نماز میں عاجزی اور خشوع
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۰؍ اپریل ۲۰۱۵ء)
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ (المؤمنون: ۲۔ ۳)یقیناً مومن کامیاب ہو گئے۔ وہ جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔ ان آیات میں سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ کہہ کر مومنوں کی کامیابی کی یقینی خوشخبری عطا فرمائی ہے۔ لیکن کونسے مومن؟ ان کی بہت سی شرائط اگلی آیتوں میں بیان فرمائی ہیں کہ ان شرائط کے ساتھ زندگی گزارنے والے مومن ہی فلاح پانے والے ہیں اور ان شرائط میں سے یا اُن اوصاف میں سے جن سے ایک مومن کو متصف ہونا چاہئے، پہلی خصوصیت یا حالت یہ ہے کہ وہ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ۔ اپنی نمازوں میں خشوع دکھانے والے ہیں۔ ’’خاشع‘‘ کے عام معنی یہی کئے جاتے ہیں کہ نماز میں گریہ و زاری کرنے والے۔ لیکن اس کے اَور بھی معنی ہیں اور جب تک سب معنی پورے نہ ہوں ایک مومن کی حقیقی معیار کی حالت پیدا نہیں ہوتی۔ اور لغات کے مطابق خشوع کے یہ معنی ہیں کہ انتہائی عاجزی اختیار کرنا۔ اپنے آپ کو بہت نیچے کرنا۔ اپنے نفس کو مٹا دینا۔ تذلل اختیار کرنا۔ اپنے آپ کو کمتر بنانے کے لئے کوشش کرنا۔ نظریں نیچی رکھنا۔ آواز کو دھیما اور نیچا رکھنا۔
پس دیکھیں! اس ایک لفظ میں ایک حقیقی مومن کی نماز اور عبادت کا کیسا وسیع نقشہ کھینچا گیا ہے اور جو انسان خدا تعالیٰ کے آگے اپنی عبادتوں کے یہ معیار حاصل کرنے کے لئے جھکے گا، اپنی عاجزی کو انتہا پر پہنچانے والا ہو گا، اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مٹانے والا ہو گا اور جو دوسری خصوصیات بیان کی گئی ہیں ان کو اپنانے والا ہو گا تو پھر وہ جہاں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا ہو گا وہاں وہ اس طرف بھی توجہ دے گا کہ مَیں نے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مخلوق کا بھی حق ادا کرنا ہے اور پھر یہ نمازیں اس کے دنیاوی معاملات سلجھانے والی بھی بن جائیں گی۔ پھر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق
بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں
شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں
(براہین احمدیہ حصّہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ ۱۸)
کی تصویر بننے کی کوشش کرے گا اور یہ تصویر بننے کی کوشش کرتے ہوئے، اپنی اَنا اور نفس کی بڑائی کے چنگلوں سے آزاد ہونے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے دنیاوی معاملات بھی سلجھائے گا یا سلجھانے کی کوشش کرے گا۔ اپنی نظروں کو حیا کی وجہ سے نیچے رکھتے ہوئے صرف نماز کی حالت میں ہی نہیں بلکہ عام روزمرّہ زندگی میں بھی اس پر عمل کرتے ہوئے معاشرے کی بیشمار برائیوں سے بچے گا یا بچنے کی کوشش کرے گا۔ اپنی آواز کو نیچا رکھنے والا جہاں عبادت کے تعلق سے اس کا ادراک حاصل کرے گا وہاں اپنے روزمرّہ معمولات میں بھی چیخنے چلّانے اور لڑائی جھگڑے سے محفوظ رہے گا یا رہنے کی کوشش کرے گا۔ پس کئی برائیوں کا جن کا روزانہ کے معمولات سے تعلق ہے ایک مومن اپنی نمازوں اور عبادتوں کی وجہ سے ان کا بھی خاتمہ کر لیتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسی نمازوں اور ایسے اثر اپنے پر قائم کرنے والے جو لوگ ہیں وہ فلاح پا گئے۔ ایک ترجمہ تو فلاح پانے کا کیا گیا ہے جیسا کہ مَیں نے آیت میں ترجمہ کیا تھا کہ کامیاب ہو گئے۔ لیکن اس کامیابی کی بڑی وسعت ہے کہ کس طرح کامیابی حاصل کی۔ لغت میں اس کے معنی ہیں آسانیاں پیدا ہونا۔ کشائش ہونا۔ خوش قسمتی کا ملنا۔ خواہش کا پورا ہونا۔ تحفظ ملنا۔ اچھائی اور خوشی کا مستقل رہنا۔ زندگی کی نعمتوں کا ملنا۔
پس نیکیاں بجا لانے والے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر نیکیاں کرتے ہیں کس کس رنگ میں فائدہ اٹھانے والے ہیں یا اللہ تعالیٰ کس کس رنگ میں ان پر فضل کرتا ہے۔ یہ سب انسانی تصور سے بھی باہر ہے اور ان فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے پہلا قدم اور انتہائی اہم قدم نمازوں میں خشوع پیدا کرنا رکھا ہے۔ ان باتوں کے حصول کے لئے عبادت کرنا رکھا ہے۔
عاجزی تو بعض دنیادار بھی بعض دفعہ دکھا دیتے ہیں بلکہ صرف اگر گریہ و زاری کا سوال ہے تو بعض دنیا دار ذرا ذرا سی بات پر ایسی گریہ و زاری کرتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ایسی جگہوں پر جہاں ان کے دنیاوی مفاد متاثر ہو رہے ہوں وہ ذلیل ترین ہونے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ یا عارضی طور پر جذبات کا اظہار بھی بعضوں سے ہوتا ہے۔ بعض حالات دیکھ کر، بعض لوگوں کی حالتیں دیکھ کر رحم بھی پیدا ہو جاتا ہے اور دردناک حالت دیکھ کر ان میں انتہائی جذباتی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ سب یا تو اپنے مفادات کے لئے یا دنیا دکھاوے کے لئے یا ایک عارضی اور وقتی جذبے کے تحت ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا تو ان ظاہری باتوں سے بہت دُور ہوتا ہے۔
دنیا داروں کی جذباتی حالت کے بارے میں یا ظاہری اور وقتی طور پر گریہ و زاری کا اظہار کرنے والوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ بیان فرمایا کہ
’’بہت سے ایسے فقیر مَیں نے بچشم خود دیکھے ہیں اور ایسا ہی بعض دوسرے لوگ بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ کسی دردناک شعر کے پڑھنے یا دردناک نظارہ دیکھنے یا دردناک قصہ کے سننے سے اس جلدی سے ان کے آنسو گرنے شروع ہوجاتے ہیں جیسا کہ بعض بادل اس قدر جلدی سے اپنے موٹے موٹے قطرے برساتے ہیں کہ باہر سونے والوں کو رات کے وقت فرصت نہیں دیتے کہ اپنا بستر بغیر تر ہونے کے اندر لے جاسکیں‘‘ (یعنی جس طرح بارش ایک دم آ جاتی ہے اس طرح ایک دم ان کے آنسو بہنے لگ جاتے ہیں۔ پھر فرمایا) ’’لیکن مَیں اپنی ذاتی شہادت سے گواہی دیتا ہوں کہ اکثر ایسے شخص مَیں نے بڑے مکّاربلکہ دنیاداروں سے آگے بڑھے ہوئے پائے ہیں اور بعض کو مَیں نے ایسے خبیث طبع اور بد دیانت اور ہر پہلو سے بدمعاش پایا ہے کہ مجھے ان کی گریہ وزاری کی عادت اور خشوع خضوع کی خصلت دیکھ کر اس بات سے کراہت آتی ہے کہ کسی مجلس میں ایسی رقت اور سوز و گداز ظاہر کروں۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ ۱۹۴)
پس ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن کے بعض نظارے دیکھ کر آنسو گرنے میں دیر نہیں لگتی لیکن یہ ایک وقتی جذبہ ہوتا ہے۔ جب اپنے مفادات ہوں تو پھر اس شخص میں کبھی یہ کیفیت پیدا نہیں ہوگی۔ اگر ایک وقت میں ایک حالت کو دیکھے جہاں جذبات نہ ہوں، اپنے اپنے مفادات نہ ہوں تو وہ کیفیت پیدا ہو سکتی ہے لیکن جب اپنے مفادات ہوں توکبھی وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی بلکہ وہ ظلم بھی کر دیتا ہے اور کبھی رحم نہیں آتا۔ یا بعض اور ایسی برائیاں ہوتی ہیں جو خدا کو ناپسند ہیں یا ان کی نمازیں اور عبادتیں صرف دکھاوے کے لئے ہوتی ہیں۔ پس جب یہ صورتحال ہو تو قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ کے زمرے میں کس طرح ایسے لوگ آ سکتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ایک بزرگ کا واقعہ سنایا کرتے تھے کہ انہوں نے کئی سال تک باقاعدہ مسجد میں نمازیں پڑھیں تا کہ لوگ ان کی تعریف کریں لیکن خدا تعالیٰ نے ان کی کسی گزشتہ نیکی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ان کے متعلق یہ بات ڈال دی کہ سب لوگ انہیں منافق کہتے تھے۔ (خواہش ان کی یہ تھی کہ لوگ تعریف کریں لیکن لوگ انہیں منافق کہتے تھے۔) آخر ایک دن ان بزرگ کو خیال آیا کہ اتنی عمر ضائع ہوگئی۔ کسی نے بھی مجھے نیک نہیں کہا۔ اگر خدا کے لئے عبادت کرتا تو خدا تعالیٰ تو راضی ہو جاتا۔ یہ خیال ان کے دل میں اتنے زور سے آیا کہ وہ اسی وقت جنگل میں چلے گئے۔ روئے اور دعائیں کیں اور توبہ کی اور عہد کیا کہ خدایا! اب میں صرف تیری رضا کے لئے عبادت کیا کروں گا۔ جب واپس آئے تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ یہ شخص ہے تو بہت ہی نیک مگر معلوم نہیں لوگوں نے اسے کیوں بدنام کر رکھا ہے اور بچے اور بوڑھے سب اس کی تعریف کرنے لگے۔ اس بزرگ نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ خدایا! صرف ایک دن میں نے تیری رضا کی خاطر نماز پڑھی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے میری تعریف شروع کر دی۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد ۱۷صفحہ ۷۰۵)