جماعت احمدیہ نیو کاسل، برطانیہ میں امن کانفرنس کا انعقاد
محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ نیو کاسل نے ۴؍ جون ۲۰۲۳ءبروز اتوار ایک مقامی ہوٹل میں ’’ابدی امن کیسے حاصل کیا جائے‘‘ کے عنوان پر ایک امن کانفرنس کا انعقاد کیاجس میں مختلف مذاہب کے نمائندگان کے علاوہ لارڈ میئر نیو کاسل ،کونسلر ویرونیکا ڈن صاحبہ، ورشپ فل آف گیٹس ہیڈ کونسلر ایلین میک ماسٹرصاحبہ، میئر پونٹ لینڈ کونسلر کیرن اووربری صاحبہ اور مرکزی مہمان خصوصی امام مسجد فضل لندن اور مشنری انچارج یوکے مکرم عطاء المجیب راشد صاحب نے شرکت کی۔ مہمانوں سمیت کُل حاضری ۱۲۰؍رہی۔ایک نمائش کا بھی اہتمام تھاجس میں قرآن مجید کےمختلف تراجم اور دیگر جماعتی لٹریچر رکھا گیا تھا۔
تلاوت قرآن کریم کے بعد صدر جماعت منہاس یونس صاحب نے استقبالیہ کلمات میں تمام معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے اس کانفرنس کی غرض و غایت بیان کی۔ طاہر سلبی صاحب ریجنل مشنری نے جماعت احمدیہ کا تعارف پیش کرتے ہوئے احمدی عقائد اور چند قریبی شہروں میں جماعت کی سرگرمیوں کا تذکرہ کیا۔انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کا ذکر کرتے ہوئے نیو کاسل اور ہارٹلے پُول میں چیریٹی واک، نئے سال کے موقع پرگلیوں اور سڑکوں کی صفائی ستھرائی ، خوراک کا عطیہ دینے اور چیریٹی اداروں کے لیے رقم جمع کرنا جیسے کاموں میں جماعت احمدیہ کی کاوشوں کو بھی اُجاگر کیا۔
کونسلر ویرونیکا ڈن صاحبہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ امن کا اطلاق مذہبی اور شہری دونوں حوالوں سے ہوتا ہے اور یہ لفظ ایک وسیع معنے رکھتا ہے۔ کونسلر ایلین میک ماسٹرصاحبہ نے کہا کہ مثبت امن کی تعریف ان رویوںّ سے ہوتی ہے جو ایک پُرامن معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں اور اسے برقرار رکھتے ہیں۔ انہوں نے جماعت احمدیہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے کام ایک مضبوط اور زیادہ جامع کمیونٹی بنانے کے لیے اکٹھے ہونے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں جو افہام و تفہیم اور ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے۔
امام صاحب نے اختتامی تقریر میں اپنے اہل و عیال میں امن قائم کرنے کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بچے اپنے والدین کا احترام کریں اور والدین اپنے بچوں کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کریں۔ اسلام ایک ایسے معاشرے کے قیام کا درس دیتا ہے جس کی بنیاد والدین اور بچوں کے درمیان مساوات، محبت، پیار اور مہربانی پر ہو۔اُنہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ عالمی امن اس وقت حاصل کیا جا سکتا ہے جب قومیں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ نیز یہ کہ طاقتور ممالک کو چھوٹی قوموں کے معاملات میں مداخلت کرنے کی بجائے عالمی نظام قیام امن کے لیےاپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
بعد ازاں مجلس سوال و جواب منعقد کی گئی جس میں اسلام میں خواتین کے حقوق، احمدی اور دیگر مسلمانوں کے درمیان عقائد کا فرق، تصورِ جہاد اور نظام خلافت سے متعلق حاضرین کے سوالات کے تفصیلی جوابات دیے گئےجس کے بعد اجتماعی دعا سے اس کانفرنس کا اختتام ہوا۔
عشائیہ کے دوران مہمانوں کی اکثریت نے آپس میں تبادلہ خیال کیا اور اپنی مثبت رائے کا اظہار کیا۔مہمانوں کو رخصت کرتے وقت قرآن مجید اور لٹریچر کے تحائف بھی دیے گئے۔
(رپورٹ:لطیف احمد شیخ۔ نمائندہ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)