احمدیہ ہال صدر اور مارٹن روڈ کراچی جمعہ، عید، نکاح اور اجتماعات
احمدیہ ہال صدر اور مارٹن روڈ کے نام کراچی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی احمدی کے لیے نئے نہیں ہوں گے۔ بھلے زمانوں میں ہم نے کبھی احمدیہ ہال کا دروازہ بند نہ دیکھا تھا۔ اور یہ زمانہ اتنا پرانا بھی نہیں۔ ہماری جماعت نماز سینٹر کے قیام سے قبل اردگرد کی جماعتوں میںقائم شدہ مساجد میں بطور حلقہ ملحق رہی۔ احمدیہ ہال میں جمعہ کی ادائیگی کے لیے ایک لمبا راستہ طے کر کے جانا پڑتا تھا۔ جب چھوٹے تھے تو والد صاحب دفتر سے گھر آتے، ہمیں لیتے اور احمدیہ ہال جاتے، جمعہ کے بعد ہمیں گھر چھوڑ کر پھر دفتر چلے جاتے۔ اب ہم سوچتے ہیں تو واقعی یہ ہمارے والد کی ایک بڑی قربانی تھی۔ کراچی کے رہنے والے اس سفر کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ صبح کورنگی سے شیر شاہ۔ پھر جمعہ کے لیے واپس کورنگی پھر کورنگی سے صدر، پھر صدر سے واپس کورنگی، پھر کورنگی سے شیرشاہ واپس اور جمعہ کا یہ سفر کوئی تین گھنٹے میں طے ہوتا۔ اللہ کا شکر کہ ہم کچھ بڑے ہوئے تو بس میں بیٹھ کر احمدیہ ہال پہنچ جاتے۔ ایمپریس مارکیٹ سے احمدیہ ہال تک کا سفر بھی یادداشت پر نقش ہو گیا۔ بس ہمیں ایمپریس مارکیٹ کے قریب اتارتی۔ جہاں سے ہمارا پیدل سفر شروع ہوتا اور مختلف گلیوں سے ہوتے ہوئے ۱۵-۲۰ منٹ کا پیدل سفر طے کرتے ہوئے ہم احمدیہ ہال پہنچ جاتے۔
مجھے سی ویو، چڑیا گھر اورمیوزیم کے رستے یاد نہیں تھے لیکن احمدیہ ہال، مارٹن روڈ، گیسٹ ہاؤس اور بیت الرحمٰن کے طویل راستوں پر میں آنکھیں بند کر کے بھی پہنچ سکتا تھا۔ کیونکہ یہاں ہونے والے واقفینِ نو کے پروگرامز کے سبب مہینہ میں دو سے تین بار وہاں جانا ہوتا۔
ایک روز سوشل میڈیا پر احمدیہ ہال کے باہر ہجوم کی موجودگی کی ویڈیوز سے دل لرزاں تھا کہ خدایا! اب یہاں کچھ ہو نہ جائے۔ ابھی دل تھام کر بیٹھے تھے کہ چند روز بعد مارٹن روڈ کی مسجد پر مذموم حملے کی خبر آ گئی۔ ابھی اس دلخراش واقعہ کے مناظر ہٹے نہیں تھے کہ احمدیہ ہال پر حملہ کی ویڈیو نے جذبات میں تلاطم برپا کر دیا اور یہ جذبات اشکوں کے چراغوں سے مزید روشن ہو گئے۔
احمدیہ ہال میں پڑھی ہوئی عید کی نمازیں بھی واضح یادداشت کا حصہ ہیں۔ قریباً بارہ سال تک عید کی نمازیں وہاں ادا کیں۔ عید کی نماز ہمارا سال کا سب سے بڑا جشن ہوتا۔ سردیوں کے یخ بستہ دنوں میں علی الصبح والدہ ہم سب کو تیار کرتیں۔ صبح صبح ابلاانڈا، گرم سویاں پیش کی جاتیں ۔ رات کے تیار شدہ کپڑے جوتے پہن کر ہم عید بس کے لیے سات یا ساڑھے سات بجے تک مقررہ جگہ پہنچ جاتے۔ کبھی بس صدر صاحب کے گھر کے سامنے ہوتی۔ کبھی کسی سڑک کنارے یا پھر نماز سینٹر کی گلی کے کونے پر۔ موبائل فون کی ایجاد سے قبل رات کو سب کے گھروں میں وقت کی پابندی کی اطلاع دے دی جاتی۔ اکثر بس ہی لیٹ ہوتی اور ہم سب سڑک کنارے کھڑے ہوتے۔ اس انتظار کے دوران والدہ ہمیں تکبیرات کی دہرائی کرواتی رہتیں۔بس آتی ہم سوار ہوتے اور پھر مقررہ جگہوں سے دوسرے دوست احبا ب کو لیتے ہوئےہم عازمِ سفر ہوتے۔ عید بس میں بھی دوران سفر بار بار تکبیرات کا ورد جاری رہتا۔ صدر صاحب جیسے ہی خاموش ہوتے کوئی اور بزرگ شروع کروا دیتا، جب وہ خاموش ہوتے تو کوئی اور ورد جاری کرواتا۔ تاوقتیکہ احمدیہ ہال کی گلی کے کنارے پہنچ جاتے۔ بس سے اترتے تو احمدیہ ہال سے آتی آواز تکبیرات جاری کروا دیتی۔
احمدیہ ہال میں داخل ہوتے ہی سامنے بڑے سے میز پر کئی احباب وقت بچانے کی خاطر عید فنڈ کی پرنٹڈ رسید بکس لیے بیٹھے ہوتے۔ فطرانہ پہلے لے لیا جاتا تھا یا یہ عید بس ہی فطرانہ جمع کرنے کا کام دیتی۔ نماز عید کی ادائیگی کے بعد عید ملنا جاری ہوتا۔ مربی صاحب سے عید ملنے سے لے کر اہل محلہ سمیت کئی احمدیوں سے عید مل لیتے۔ احمدیہ ہال نے کئی سال کراچی جیسے بڑے شہر کی جامع مسجد کا کردار بھی ادا کیا۔
احمدیہ ہال سے واپسی پر بس مختلف راستوں سے ہوتی واپس پہنچتی۔ عید بس نے اس طرح بھی کئی راستے ذہن نشین کروائے۔ صبح ۴ بجے سے شروع ہونے والی تیاری قریباً دن گیارہ، ساڑھے گیارہ بجے گھر واپس پہنچ کر اختتام پذیر ہوتی۔
جامعہ کے پہلے سال ہی احمدیہ ہال میں آخری نماز عید ادا کی اور وہ شاید آخری عید تھی جو وہاں اس طور پر ادا ہوئی۔ کراچی کے بگڑتے حالات اور آئے روز احمدیوں کی شہادتوں نے اس سالانہ پریکٹس پر ایسا اثر ڈالا کہ عید کی وہ رونق کھو گئی۔ اگلے سال ہم سب ایک دوسرے سے عید تو ملے لیکن احمدیہ ہال نہ جاسکنے کا دکھ ہر زبان پر تھا۔ اور اس دلخراش واقعہ نے ۲۰ سال قبل کے ان واقعات کی ایک فلم ذہن میں چلا دی۔
پھر احمدیہ ہال جانے کے راستے مسدود ہوتے چلے گئے۔ یا ہم خود آرام طلب ہوئے کہ جب چھٹی پر گئے اپنے گھر رہے اور نماز سینٹر کی سہولت سے مستفیض ہوئے۔ اس کے بعد ایک وقف نو کے اجتماع اور وقف عارضی کے لیے مربی صاحب ضلع سے ملاقات کے لیے وہاں جانا ہوا۔
پھر اطفال الاحمدیہ کے ضلعی مقابلہ جات وہاں ہوتے۔ شاید اطفال کا ایک اجتماع بھی وہاں ہوا۔ کراچی کا ہر واقفِ نو ان مساجد کے زیرِ احسان ہے۔ یہ مساجد ہماری تعلیم و تربیت کی آماجگاہ تھیں۔ ہوش کے قریباً دس سے بارہ سال ان دونوں مساجد میں ویک اینڈ پر جانا ہوتا۔ والد صاحب دفتر جاتے ہمیں وہاں چھوڑتے اور واپسی پر لے آتے۔ یا سیکرٹری صاحب وقف نو کے ساتھ بسوں میں سفر کرکے ان پروگرامز میں شامل ہوتے۔
سکول کے ایام میں کسی کلاس فیلو نے ہمیں احمدیہ ہال سے نکلتے دیکھ لیا۔ اگلے دن کہتا کہ تمہارا عبادت خانہ صدر میں ہے۔ وہاں کل تم لوگوں کو نکلتے دیکھا۔ میرے لیے عبادت خانہ کا لفظ اس وقت نیا ضرور تھا۔ لیکن اس وقت بھی محسوس ہوا کہ وہ خانہ کعبہ یا خانہ خدا کے نزدیک نزدیک لفظ ہے۔
وقف نو کلاسز کا جیسے ذکر ہوا۔ کراچی کا کوئی ابتدائی واقف نو ایسا نہیں ہوگا جو احمدیہ ہال اور مارٹن روڈ کی مسجد کے چپہ چپہ سے واقف نہ ہو۔ احمدیہ ہال کے زیریں ہال، بالائی بالکونیاں، بالائی ہال، چھت، سیڑھیاں، کوریڈورز، محراب، بڑے بڑے ستون، دفاتر، بک سٹال سب کے سب اب تک ازبر ہیں۔ تیرہ سال ہو گئے احمدیہ ہال دیکھے ہوئے لیکن یہ جیسے سب ذہن پر ایسا نقش ہے کہ ابھی کل کی بات ہو۔ وقف نو اجتماع، کلاسز، اِن ڈور گیمز، علمی مقابلہ جات وغیرہ سب یاد ہے۔ اسی طرح مارٹن روڈ کی کشادہ مسجد کے صحن میں وقف نو کے وہ تمام مقابلہ جات، کلوا جمیعاً، تقسیم انعامات کی جھلکیاں ان حسین یادوں کو تازہ کیے ہوئے ہیں۔
جب میں سوشل میڈیا پر احمدیہ ہال کے میناروں کو شہید کرنے کے وہ دلخراش مناظر دیکھ رہا تھا تو ان مخالفین کا ایک ایک ہتھوڑا صرف مینار نہیں گرا رہا تھا بلکہ تحت الشعور یادوں کے دریچے کھول رہا تھا۔ اس وقت اس ہال میں ۲۰ سال قبل کے ایک اجلاس کی کارروائی ذہن میں امڈ آئی۔ میٹرک میں پڑھنے والے واقفینِ نو کو جامعہ احمدیہ میں داخلہ کی تر غیب دلانے والا اجلاس ہو رہا تھا۔ جب وکیل صاحب وقفِ نو نے واقفینِ نو سے پوچھا کہ کون کون جامعہ جانا چاہتا ہے تو پہلی بار میں نے ہاتھ اٹھا کر جامعہ جانے کا اقرار کیا تھا۔ پھر ان یادوں میں تیاری داخلہ جامعہ کے لیے منعقد ہونے والے اجلاسات کی سیریز تھی۔ کس طرح ایک بار بارش میں بھیگتے احمدیہ ہال پہنچے تھے۔ میرے ذہن میں واقفینِ نو کراچی کا پہلا اجتماع گھوم رہا تھا۔ جس کی سندِ شرکت اب بھی میری وقفِ نو فائل کا حصہ ہے۔ میرے ذہن میں اطفال الاحمدیہ کے ضلعی مقابلہ جات کے وہ مختصر اجلاسات گھوم رہے تھے۔ عیدوں، نمازِ جمعہ، نکاحوں کے اعلانات کے مناظر کا ایک شور برپا تھا۔ نمازوں میں آمین کی وہ گونج، سورۃ الاعلیٰ کی تلاوت میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی اور سورۃ الغاشیہ کے بعد اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنَا حِسَابًا یَسِیْرًا کا وہ زیروبم ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر رہا تھا۔ پھر جب مینار کا چھوٹا سا گنبد ٹوٹ کر زمیں بوس ہوا تو جذبات کے تلاطم سے چیخ چیخ کر بس ایک ہی صدا نکلی کہ
اَللّٰھُمَّ مَزِّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَ سَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا
اللّٰهُمَّ إنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ
اَللّٰهُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْن
رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِيْنَ دَيَّارًا۔ إِنَّكَ إِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوْا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا۔
اے اللہ! انہیں ایسا مزا چکھا کہ ا ن کی طاقت کا نشہ اور زعم پیس کر رکھ دے۔ اے اللہ ہم ان کی گردنیں تیرے سپرد کر کے ان کی شرارتوں کے سبب تیرے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ اے اللہ! ان میں سے سعید روحوں کو ہدایت دے کہ وہ شریر کے شر کو نہیں پہچانتے۔ اے میرے رب ان کافروں کو زمین میں ہنستا بستا نہ چھوڑنا۔ اگر تو نے انہیں چھوڑ دیا تو یہ ان سعید روحوں کو بھی بھٹکا دیں گے اور پھر ان کی نسلوں میں بھی کافر اور فاجر ہی ہوں گے۔