احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
فیصلہ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر ضلع گورداسپور
نقل حکم اجلاس سی ایم ڈالس صاحب بہادرڈپٹی کمشنر بہادر ضلع گورداسپور مرجوعہ ۱۴؍اپریل ۱۹۰۳ء
فیصلہ ۱۳؍مئی ۱۹۰۳ء نمبرمقدمہ ۱۷/۴
کاغذات دربارہ تیاری منارۃ المسیح قادیان وعذرات برخلاف چند اہالیان قادیان … فی الحال کوئی امر ایسا نہیں ہےکہ جس سے نقض امن کا احتمال ہو۔جن لوگوں کو عذر ہے وہ بذریعہ عدالت دیوانی اپنی دادرسی کرسکتے ہیں۔اینجانب فی الحال دست اندازی نہیں کرتے۔کاغذات داخل دفتر ہوں۔دستخط حاکم ( بحوالہ الحکم نمبر۲۱ جلد۷۔۱۰جون ۱۹۰۳ء ص ۹۔۱۰)
یہ فیصلہ ڈپٹی کمشنر سی۔ایم۔ڈیلس صاحب نے کیاتھا۔ ان کامختصرساتعارف یہ ہے۔
میجر ڈیلس: Charles Mowbray Dallas
۳۰؍اگست ۱۸۶۱ء کو پیدا ہوئے۔ ۲۲؍جنوری ۱۸۸۱ء کو انہوں نے انڈین سول سروس جائن کی اور ۳؍ اکتوبر ۱۸۸۲ء کو ہندوستان آئے۔ ۱۸۸۲ء سے ۱۸۸۷ء تک انہوں نے فوج میں ملازمت جاری رکھی اور اسی دوران ہندی اور پشتو زبان میں پہلے ابتدائی اور پھر اعلیٰ سطح کے امتحانات پاس کیے۔ ۱۸۸۷ء میں ان امتحانات کے پاس ہونے پر انہیں اسسٹنٹ کمشنر بنا دیا گیا۔ بطور اسسٹنٹ کمشنر لاہور، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور، مردان اور تھل وغیرہ میں تعینات رہے۔۱۸۹۷ء میں امرتسر میں تعیناتی کے دوران انہیں ڈپٹی کمشنر کے عہدہ پر ترقی ملی۔بعد ازاں سیالکوٹ اور گورداسپور وغیرہ مقامات پر بھی ڈپٹی کمشنر رہے۔ ۱۹۰۵ء میں انہیں پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر ریاست پھلکیاں اور بہاولپور میں تعینات کیا گیا۔ اور ۱۹۱۰ء میں انہیں دہلی کا کمشنر بنا دیا گیا۔۱۹۱۶ء میں انبالہ کی کمشنری سے ریٹائرڈ ہوئے۔ملٹری کے لحاظ سے انہیں کپتان سے۱۹۰۱ء میں میجر اور پھر ۱۹۰۷ءمیں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدہ پر ترقی ملی۔
۱۸۹۳ء میں ان کی شادی Catherine Dallas سے ہوئی اور اس سے ان کے دو بچے Kathleen Campbell Dallas اور Alfred Stuart Dallas پیدا ہوئے۔ کرنل ڈیلس کی وفات ۶؍ جنوری ۱۹۳۶ء میں ہوئی۔
( History of Services of Gazetted Officers Employed In The Punjab 1900 pg: 184.-185
منارہ کی تعمیرمیں روک اور الٰہی مصالح ایک معترضانہ سوچ اور اس کی تردید
ہرچندکہ اب اگرکوئی ظاہری روک تھی بھی تووہ ختم ہوگئی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد مینارکی تعمیردوبارہ شروع نہیں ہوئی۔اس کی کیاوجہ تھی ؟کیاوجہ ہوسکتی تھی؟ تاریخ خاموش ہےیانہیں۔البتہ مؤرخین خاموش نہیں رہے۔مختلف وجوہات کی تلاش میں رہے۔ وہ تو بعدکی بات ہے کہ مینارکی تعمیرنے خودبول کربتادیا کہ کیاوجہ ہوسکتی تھی لیکن بعض ایسے بھی کورچشم ثابت ہوئے کہ اتنے بلندوبالامینارکودیکھ کربھی وہ سمجھ نہ پائے اور مینارکی تعمیرمیں عارضی رکاوٹ کواپنے مستقل تعصب اور کینے کاسہارادے کرایسی وجوہات اور اسباب پیش کیے کہ عقل ایسے سوانح نگار پرحیران ہے۔ان کی لکھی ہوئی کتاب پڑھ کرغالب کایہ شعر یادآجاتاہے
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سوانح پرمبنی ایک کتاب مجدداعظم بھی ہے۔ اس کے مصنف محترم ڈاکٹربشارت احمدصاحب منارۃ المسیح کی تعمیرمیں اس عارضی روک کی بابت لکھتےہیں:’’حضرت اقدس مرزا صاحبؑ کو جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ آیا ہوں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی پیشین گوئیوں کو پورا ہوتے دیکھنے کا بڑا شوق اور بڑا خیال تھا۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث کو جس میں مسیح موعود کی جائے نزول دمشق کا مشرقی منارہ بتایا گیا تھا۔ آپ اپنی کتابوں میں ثابت کر آئے تھے کہ یہ اعلیٰ پایہ کی حدیث نہیں۔ روایت اور درایت دونوںکے لحاظ سے اس پر اس قدر اعتراضات پڑتے ہیں کہ اس کی مثال ایک چیونٹیوں بھرے کباب کی سی ہے۔ روایتاً تو اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ امام بخاری نے اسے رد کر دیا اور درایتاً یہ اس لئے ناقابل قبول ہے کہ جب قرآن کریم کی تیس آیات سے صریح طور پر یہ ثابت ہو چکا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام فوت ہو چکے ہیں اور مرے ہوئے اس دنیا میں واپس نہیں آتے تو اُن کا کسی منارہ پر نزول کیا معنی رکھتا ہے؟ علاوہ ازیں ایک اور حدیث ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے جس میں مسیح موعود کو اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ فرما کر یہ بتایا ہے کہ وہ تمہارا امام ہو گا اور اے اُمتی لوگو! وہ تم میں سے ہو گا۔ اس اعلیٰ پایہ کی حدیث سے دمشقی نزول والی حدیث مخالف پڑتی ہے۔ لہٰذا ان حالات میں دمشقی نزول والی حدیث کو کس طرح قبول کیا جاسکتا ہے؟ لیکن ساتھ ہی حضرت مرزا صاحبؑ کا یہ بھی مذہب تھا کہ اگر کسی حدیث کی تاویل ہو سکے تو اُسے رد نہ کیا جائے۔ اس لئے اس حدیث کی ایک تاویل بھی آپ نے کی جو بالکل درست معلوم ہوتی ہے اور وہی واحد تاویل ہے جو اس کی ہو سکتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ یہ ایک کشفی نظارہ تھا جو آنحضرتﷺ نے دیکھا اور اپنے صحابہؓ کے روبرو بیان فرمایا۔ اور یہ ایک مسلّمہ امر ہے کہ رؤیا اور کشوف اکثر تعبیرطلب ہوتے ہیں۔ پس مسیح موعود کا دمشق کے مشرق کی طرف نزول بتاتا ہے کہ اس کی بعثت کسی ایسے مقام پر ہو گی جو دمشق سے مشرق کی طرف ہو گا۔ چنانچہ قادیان دمشق سے ٹھیک مشرق کی طرف واقعہ ہے اور منارہ کے معنی جائے نُور کے ہیں جس میں یہ اشارہ ہے کہ مسیح موعود کا مقام بعثت اس کے زمانہ میں اسلام کے نور اور روشنی کے پھیلنے کی جگہ ہو گا۔ جیساکہ حضرت مرزا صاحب کے زمانہ میں قادیان تھا اور دو زرد چادروں سے جس میں مسیح موعود کو آنحضرت صلعم نے ملبوس دیکھا مراد علم تعبیر کی کتب کے رُو سے دو بیماریاں تھیں جو اس کے لاحق حال ہوںگی۔ جیسا کہ حضرت مرزا صاحب کو دوران سر اور کثرت بول کی بیماریوں کی اکثر تکلیف رہا کرتی تھی۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس معقول تاویل کے باوجود حضرت مرزا صاحب کو یہ خیال بھی آیا کرتا تھا (جیسا کہ بعض حدیث میں ہے کہ رویا کو ظاہری طور پر بھی پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے) کہ جہاں تک ممکن ہے اس کشفی نظارہ کو کسی حد تک ظاہری طور پر بھی پورا کرنا چاہئے۔ علاوہ ازیں آپ کو خود بھی یہ الہام ہو چکا تھا کہ ’’بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد۔‘‘ جس کا اصل مطلب تو یہ ہے کہ آپ کے علم کلام اور لٹریچر کے ذریعہ مسلمانوں کا قدم ایک ایسے بلند مینار پر نہایت مضبوط جا پڑا جہاں اُسے کسی قسم کا خطرہ کفر اور باطل کے حملوں سے نہ رہا۔ لیکن آپ کو یہ خیال ہوا کہ اگر حدیث مذکورہ بالا اور اس الہام کو اپنے ظاہری رنگ میں بھی پُورا کرنے کی کوشش کی جائے تو بطور تفاول نیک کے ہرج کوئی نہیں۔ پس آپ نے اس منارہ کو جس کا وجود استعارہ اور مجاز کے رنگ میں مسیح موعود کے وجود سے وابستہ تھا ظاہری رنگ میں بھی بطور یادگار کے تعمیر کرنا چاہا۔
اشتہار برائے منارۃ المسیح
چنانچہ آپؑ نے اس منارۃ المسیح کی تعمیر کے لئے جماعت میں چندہ کی تحریک کی اور ۲۸؍مئی ۱۹۰۰ء کو ایک اشتہار اس بارے میں شائع فرمایا جس میں آپ نے اس منارہ کی تعمیر کی وجوہات کا بھی ذکر فرمایا جو وہی ہیں جنہیں میں ابھی اوپر بیان کر آیا ہوں اور اس منارہ سے تین مفید اغراض بھی وابستہ فرمائے۔ ایک یہ کہ جامع مسجد کے صحن میں یہ تعمیر کیا جائےگا۔ جہاں یہ ماذنہ کا کام دےگا۔ یعنی مؤذن اس پر چڑھ کر اذان دیا کرےگا۔ دوم اس منارہ پر ایک بڑی گھڑی لگائی جائے گی جو نمازیوں اور مؤذن کو بلکہ تمام ارد گرد کے لوگوں کو وقت معلوم کرنے میں مدد دے گی۔ سوم اس پر ایک لالٹین بھی نصب کی جائے گی جو رات کو اپنی روشنی سے لوگوں کو نفع پہنچاوےگی۔ اس اشتہار کے بعد یکم جولائی ۱۹۰۰ء کو آپ کو اسی امر کی نسبت ایک اور اشتہار دینا پڑا جس میں آپ نے چندہ کے لئے جماعت کے خاص لوگوں کو متوجہ فرمایا تھا اور بعض مخالفوں کے اس اعتراض کا بھی کہ یہ ایک لغو کام اور اسراف ہے۔ آپ نے جواب دیا تھا۔ فرماتے ہیں:’’یاد رہے کہ اس منارہ کے بنانے سے اصل غرض یہ ہے تا پیغمبر خدا ﷺ کی پیشگوئی پوری ہو جائے۔ اس غرض کے لئے پہلے دو دفعہ منارہ دمشق کی شرقی طرف بنایا گیا تھا جو جل گیا۔ یہ اسی قسم کی غرض ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک صحابی کو کسریٰ کے مال غنیمت میں سے سونے کے کڑے پہنائے تھے تا ایک پیشگوئی پوری ہو جائے۔ اور نمازیوں کی تائید اور وقت شناسی کے لئے منارہ پر گھنٹہ رکھنا ثواب کی بات ہے نہ گناہ۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ مولوی نہیں چاہتے کہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی پوری ہو ……ابن ماجہ کے صفحہ نمبر۳۰۶ پر جو حافظ ابن کثیر کا حاشیہ منارۃ المسیح کے بارے میں ہے اُسے غور سے پڑھیں۔‘‘
ہزار روپے انعام
اسی اشتہار میں آپ نے اس شخص کو ہزار روپے انعام دینے کا اعلان بھی کیا جو حضرت عیسیٰؑ کا جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھنا اور آسمان سے اُترنا کسی حدیث میں سے نکال کر دکھا دے آپ نے جسد عنصری کے ساتھ والی شرط کو ضروری اس لئے قرار دیا کہ آسمان سے نزول اور اس کی طرف صعود کا لفظ ہمیشہ روحانی رنگ میں بولا جاتا ہے۔ پس جب تک جسد عنصری کے ساتھ تخصیص نہ ہو یہ الفاظ ہمیشہ روحانی رنگ میں لئے جائیں گے۔ حضرت مرزا صاحبؑ کا دعویٰ یہ تھا کہ کسی حدیث میں حضرت عیسیٰؑ کا آسمان کی طرف صعود یا آسمان سے نزول جسد عنصری کے ساتھ مذکور نہیں۔ اور اگر کوئی ایسی حدیث نکال کر دکھا دے تو ایک ہزار روپیہ ہم سے انعام لے لے۔ اس چیلنج کے جواب میں کسی مولوی کی جرأت نہ ہوئی کہ حدیثوں کے بحر ذخار میں سے ایسی کوئی ایک حدیث بھی نکال کر دکھا دیتا اور ہزار روپے انعام لینے کے لئے آ موجود ہوتا۔
(جاری ہے)