عید الاضحی ایک عظیم الشان حقیقت اپنے اندر رکھتی ہے
درحقیقت اس دن میں بڑاسرّیہ تھا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے جس قربانی کا بیج بویا تھا اور مخفی طور پر بویا تھاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے لہلہلاتے کھیت دکھائے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے ذبح کرنے میں خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں دریغ نہ کیا۔اس میں مخفی طور پر یہی اشارہ تھا کہ انسان ہمہ تن خدا کا ہو جائے اور خدا کے حکم کے سامنے اُس کی اپنی جان،اپنی اولاد،اپنے اقرباو اعزّا کا خون بھی خفیف نظر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو ہر ایک پاک ہدایت کاکامل نمونہ تھےکیسی قربانی ہوئی۔خونوں سے جنگل بھر گئے۔گویا خُون کی ندیاں بہہ نکلیں۔باپوں نے اپنے بچوں کو،بیٹوں نے اپنے باپوں کو قتل کیا۔ اور وہ خوش ہوتے تھے کہ اسلام اور خدا کی راہ میں قیمہ قیمہ اور ٹکڑے بھی کئے جاویں تو ان کی راحت ہے۔مگر آج غور کر کے دیکھو کہ بجز ہنسی اور خوشی اور لہوولعب کے روحانیت کا کونسا حصہ باقی ہے۔یہ عید الاضحی پہلی عید سے بڑھ کر ہے اور عام لوگ بھی اس کو بڑی عید تو کہتے ہیں،مگر سوچ کر بتلائو کہ عید کی وجہ سے کِس قدر ہیں جو اپنے تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور روحانیت سے حصہ لیتے ہیں اور اُس روشنی اور نور کو لینے کی کوشش کرتے ہیں جو اس ضحی میں رکھا گیا ہے۔عید رمضان اصل میں ایک مجاہدہ ہے اور ذاتی مجاہدہ ہے اور اس کا نام بذل الرُّوح ہے۔مگر یہ عید جس کو بڑی عید کہتے ہیں ایک عظیم الشان حقیقت اپنے اندر رکھتی ہے اور جس پر افسوس کہ توجہ نہیں کی گئی۔خدا تعالیٰ نے جس کے رحم کا ظہور کئی طرح پر ہوتا ہےامت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یہ بڑا بھاری رحم کیا ہے کہ اَور اُمتوں میں جس قدر باتیں پوست اور قشر کے رنگ میں تھیں اُن کی حقیقت اس اُمت مر حومہ نے دکھلائی ہے۔
(ملفوظات جلد۲صفحہ ۳۲-۳۳، ایڈیشن۱۹۸۴ء)