجھے علم ہے کہ مذہبی عقائد بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور مختلف عقائد کے افراد کا اس تقریب میں آنا مستقبل کے تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے خوش آئندبات ہے۔
کونسلر نارتھ لنکاشائر مکرمہ جینیٹ لانکیک صاحبہ (Councillor Janet Longcake)نے کہا کہ حضور انور سے ملاقات میرے لیے ایک اعزاز ہے۔ مجھے اس تقریب میں دعوت دینے کا بہت شکریہ ۔مجھے احمدی کمیونٹی کو جاننے کا بھی موقع ملا ہے اور اس کا مطمح نظر ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘ یقیناً اس معاشرے میں امن و سلامتی کی علامت ہے۔
خطاب حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ
پانچ بج کر ۲۱ منٹ پر حضور انور منبر پر تشریف لائے اور انگریزی زبان میںخطاب کا آغاز فرمایا۔
تشہد، تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
تمام معزز مہمانان کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سب سے پہلے تو مَیں دل کی گہرائیوں سے آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ یہاں ہماری اس مسجد کے افتتاح کی تقریب میں شرکت کے لیے تشریف لائے ہیں۔ ہمارے مہمانوں کی اکثریت احمدیت یا اسلام سے تعلق نہیں رکھتی اس کے باوجود آپ تمام مہمان ہماری تقریب میں شامل ہورہے ہیں یہ بات آپ کی وسعتِ قلبی کو ظاہر کرتی ہے۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خدا کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔ پس آپ سب مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں اپنے دلی جذبات کا اظہار کر رہا ہوں۔
آج کا دن ہمارے لیے نہایت خوشی اور مسرت کا دن ہے کیونکہ آج ہم اپنی اس نئی مسجد کے افتتاح کی توفیق پا رہے ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں بھی آئیں جس کی وجہ سے اس کی تعمیر اور افتتاح میں تاخیر ہوئی۔ مقامی آبادی کی طرف سے اس مسجد کے قیام کی مخالفت کی گئی لیکن خدا کے فضل سے تمام مشکلات دور ہوگئیں۔ اس سلسلے میں مَیں مقامی کونسل اور متعلقہ حکام نیز مقامی آبادی کا بھرپور شکریہ ادا کرتا ہوں۔
اس مسجد کا قیام ہماری جماعت کی مالی قربانیوں کے طفیل ممکن ہوا ہے۔ بعض احباب نے اس سلسلے میں بڑی بھاری رقوم پیش کیں تاکہ وہ سب ایک جگہ جمع ہوکر اجتماعی طور پر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی کوشش کرسکیں۔
مجھے اندازہ ہے کہ جب میں یہ بات کہتا ہوں کہ یہ مسجد اس علاقے میں اسلامی تعلیمات کے عملی اظہار کا مظہر ہوگی تو یقیناً بعض لوگوں کے دلوں میں وساوس اور خدشات پیدا ہوتے ہیں اور یہ قدرتی بات ہے، جس کا ہمیں احساس ہے۔ اس دور میں تو ویسے بھی مسلمانوں اور اسلام کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسلام میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام تو ظلم اور زیادتی سے منع کرتا ہے اور معاشرے میں امن اور سلامتی کے قیام کا درس دیتا ہے۔ اسلام کا پیغام تو یہ ہے کہ بنی نوع انسان بلا تفریق مذہب و ملت اور رنگ و نسل انسان ہونے کی حیثیت میں اکٹھے ہو جائیں۔
بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ کسی علاقے میں اسلام کا تعارف اچھی طرح ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہاں مسجد بنادے۔ اس بات سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ اس عمل سے غیر مسلم اسلام کی تعلیمات کو قریب سے دیکھ پائیں گے۔
اسی طرح اسلام ہمیں یہ حکم بھی دیتا ہے کہ بلا امتیاز ہم بنی نوع انسان کے حقوق ادا کریں۔ اس حوالے سے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلام کا جو نقشہ یہ شدت پسند گروہ پیش کرتے ہیں اسلامی تعلیمات اس سے یکسر مختلف ہیں۔ اسلام تو امن و سلامتی اور محبت کا مذہب ہے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ بات آپ کو متاثر کرنے کے لیے میں یوں ہی کہہ رہا ہوں بلکہ یہ قرآنی تعلیمات ہیں جو میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ اسلام بڑا واضح حکم دیتا ہے کہ دین کے معاملے میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں۔
ہر حقیقی مومن اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ جب بھی کوئی مسجد تعمیر ہو تو وہ ان مقاصد کے تابع ہو جو اولین مسجد یعنی بیت الحرام کی تعمیر کے مقاصد تھے۔ پس ہر مسجد کا رخ کعبۃ اللہ کی طرف ہی ہوا کرتا ہے۔ بیت اللہ کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو بھی اس میں داخل ہوتا ہے وہ گویا امن میں داخل ہوتا ہے۔ قرآن نے تو یہ حکم دیا ہے کہ جاہل شخص کی جہالت کا جواب بھی جہالت سے نہیں دینا بلکہ امن اور وقار سے ایسی صورتحال سے گزر جانا ہے۔ اسلام مسلمانوں کو صبر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
عین ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ اگر اسلام اتنا ہی پرامن مذہب ہے تو اسلام کے آغاز میں جنگیں اور خون خرابہ کیوں ہوا۔ یہ سوال دراصل اسلام کی تعلیمات سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ اسلام تو بڑے پیچیدہ اور مخصوص حالات میں جنگ کی اجازت دیتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ پر انتہائی ظلم و ستم ہوا۔ انہیں گھروں سے بےگھر کیا گیا، انہیں قتل کیا گیا۔ مکہ معظمہ کے تیرہ سالہ قیام کے دوران مسلمانوں پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے گئے۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد بھی اُن ظالموں نے اسلام کا پیچھا کیا، مسلمانوں پر زبردستی جنگ مسلط کی۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کو محض دفاعی جنگ کی اجازت دی گئی۔ اس اجازت کا ذکر سورہٴ حج کی آیات میں ملتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان لوگوں کو جنگ کی اجازت دی گئی جن پر حد درجہ ظلم ہوا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد پر قادر ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے ذریعے بعض دوسرے گروہوں کو روکنے کا انتظام نہ فرماتا تو یقیناً لوگوں نے مسیحیوں کے گرجاگھر، یہود کے معابد اور مسلمانوں کی مساجد سب کو منہدم کردینا تھا۔
پس مسلمانوں کو دفاعی جنگ کی اجازت مذہبی آزادی کے قیام کی غرض سے دی گئی تھی۔
آج کے دور میں اگر جائزہ لیا جائے تو کہیں بھی مسلمان اسلام کی سربلندی کے لیے کفار سے برسرِ پیکار نہیں۔ بلکہ یہ سیاسی جنگیں ہیں جن میں اسلامی ممالک کے علاوہ دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔ یوکرین کی مثال آپ سب کے سامنے ہے۔ اس دور کی جنگیں دراصل زیادہ سے زیادہ علاقے اور وسائل پر قابض ہونے کے لیے لڑی جانے والی جنگیں ہیں۔ پس یہ تو بہت بڑا ظلم ہوگا اگر ان جنگوں کو مذہب سے نتھی کیا جائے۔
ہم تو اس بات پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ہر طرح کی مذہبی آزادی میسر ہے۔ ہم اپنے دین پر آزادی کے ساتھ عمل کرسکتے ہیں۔ اپنے مذہب کے پرچار کے لیےمساجد کی تعمیر کرسکتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ حقوق العباد پر بھی بڑا زور دیتی ہے۔ مثلاً ہم نے دنیا کے پسماندہ ترین اور دور دراز علاقوں میں ہسپتال اور سکول تعمیر کیے ہیں۔ ایسے ہی پسے ہوئے طبقات تک ہم پینے کا صاف پانی پہنچانے کا انتظام کررہے ہیں۔ ہماری ان کاوشوں سے مستفید ہونے والے احباب محض احمدی نہیں ہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگ خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں وہ ان سہولیات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ اس مسجد کی تعمیر سے اس علاقے کے لوگ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے متعارف ہوسکیں گے۔ اسی طرح ان لوگوں کے اسلام اور مسلمانوں سے متعلق تمام شکوک وشبہات بھی ان شاءاللہ دور ہو جائیں گے۔ اس مسجد کا تو نام ہی’بیت السلام‘یعنی سلامتی اور امن کا گھر رکھا گیا ہے۔
آخر میں مَیں خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ یہ مسجد خدا کے نور اور اس کی روشنی کا مظہر بن جائے۔ خدا کرے کہ یہ مسجد حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی، رواداری اور محبت کی طرف توجہ دلاتے چلے جانے کا باعث ہو۔ خدا کرے کہ یہاں کے مقامی احمدی مسلمان اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے ہوں۔ یہ لوگ یہاں کی آبادی کے لیے امن اور سلامتی کا ضامن بن جائیں۔
آخر میں مَیں آپ سب کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ اس تقریب میں شامل ہوئے۔بہت شکریہ
پانچ بج کر ۴۹ منٹ پر حضور انور کا خطاب اپنے اختتام کو پہنچا جس کے بعد حضور انور نے دعا کروائی۔ اس کے بعد حضور انور نے تمام مہمانان کے ہمراہ عشائیہ تناول فرمایا۔
ادارہ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل اس بابرکت موقع پر حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، ممبران مجلس عاملہ و ممبران جماعت سکنتھورپ اور جماعت احمدیہ برطانیہ کو مبارک باد پیش کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مسجد کو اس کے نام کے موافق امن کا گہوارہ بنا دے اور جماعت احمدیہ عالمگیر کی جانب سے دنیا کے ہر ملک اور ہر نگر میں قیامِ امن کی خاطر کی جانے والی کاوشوں کو مؤثر بنائے۔ آمین